عید مبارک ---
عیدالفطر عالم اسلام کا ایک مذہبی تہوار ہے جو ماہ رمضان المبارک کے اختتام کی نشاندہی کرتا ہے اور ہر سال بڑی عقیدت و احترام اور جوش و خروش سے یکم شوال کو منایا جاتا ہے۔ عیدالفطر کی رسموں میں مسلمانوں کا آپس میں بغلگیر ہو کر عید مبارک کہنا اور گرمجوشی سے ایک دوسرے سے نہ صرف ملنا اور رشتہ داروں اور دوستوں کی آؤ بھگت کرنا شامل ہے، نت نئے کپڑے زیب تن کرتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں، ایک دوسرے کی دعوت کرتے ہیں، مختلف قسم کے کھانے پکائے جاتے ہیں اور جگہ جگہ میلے ٹھیلے منعقد ہوتے ہیں۔ بڑے شہروں کے پارکوں اور چڑیا گھروں میں خوب رش ہوتا ہے، اس سے ہوٹلوں اور دیگر جگہوں پر کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے والوں کی بھی چاندی ہوتی ہے جن میں مقامی زبان اور علاقائی ثقافت کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے مگر اب کی بار کرونا وائرس کی وجہ سے یہ سب کچھ ختم ہو کر رہ گیا ہے اور یہ عید اس سے قبل آنے والی عیدوں سے بالکل مختلف ہے۔ کرونا وائرس کے خوف اوراس کی تباہ کاریوں نے دنیا بھر کو اپنی گرفت میں جکڑ رکھا ہے، کئی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی حالات اور معمولات بدل کر رہ گئے ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ اس بار ہم سب بھی اپنا اپنا انداز بدلیں اور وہ طرزِ عمل اپنائیں جو وقت کی ضرورت ہے، یہی وجہ ہے کہ اس بار عید پر ملک بابا جپھی شاہ بہت یاد آئیں گے۔ یہ وہ شخصیت ہے، جس نے ہمیں شعبہ صحافت کی دنیا سے وابستہ کیا یہ بات اس وقت کی ہے جب ضلع قصور میں آج سے ساٹھ سال قبل چھانگا مانگا میں افضل مجاہد آغا ریاض احمد اور وہاں سے نوائے وقت کے نامہ نگار ملک محمد امین مرحوم ہوا کرتے تھے جن کے نزدیک ہر دن عید کا دن ہوتا کیونکہ وہ دن میں سینکڑوں لوگوں سے ملتے تھے اور جس کسی کو ملتے اسے جھپی ڈال کر بغلگیر ہوتے۔ 1987 میں جب ان کی ملاقات راقم الحروف سے ہوئی تو ان کی یہ عادت آہستہ آہستہ مجھ میں بھی داخل ہونے لگی تو ان دنوں میں ہی اس وقت میری ملاقات سینئر صحافی عبد الحفیظ آثم صاحب سے ہوئی جو اس وقت بھائی پھیروسے نوائے وقت کے نامہ نگار ہوا کرتے تھے جو سلطان مجید نامہ نگار نوائے وقت سراے مغل کے چچا ہیں جبکہ یہ نوائے وقت کے نامہ نگار ڈاکٹر عبدالمجید اختر مرحوم جو یہاں سے حضرت سلطان باہوکے خلیفہ تھے، کے بیٹے ہیں۔ ان کے بھتیجوں حاجی ظہور احمد ساجد سماء ٹی وی اور منظور احمد عزیز شاکر جو اس وقت یہاں کی صحافت کے بادشاہ ہوا کرتے تھے، یہ گھرانہ اب بھی شعبہ صحافت سے گہری وابستگی رکھے ہوئے ہے بلکہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ بھائی پھرو میں صحافتی زندگی کا آغاز اسی گھرانے سے ہوا تھا۔ ان دنوں میں میری ملاقات ایک اور شخصیت سے ہوئی جو ضلع قصور اور لاہور کے صحافیوں سے ایک مقامی سیاسی رہنما ہونے کی وجہ سے پیار کیا کرتے تھے اور لوگ انہیں بھی صحافی سمجھتے تھے پھر ایک دن انہوں نے لوگوں کی بات کو سچ کر دکھایا اور آج حاجی محمد رمضان صاحب اس وقت مقامی اخبار کے نامہ نگار ہیں اور ماہنامہ کے ایڈیٹوریل بورڈ کے چیئرمین ہیں۔ باتیں تو بہت ساری اور بھی ہیں مگر پھر کسی دن تفصیل سے بھائی پھرو پریس کلب سے وابستہ صحافیوں کے بارے ذکر کروں گا لہٰذا اب کی بار عید پڑھنے کے بعد جب گلے ملنے کی باری آئے گی تو اس وقت ملک بابا جپھی شاہ کو یاد کرکے یہ گیت دہرایا جا سکتا ہے کہ دوروں دوروں اکھیاں مارے منڈا صحافی دا۔ سب کو میری طرف سے عید مبارک۔