آج پاکستان میں عید الفطر ہے۔ رمضان المبارک کی بابرکت ساعتوں کے بعد آج فرزندانِ اسلام عید منا رہے ہیں۔ گوکہ اس وقت ملک میں حالات خراب ہیں۔ جمعتہ الوداع کے موقع پر طیارے کی تباہی میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر دل دکھی ہے۔ اس سے پہلے کرونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال اور سڑکوں پر کھانا مانگتے لوگوں کے چہرے ہر وقت آنکھوں میں گھومتے رہتے ہیں۔ ان حالات میں ہم عید الفطر منا رہے ہیں لیکن ہمارا ایمان ہے کہ ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ یقیناً ہم اس مشکل سے آسانی کا سفر طے کریں گے اور وطن عزیز میں امن و سکون اور خوشحالی کا دور بھی شروع ہو گا۔ قیام پاکستان سے اب تک عام آدمی نے بہت مشکل وقت دیکھا ہے۔ ہم ہر سال رمضان المبارک اور عید الفطر مناتے ہیں، ہر سال دعائیں کرتے ہیں ہر وقت کوشش کرتے رہتے ہیں گوکہ تمام تر کوششوں کے باوجود آج بھی ہماری مشکلات کم نہیں ہوئیں لیکن ہمیں یہ ذہن میں ضرور رکھنا چاہیے کہ ہم پر یہ مشکلات اس وجہ سے ہیں کہ ہم ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ملک ہیں، ہم ایٹمی ملک ہیں اور ہم پر مشکلات کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ اسلامی مملکت ہیں اور ہم ایٹمی طاقت بھی ہیں۔ ہمارے اندر بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ہم جیسے ہیں، وضع قطع ہماری جیسی ہے، ہم جیسا بولتے ہیں، ہم جیسے کپڑے پہنتے ہیں لیکن وہ ہمارے نہیں ہیں وہ کھاتے پیتے اور رہتے تو ہمارے ساتھ ہی ہیں لیکن درحقیقت وہ کام کسی اور کے لیے کرتے ہیں۔ ہم ان عناصر کو بھی ختم کریں گے اور ملک کو ایسے شرپسند عناصر سے پاک کرتے ہوئے ملک کو امن و سکون کا گہوارہ بنائیں گے۔ افواج پاکستان کے جوان دن رات اس اہم کام میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ وطن دشمنوں کو جہنم واصل کر رہے ہیں۔ ان کے روزے دشمنوں کے خلاف لڑتے ہوئے گذرتے ہیں ان کی عیدیں ہمارے مستقبل کو محفوظ بنانے اور جان و مال کو محفوظ بناتے ہوئے گذر جاتی ہیں۔ وہ محاذوں پر رہتے ہیں اور ہم گھروں میں خوشیاں مناتے ہیں۔ اللہ وہ وقت ضرور لائے گا جب ہم اندرونی دشمنوں سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ رمضان اور عید کا چاند دیکھنے کے معاملے میں بہتر طریقہ کار اور طرزعمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے کل چاند کا اعلان کرتے وقت مفتی منیب الرحمان غصے میں تھے انہوں نے کچھ نامناسب الفاظ بھی استعمال کیے لیکن وہ ردعمل تھا کیونکہ گذشتہ چند روز میں جس طرح وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی نے بیانات دیے ہیں اس کے بعد رویت ہلال کمیٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔
اس ملک میں سب سے آسان ہدف علماء ہی ہیں۔ جس کا دل چاہتا ہے جیسے چاہتا ہے وہ اٹھ کر علماء پر تنقید کرتا ہے۔ حکومتی وزراء اس تنقید کا حصہ بن جائیں تو یہ مسئلہ واضح طور پر دھڑے بندی کہ شکل اختیار کر جاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ شوال کے چاند پر ہوا ہے۔ وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی فواد چودھری کے چاند کے حوالے سے بیانات نے رویت ہلال کمیٹی کو متنازع بنایا ہے۔ اس میں کون غلط ہے کون درست اس کا فیصلہ تو کسی اور وقت بھی کیا جا سکتا ہے، کسی اور فورم پر کیا جا سکتا ہے اس حواے سے طویل بحث ہو سکتی ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ اس بیان بازی سے پیدا ہونے والی تقسیم اور نفرت انتہائی نقصان دہ اور باعث تکلیف ہے۔
قرآن ہمیں اتحاد کا سبق دیتا ہے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیتا ہے اور بد قسمتی سے ہم ہر اس موقع پر جہاں اتحاد کی ضرورت ہوتی ہے بے پناہ تقسیم کا شکار نظر آتے ہیں۔ چاند کے مسئلے پر شروع ہونے والی بحث اور پیدا ہونے والی تقسیم انتہائی خطرناک ہے۔
اس بحث سے معاشرے میں کوئی تعمیری کام نہیں ہوا۔ نفرت پیدا ہوئی ہے اور علماء پر عدم اعتماد کا راستہ کھولا گیا ہے۔ معاشرے میں بے چینی پھیلائی گئی ہے اور ایک بڑے طبقے کی دل آزاری ہوئی ہے۔ رویت ہلال کمیٹی کی قانونی حیثیت ہے اور یہ براہ راست حکومت کی نگرانی میں کام کرتی ہے پھر حکومت کی کوئی وزارت اٹھ کر رویت ہلال کمیٹی کے فیصلوں کو چیلنج کرنا شروع کر دے تو اس طرز عمل سے نفرت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ اگر آپ کچھ تعمیری کام کرنا چاہتے ہیں تو بامقصد و بامعنی گفتگو کا آغاز کریں اور اس کے لیے دفاتر موجود ہیں۔ علماء کو ساتھ ملائیں ان سے بات چیت کریں، عملی دلائل کے ساتھ انہیں قائل کرنے کی کوشش کریں۔ وہ راستہ اختیار کریں جس سے ملک و قوم کا بھلا ہو۔ بیان بازی سے کوئی فائدہ نہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کی ہے اور دہائیوں سے اس تعلیم کو عام کر رہے ہیں ان کی گرانقدر دینی خدمات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ہدف تنقید بنانا یا متنازع بنانا مناسب نہیں ہے۔
مفتی منیب الرحمان نے وزیراعظم عمران خان سے درخواست کی ہے کہ وہ فواد چودھری کو ایسے معاملات میں مداخلت سے روکیں۔ اسلام کو سائنس سے الگ ثابت کرنا مناسب نہیں ہے۔ قرآن تو بار بار فکر کرنے کی ترغیب دیتا ہے، چاند ستارے، رات دن، سمندر، بادل، ہوا، پانی کس چیز کا ذکر قرآن میں نہیں ہے۔ سائنس میں مسلمانوں کی تاریخ بھی نہایت شاندار ہے اس لیے یہ کہنا کہ جو مذہب سے لگاؤ رکھتے ہیں وہ سائنس کو نہیں سمجھتے نامناسب ہے۔ جو مذہب کی تعلیم دیتے ہیں انہیں سائنسی علوم فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے۔ فواد چودھری اپنی وزارت کو دین پرھنے اور پڑھانے والوں کی استعداد بڑھانے کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ سخت الفاظ کا استعمال مناسب نہیں ہے۔ قوم کے نوجوانوں کو اکٹھا کریں انہیں متنفر نہ کریں۔ اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد ضرور لینی چاہیے لیکن جہاں جہاں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کا حکم موجود ہے وہاں کسی سائنس و ٹیکنالوجی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی مدد ضرور لیں لیکن جہاں قیادت جس کی ذمہ داری ہے اسے ہی کرنی چاہیے۔ آج عید الفطر ہونے سے کسی کی فتح اور کسی کی شکست نہیں ہوئی رویت ہلال کمیٹی نے اپنی ذمہ داری نبھائی ہے اور فواد چودھری نے اپنی وزارت کی خصوصیت کو استعمال کیا لیکن اس مسئلے کو زیادہ بہتر انداز میں آگے بڑھنا چاہیے۔ آپ سب کو عید مبارک اس موقع پر ان لوگوں کو ضرور یاد رکھیں جنہیں ہماری توجہ کی ضرورت ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024