اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے تمام ممالک سے کرونا کے خلاف جنگ تیز کرنے اور ہنگامی اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ کرونا کا پھیلائو زیادہ مگر اس کے خلاف اقدامات کم ہیں مزید وائرس کے باعث عالمی سطح پر نفسیاتی مسائل پیدا ہونے کا خدشہ بھی بڑھ گیا ہے ا س لیے تمام ممالک کو چاہیے کہ وہ لوگوں کی جسمانی صحت کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ذہنی تنائو سے بچنے کے لیے بھی اقدامات کریں یعنی اگر وبا پر قابوبھی پا لیا گیا تو بھی لوگ غم ، اضطراب اور ڈپریشن جیسے امراض کا شکار ہو جائیں گے بلاشبہ یہ پریشان کن صورتحال ہے خاص طور پر ان ممالک کے لیے جن کی اولین ترجیح جسمانی صحت نہیں ہے حالانکہ جان ہے تو جہان ہے اور صحت مند افراد ہی معاشرے کا خوشحال چہرہ ہوا کرتے ہیں لیکن صابن کا بلبلہ ہوا میں اڑانے والے کہاں سمجھتے ہیں ۔ایسے میں سوال ہے کہ ذہنی تنائو کو معاشرے میں پھیلنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے تو عرض ہے کہ جب معاشی حالات انسانی بس میں نہ ہوں اور معاشرتی بے حسی بھی شامل حال ہو جائے تو اچھا بھلا انسان اپنے حواس کھو دیتا ہے اور یقین مانیں کہ لاک ڈائون پالیسی کیوجہ سے بیروزگاری اور فاقہ کشی نے بیشتر گھرانوں میں اندھیرا کر دیا ہے ایسا ہی گھرانہ نذیر نامی مزدورکا ہے جس نے پانچ روز سے بھوکے بچوں کو پانی سے روزہ کھولتے دیکھا تو اس قدر دلبرداشتہ ہوا کہ احتجاجاً زہریلی گولیاں کھا لیں تاکہ وہ بچیوں کو بھوک سے بلکتا نہ دیکھے ۔یہ بزدلانہ اور برخلاف اسلام فعل سہی مگر اس کا ذمہ دار کون ہے ؟
مجھے عام آدمی کی المناک اموات پر کبھی کسی ٹویٹ میں اظہار افسوس نہیں ملتا اور نہ کوئی مثالی ایکشن نظر آتا ہے جسے میں بیان کر سکوں البتہ موبائل پر امداد ی فنڈ میں رقم جمع کروانے کا پیغام ضرور ملا ۔امدادی فنڈ کی بپتا بھی حیران کن ہے۔ انٹرنیشنل سروے کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے دی جانے والی امداد میں اضافہ ہورہا ہے مگر غربت میں کسی طور کمی نہیں ہورہی بلکہ امیر کی دولت اور غریب کی تنگدستی بڑھ رہی ہے۔۔اس کی وجہ ماہرین یہ بتا تے ہیں کہ افلاس زدہ والدین بچوں کے دماغ میںیہ بات ڈال دیتے ہیں کہ ’’فقیر کو کھلی ہی دو شالہ ہے ‘‘کہ غریب کو جومیسر ہے وہی غنیمت ہے یہی وجہ ہے وہ حق تلفی کو بھی مقدر کا لکھا سمجھتاہے اسی لیے امداد حق دار تک پہنچنے سے پہلے ہی تقسیم ہو جاتی ہے مگر کوئی ماننے کو تیار نہیں کیونکہ طبقاتی فرق غلامانہ ذہنیت کی آبیاری کرتا ہے اور غریب کے مفادات انھی امیروں سے جڑے ہیں جو غریب کا حق کھانا حق سمجھتے ہیں اور غریب ان کا محتاج ہے کیونکہ اس کی داد رسی کہیں نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی اس کی بات سنتا ہے جب تک تگڑی سفارش ساتھ نہ ہو یہی وجہ ہے کہ خان صاحب باوجودیکہ عوامی خدمت کے جذبہ سے سرشار تھے مگر تبدیلی کا وعدہ ایفا نہ کر سکے حتی کہ حالات اور بعض افراد ان کے بس سے باہر ہیں کہ اکثریت کی کارکردگی جملے اچھالنا اور بیانیوں کے تیر چلانے میں سمٹ چکی ہے ۔گذشتہ روز فواد چوہدری نے فرمایا کہ فردوس عاشق اعوان وزارت کے قابل ہی نہیں تھیں اور لابنگ کے ذریعے وزارت حاصل کی تھی جیسے موصوف خود میرٹ اور کارکردگی پر وزارتوں کے مزے لوٹ رہے ہیں وزارتوں کا تو یہ حال ہے کہ شہباز گل جو کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے خصوصی معاونین میں شامل تھے ان سے اختلافی بیان کے سبب استعفی لے لیا گیا تھا اور اب انھیں وزیراعظم پاکستان کا اعزازی معاون مقرر کر دیا گیا ہے ایسا ہوگا تو سوال تو اٹھیں گے۔ نوے کروڑ کی لاگت سے ایکسپو سنٹر میں تیار کردہ قرنطینہ سوالیہ نشان بن رہاہے مریض سراپا احتجاج ہیں کہ صفائی والے اسے چلا رہے ہیں یہی حال احساس پروگرام کا ہو رہا ہے مگر ہمیں فرصت ہی کہاں کہ عوام کا سسکنا دیکھیں ہمیں تو سروے بتاتے ہیں کہ لیڈر شپ اور انتظامی پالیسیوں کو دنیا فالو کر رہی ہے۔ اب لفظوں کا گورکھ دھندا بھی ٹائیں ٹائیں فش ہو چکا ہے اور عوام بیزار دکھائی دے رہے ہیں۔ جہاں تک بات ہے سروے رپورٹس کی تو ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت دنیا میں ہزاروں سروے کمپنیاں کام کر رہی ہیں جن کا سروے کرنے اور رپورٹس مرتب کرنے کا منظم کاروبار ہے اور اچھا کماتی ہیں اس لیے ایسی کمپنیوں کا بھی سروے کروانے کی ضرورت ہے جو ماہرین کے مطابق بعض اوقات ڈالرز کے بدلے میں من چاہی رپورٹس مرتب کر دیتی ہیں بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ لگے ہاتھوں چمچہ گیری اور نفسا نفسی کا سروے بھی کروا ڈالیں کیونکہ وطن عزیز کو کسی چیز نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا خوشامد کرنیوالوںکی چکنی چپڑی اور سب اچھا ہے کہ نعروں نے پہنچایا ہے۔ یہ ہماری سیاست ۔ مذہب اور معیشیت کے ساتھ بہت بڑا المیہ ہے ۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38