اسلام آباد میں زیادتی کے بعد بچی کا قتل ہمارے بے حس معاشرے کا ایک اور تکلیف دہ منظر ہے۔ معصوم بچی سے زیادتی اور قتل کا حکومتی سطح پر نوٹس لیا جا رہا ہے، پولیس افسران کو او ایس ڈی بنایا جا رہا ہے، معطل کیا جا رہا ہے، لائن حاضر ہو رہے ہیں۔ پولیس کا فرض ہے مدد آپ کی، لیکن یہ پولیس افسران کا اس طرح کے تمام واقعات میں کردار بہت افسوسناک نظر آتا ہے۔
ملک بھر میں کہیں بھی کوئی افسوسناک واقعہ ہوتا ہے اسکی ایف آئی آر، ملزموں کی گرفتاری اور تفتیش میں پولیس اہلکاروں نے ہمیشہ حقائق مسخ کرنے میں بہت پھرتی کا مظاہرہ کیا ہے، متاثرین کے بجائے ظالموں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہر قانونی راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ متاثرین کو ڈرانے دھمکانے کا اہم فریضہ بھی پولیس اہلکار ہی انجام دیتے نظر آتے ہیں۔ اس کیس میں بھی متعلقہ تھانے کے پولیس اہلکاروں نے روایتی انداز میں متاثرین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام بخوبی کیا ہے۔ نوائے وقت کی خبر اور میڈیا کی رپورٹس یہ چیخ چیخ کر بتا رہی ہیں کہ ایس ایچ او متاثرہ بچی کے والد کو کہتا رہا کہ وہ کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہو گی خود تلاش کرو۔ کیا اس بے حس ایس ایچ او کو اس لیے بھرتی کیا گیا ہے کہ ظالموں کے ساتھ کھڑا ہو، کیا سرکار اسے اس لیے پیسے دیتی ہے کہ مظلوموں کے زخموں پر نمک چھڑکے اور انہیں انصاف فراہم کرنے کے بجائے ظالموں کا ساتھی بن جائے، انصاف کی فراہمی کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرے اور ظالموں کو تحفظ دیتا پھرے۔ کیا ایسے پولیس افسران کو وردی پہنتے ہوئے ندامت محسوس نہیں ہوتی، کیا ان کا ضمیر انہیں ملامت نہیں کرتا، کیا عوام کے پیسوں پر پلنے والے ایسے جرائم پیشہ افسران کو اللہ کا بھی خوف نہیں ہے۔ کیا یہ قرآن کریم کی تعلیمات کو بھول چکے ہیں کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ
ان اللّٰہ یحب المقسطین(المائدہ) 42
بیشک اللہ انصاف کرنیوالوں کو پسند کرتا ہے۔
کیا ہمارے حکمران اور سرکاری افسران بھول چکے ہیں کہ اگر وہ ناانصافی کریں گے تو اللہ کے ناپسندیدہ بندوں میں شامل ہو جائیں گے، کیا وہ نہیں سمجھتے کہ ناانصافی کرنا اللہ کی ناراضی مول لینے کے مترادف ہے۔ ان کے دل اتنے سخت کیوں ہو گئے ہیں۔ ان کی سرپرستی کرنے والے اتنے بے رحم کیوں ہو چکے، کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ دیکھ رہا ہے اور روز محشر وہ ذرہ برابر چیز بھی ہمارے سامنے رکھ دے گا۔ ہم اس حقیقت کو جاننے کے باوجود کیوں اپنی دنیا اور آخرت خراب کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں۔ کیا ایسے ظالم افسران نہیں جانتے کہ خالق کائنات کا فرمان ہے
قل امر ربی بالقسط(الاعراف)29
فرماؤ کہ میرے رب نے تو انصاف کا حکم دیا۔
اب اس کے بعد کیا کوئی دلیل باقی رہتی ہے، کوئی عذر پیش کیا جا سکتا ہے، کوئی بہانہ کیا جا سکتا ہے۔ ایسے تمام افراد یاد رکھیں کہ وہ ناانصافی کر کے ناصرف ملکی قوانین کی خلاف ورزی کر کے معاشرے میں بد امنی پھیلا رہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ احکامات الٰہی کی بھی نفی کر رہے ہیں دنیا کے بادشاہ تو انہیں معاف کر دیں گے، یہاں تو وہ رشوت دے کر چھوٹ جائیں گے، سفارش لڑ کر سزا سے بچ جائیں گے لیکن کائنات کے مالک کو کیا منہ دکھائیں گے، وہاں کوئی سفارش نہیں چلے گی، وہاں پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ یہ افسران کس کو دھوکہ دے رہے یہ لالچی معاشرے میں بدامنی و بے سکونی کی جو آگ لگا رہے ہیں یہ آگ ان کے گھروں کو بھی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ ریاستی ادارے ایسے افسران کی پشت پناہی کریں گے تو اس جرم میں برابر کے شریک سمجھے جائیں گے۔
ہمارے معاشرے میں جو سلوک بچوں کے ساتھ ہو رہا ہے وہ انتہائی تکلیف دہ ہے، کہیں انہیں زیادتی کانشانہ بنایا جا رہا ہے، کہیں ان کے گلے کاٹے جا رہے ہیں کہیں انہیں بھکاری بنایا جا رہا ہے، کہیں انہیں نشے کا عادی بنایا جا رہا ہے، کہیں انہیں ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہم ایک ایسی نسل تیار کر رہے ہیں جس کے پاس محرومیوں اور تلخ یادوں کے سوا کچھ نہیں بچتا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ "بچے جنت کے پھول ہیں" اور ہم ان پھولوں کو بے رحمانہ انداز میں مسل رہے ہیں ہم روز محشر نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو کیا منہ دکھائیں گے۔ ہم ان پھولوں کو مسل رہے ہیں کچل رہے ہیں۔ ہم ملکی قوانین کی خلاف ورزی تو کر رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ قرآن کے احکامات، اسلامی تعلیمات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں کو بھی نظر انداز کیے جا رہے ہیں۔ کیا ان ظالم افسروں کے سرپرستوں کو موت یاد نہیں ہے۔ کیا وہ بھول چکے ہیں کہ ہر جان نے موت چکھنی ہے۔
یہ سب کیا دھرا ہمارے حکمرانوں کا ہے۔ انہوں نے ہر دور میں ریاست کے اداروں اور ریاست کے ملازموں کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا، انہیں کھلی چھٹی دی نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔ عوام کے خادم ان پر حکمرانی کرتے نظر آتے ہیں، ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے ہیں لیکن انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
ہر روز ایسی خبریں پریشانی میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔روزانہ صبح اخبارات پڑھنا بڑی اذیت سے کم نہیں ہوتا۔ صفحہ اول سے لیکر آخر تک ہر جگہ جرائم کی خبروں کی بھرمار نظر آتی ہے۔ ابھی تو بہت سے جرائم رپورٹ ہی نہیں ہوتے، کئی وارداتوں کو پولیس والے لفٹ نہیں کرواتے، بہت سی وارداتوں کو مزید خواری سے بچنے کے لیے متاثرین رپورٹ کروانے سے ڈرتے ہیں کہ پہلے لٹیرے لوٹ کر لے گئے بچا کھچا محافظ لوٹ لیں گے۔ اس کے باوجود جرائم کی اتنی خبریں ہوتی ہیں کہ دل دہل جاتا ہے۔ اس واقعے کی بھی ہر سطح پر مذمت ہو رہی ہے، اصل میں ہماری مرمت کی ضرورت ہے۔ ہم مذمتوں سے کہیں آگے نکل چکے ہیں۔
ہم بحیثیت قوم جس راستے پر ہیں کیا اسکی منزل تباہی نہیں ہے۔ حکمرانوں کے ظلم و ستم اپنی جگہ، کیا ہم اپنا محاسبہ بھی نہیں کر سکتے، ہم خود کیا کرتے ہیں، ہم اپنے بچوں کی تربیت کیا کر رہے ہیں، صرف حکمرانوں کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں ہے۔ ہم خود بھی ذمہ دار ہیں۔ ہمیں اپنے طرز عمل پر بھی غور کرنا ہے، ہمیں خود کو بھی بدلنا ہے، ہمارے ہاں برداشت، تحمل مزاجی ختم ہوتی جا رہی ہے، جھوٹ اور غلط بیانی عام ہے اور یہ ساری برائیاں ہم اپنے بچوں کے سامنے کرتے ہیں کیا اس کے ذمہ دار بھی حکمران ہیں۔
معصوم فرشتے کے مجرم پکڑے جاتے ہیں یا نہیں، انہیں سزا ملتی ہے یا نہیں، ریاست حرکت میں آتی ہے یا نہیں لیکن اس واقعے نے ایک مرتبہ پھر ہماری اجتماعی بے حسی کو نمایاں کیا ہے۔ہمارے لیے سیاسی وابستگیاں قوم کے بچوں سے زیادہ اہم ہیں، ہمارے لیے دوستیاں معصوم بچوں کی حرمت سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں، ہمارے لیے ذاتی مفادات کی ننھے منے بچوں کی چیخوں سے زیادہ اہمیت ہے، ہم اپنی سیاسی جماعتوں کا دفاع کرنے کے لیے ہر جائز ناجائز راستہ اختیار کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن اپنی قوم کے مستقبل کے لیے، مافیا کے چنگل سے نکلنے کے لیے، پاک سر زمین کو شیطانوں سے پاک کرنے کے لیے متحد نہیں ہو سکتے کیونکہ ہمیں اپنا مستقبل نہیں اپنے نام نہاد سیاسی قائدین کا مستقبل زیادہ اہم ہے۔ جب ہم نے اپنے مستقبل کے فیصلوں کا اختیار لٹیروں کو دے رکھا ہے تو پھر آنسو بہانے، نوحے پڑھنے اور ماتم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
جہاں تک تعلق تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور پاکستان کے وزیراعظم کا ہے کیا وہ نہیں دیکھ رہے کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال کیا ہے، کیا وہ نہیں دیکھ رہے کہ ملک میں معصوم بچوں کو کس بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، کیا وہ نہیں دیکھ رہے کہ عزتیں لٹ رہی ہیں، مستقبل تباہ ہو رہا ہے، کیا وہ نہیں دیکھ رہے کہ بچے غیر محفوظ ہیں۔
کیا یہی گڈ گورننس ہے کہ ڈاکے پڑتے رہیں، چوریاں ہوتی رہیں،عزتیں لٹتی رہیں، گردنیں کٹتی رہیں، معصوم پھول مسلے جاتے رہیں، زندگی مشکل تر ہوتی جائے کیا یہی گڈ گورننس ہے۔ آج ہر پاکستانی کی یہی پکار ہے یہی سوال ہے۔ سب کی نظریں ایوان وزیراعظم کے عارضی مکین کی جانب ہیں وہاں سے کیا جواب آتا ہے کب جواب آتا ہے ہم سب اس کے منتظر ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024