لیجئے صاحب! مودی نے پھر میدان مارلیا۔ متحارب پارٹیاں مل کر بھی انکے قریب قریب نہیں آسکیں۔پاکستان کیخلاف مودی کے زہراگلنے کے مقاصد پورے ہوگئے۔وہ اقتدار میں آنے کی شرط پر پاکستان کو سبق سکھانے کے بلند و بانگ دعوے کرتے رہے جو کبھی سرے نہیں چڑھ سکیں گے، وہ سب الیکشن سٹنٹ تھا۔اگلے انتخابات کی مہم تک نریندر مودی کی طرف سے پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی اور زہر اگلنے کا سلسلہ بند نہیں تو دھیما ضرور رہے گا۔وزیراعظم عمران خان نے مودی کے اقتدار میں آنے کی صورت میں پاکستان بھارت تعلقات میں بہتری کے امکانات کی بات کی تھی وہ کچھ غلط بھی نہیں تھی‘ مسئلہ کشمیر دونوں طرف کی غیر روایتی قیادتوں کے ہاتھوں ہی حل ہوسکتا ہے۔ مودی اور عمران خان ایسے ہی لیڈر نظر آتے ہیں۔پانچ سال میں مسئلہ کشمیر کی طرف پُرامن پیش رفت نہ ہو سکی کی تو پھردونوں طرف سے ایسی سرپھری لیڈرشپ کے اقتدار میں آنے کا انتظار کرنا ہوگا جو کسی مصلحت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس مسئلے کا حل تلاش کرنے پر آمادہ ہو۔ جنگ سے مسائل بڑھ تو سکتے ہیںکم یا حل نہیں ہوسکتے۔اس مسئلے پر جب بھی جنگ چھڑی تو پھر صورتحال نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری جیسی ہوگی۔
آج پاکستان خود مسائل کی دلدل میں پھنسا نظر آتا ہے۔اپنے ادنیٰ مفادات کیلئے کچھ لوگ قومی مفادات کو بھی تیاگ دیتے ہیں۔سمندر میں تیل اور گیس کی تلاش کیلئے ہونیوالی ڈرلنگ روک دی گئی تو اس پرحکومت مخالفین خوشی مناتے پیٹرول گیس بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور ڈالر کی پرواز بلند ہونے پر شادیانے بجاتے نظر آتے ہیںکہ ایسے معاملات حکومت کو لے ڈوبیں گے۔اپوزیشن اور حامی رات کو یہ سوچ کر سوتے ہیں، حکومت گئی کہ گئی۔انکی دانست میں تحریک انصاف حکومت کا کھیل ختم ہونیوالا ہے۔یہ خوش گمانی ہے ،کسی سے بھی خوش گمان ہونے کا حق نہیں چھینا جا سکتا۔
مہنگائی کے طوفان اور تھپیڑوں سے ہر طرف ایک مایوسی موجود ہے لیکن اس کی وجہ بھی تلاش کرنی ہوگی جو زیادہ دہ فلسفیانہ کام نہیں ہے۔کہا جاتاہے ماضی کی حکومتوں نے مصنوعی طور پر ڈالراور مہنگائی کو کنٹرول کیا ہوا تھا، یہ حکومت بھی ویسا ہی کرے۔یہ بالکل سادہ اور آسان حل ہے۔جس طرح وہ حکومتیں قرضے لیتی رہیں، عوام کو ریلیف ملتا رہا،مگر قرضوں کا ہمالیہ ایستادہ ہوگیا،اب ان پر سود کی ادائیگی بھی مشکل ہورہی ہے۔ حکومت مشکل فیصلے کرنے کے بجائے مکھی پر مکھی مارتے ہوئے اسی ڈگرپرچل پڑے تو واہ واہ ہو جائیگی۔عمران خان حکومت دھیرے دھیرے صورتحال کو کنٹرول کر رہی ہے۔اب کچھ اچھی خبریں میں آنے لگی ہیں۔ سعودی عرب نے یکم جولائی سے اپنے وعدے کیمطابق پاکستان کو تیل کی ادھار فراہمی کا سلسلہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے صورتحال کچھ بہتر ہو جائیگی۔ یہ بھی ایک اچھی خبر آئی‘ ڈالر ایک روپیہ نیچے آگیا۔ ڈالر 120 سے 150 پر چلا گیا اس میں ایک روپے کی کمی چہ معنی دارد تاہم اس میں اضافہ رکا اور گراوٹ شروع ہوئی ہے۔ یہ بہتری کی علامت ہے۔ میاں نواز شریف ، بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد پہلی بار وزیر اعظم بنے تو پہلے بجٹ میں پٹرول آٹھ روپے لٹر سے بارہ روپے کردیا۔ان دنوں پٹرولیم کی قیمت بجٹ میں بڑھائی جاتی تھی۔ڈیڑھ گنا قیمت بڑھی تو حال دہائی مچ گئی۔اس پر میاں صاحب کی حاتم طائی جبلت عود کر آئی،انہوں نے فوری طور پر 25 پیسے فی لیٹر کمی کا اعلان کر کے طبلچیوں کے دل جیت لئے۔ اسے تاریخی فیصلے اور کمی سے تعبیر کیا گیا، ڈالر کی قیمت میں ایک روپے کی کمی بھی ایسے ہی ریلیف کے زمرے میں آتی ہے۔
پاکستان مسائل کے گرداب میں تو ہے مسائل کی اتنی بھی یلغار نہیں جتنااپوزیشن بھرمار قرار دیتی ہے ۔ پاکستان کو درپیش مسائل و مصائب اور مشکلات سے نکالنے کیلئے کسی بڑی لیڈرشپ اور لیجنڈ و جینئس لیڈر کی ضرورت نہیں۔ آئین موجود ہے ، ادارے ہیں،ضرورت ہے تو صرف ایماندار اور محب وطن لیڈرشپ کی ہے۔کل تک ایسا لیڈر پاکستان کو میسر نہیں تھا، کرپشن میں لتھڑے اور بددیانتی میں جکڑے لوگ اقتدار میں آتے اور اپنی دولت کے انبار بڑھاتے رہے ہیں۔ پوری اپوزیشن عمران خان اور انکی حکومت کو نالائق اور نااہل قرار دے رہی ہے، کوئی ایک بھی انکی دیانت پر انگلی نہیں اٹھا رہا۔ موجودہ حالات میں ایسی ہی لیڈرشپ کی ضرورت تھی۔ہم صبر،تحمل اور برداشت سے عاری معاشرہ ثابت ہوئے ہیں ہیں، ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی خواہش لئے ایسے لیڈروں کی تقلید اور پیروی کرتے ہیں جن کو ہماری عدلیہ نے ایکسپوز کر کے رکھ دیا ہے۔ ہماری خواہش ہے، عدالتیں فیصلے ضرور کریں لیکن ہماری خواہشات کے عین مطابق کریں۔اگر فیصلوں میں سیاسی اکابرین ، سیاسی زعما، سیاسی علما اورسیاسی جہلاکی خواہشات کو محترم و مکرم اورمد نظر رکھا جائیگا تو پاکستان جرائم فری نہیں مجرم فری نظر آئیگا۔ملک میں ایک بھی ایسا لیڈر نہیں ہے جس نے کرپشن کی ہو اور اسکے پیچھے آوے ای آوے اور زندہ باد کے نعرے لگانے والوں کی قطار نہ لگی ہوئی ہو۔پاناما کرپشن کیس سامنے آیا تو کہا جا رہا تھا اسے پارلیمنٹ میں لے جایا جائے، وہی اس کا فیصلہ کرے ۔ ایسی سوچ کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے اس میں پارلیمنٹ کیسے اورکیا فیصلہ کرتی۔2018ء کے الیکشن کے بعد دھاندلی کا بڑا شور تھا،اس پر ایک کمیٹی بنی وہ کہاں ہے۔ ایسی کمیٹی کو اپنی حتمی رپورٹ کیلئے مدتِ دراز درکارہے۔عمران خان کو لانے اور میاں نواز شریف کو جیل بھجوانے والے ’’ڈاہڈے‘‘ ہیں انکے ساتھ جب تک ن لیگ،پی پی اور مولانا کے ’’آڈھے‘‘ ہیں خان کا کِلہ مضبوط رہے گا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024