سمجھ سمجھنا بھی اِک سمجھ ہے…سمجھ سمجھ کے جو نہ سمجھے میری سمجھ میں وہ ناسمجھ ہے…؟ یوں سمجھ لیجئے کہ حالت مجبوری میں یہ شعر لکھنا پڑا ہے کہ شاعر نے اس شعر میں وہ منظر کشی کی ہے جو نثر میں شاید اتنی وضاحت سے پیش نہ کی جا سکتی…؟سوال اٹھے گا مجھے آخر ایسی کونسی مجبوری تھی جس سے نوبت ا س شعر پے آ گئی؟ بنیادی طور پر یہ عمل مجھے رمضان المبارک کے آخری ’’عشروں میں اپنی مقامی مرکزی جامع مسجد میں پیدا افسوسناک صورتحال اور متوقع دو عیدوں کے اعلان پر کرنا پڑا ہے…؟؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ عیدالفطر کا معاملہ SUBJECT TO MOON کے گرد گھومتا ہے ایک رمضان پر دو عیدوں کی گھتیاں سُلجھانے میں مشغول ہوں مگر معاملہ یہاں بھی ؎ صرف ایک نقطے نے ہمیں محرم سے مجرم کر دیا ہے؟اس سوچ میں مبتلا ہوں کہ انگلستان سمیت سکاٹ لینڈ میں بھی عیدالفطر اگر ایک ہی دن نہ منائی گئی تو پھر رحمتوں اور برکتوں کے ا س ماہ مبارک میں صبر و استقامت اور اتحاد و یکجہتی کے لیے مانگی دعائوں، لیلتہ القدر کے حصول میں گزاری راتیں، صغیرہ کبیرہ گناہوں کی بخشش کیلئے رب کریم سے گڑ گڑا کر مانگی د عائیں اور التجائیں کہیں بے اثر تو نہ ہو جائیں گی؟ میری غیر مسلم ہمسائی جو رمضان پر دو عیدوں کے کانسپٹ کے بارے میں مجھ سے اکثر سوال کرتی ہے اس مرتبہ بھی اس کا استدلال ہے کہ معاملہ جب SUBJECT TO MOON کا ہی ہے تو پھر MOON کو مطلع پر تلاش کرنے میں تمہارے مذہبی رہنمائوں اور مختلف مکاتبِ فکر کے عالموں کو ہر مرتبہ مغالطہ کیوں لگتا ہے؟ دنیا کا تاریخی اور قابلِ اعتماد OBSERVATORY نظام لندن میں جب موجود ہے تو پھر چاند کی پیدائش کے بارے میں predictions کیسی ؟ رویت کے بارے میں وہ بتا رہی تھی کہ برطانوی محکمہ موسمیات چاند کو 6 مختلف درجات میں کم سے کم سینٹی گریڈ میں دیکھ کر پیشگی اعلان کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت چاند کی پیدائش اور اس کی مطلع پر موجودگی کا اب آسانی سے پتہ لگایا جا سکتا ہے ا س کے باوجود ’’ننگی آنکھ‘‘ سے چاند دیکھنے کا مسئلہ میری سمجھ سے بالا تر ہے؟
نماز، روزہ، حج ، زکواۃ اور دیگر تمام احکامات خداوندی پورے کرنے کے باوجود مسجدوں میں دھڑے بندی، عہدے اور کرسی کے حصول کیلئے آداب مساجد کی تمام تر حدود توڑ رہے ہیں۔ مسجدوں کو کنٹرول کرنے کا نشہ سوار ہو چکا ہے، جبکہ بعض حالتوں میں تو مقامی پولیس کی جوتوں سمیت مسجد کے اندر داخل ہونا مجبوری بن چکی ہے۔
اپنی ذہنی اذیت کو بیان کرتے ہوئے۔ دلی دکھ و صدمہ اور ندامت یہ بھی ہے کہ جس مرکزی جامع مسجد میں مجھ سمیت 2 ہزار سے زائد مسلمان نماز جمعہ ادا کرتے ہیں مسجد کمیٹی کے جارحانہ طرز عمل اور بعض اراکین کی عدم برداشت، عدم رواداری اور اشتعال انگیز حرکات کی بنا پر مقامی مسلم کمیونٹی کیلئے انتہائی تشویشناک صورت اختیار کر چکی ہے۔ ان سطور میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ مذکورہ مسجد پہلے ایک چرچ تھا جسے 1993ء میں مسلمانوں نے اپنی مدد آپ کے جذبہ سے سرشار ہو کر خریدا اور مسجد کے لیے وقف کرنے کے بعد امام حافظ عبدالستار کو پیش امام کی ذمہ داریاں تفویض کر دیں۔ امام عبدالستار 22 برس تک نمازیوں کی خدمت پر مامور رہے مگر! چند ماہ قبل موجودہ مسجد کمیٹی کے بعض تنگ نظر اور قوت برداشت سے عاری بعض اراکین نے 2 ہزار نمازیوں کو اعتماد میں لیے بغیر امام عبدالستار کو برطرف کرتے ہوئے انکے آفس کو 6 سی ۔ سی ۔ ٹی ۔ وی کیمرے لگا کر مکمل طور پر سیل کر دیا جبکہ ان کا ذاتی سامان جس میںکتابیں بھی شامل تھیں انکی رہائش گاہ پہنچا دیں۔ دوسری جانب امام عبدالستار کی مبینہ طور پر اس غیر آئینی برطرف پر نمازیوں کی ایک کثیر تعداد اور مسجد کمیٹی ارکان کے مابین شدید تر اختلافات پیدا ہو چکے ہیں۔ آئے دن مسجد میں کی گئی نعرے بازی اور ہاتھا پائی کے واقعات کو روکنے کیلئے پولیس کی معہ جوتے مسجدکے اندر داخل ہونامجبوری بن چکا ہے؟؟ آئے روز پولیس بلانے سے جہاں مقامی غیر مسلم کمیونٹی کے لیے مسائل پیدا کئے جا رہے ہیںوہاں پولیس فورس کے اہم اور قیمتی وقت کو بھی دانستہ طور پر ضائع کیا جا رہا ہے؟ نماز تراویح کے دوران بظاہر صورت حال معمول کی نظر آ رہی ہے مگر کمیٹی اراکین اپنی اتھارٹی کا مبینہ طور پر اندر ہی اندر بھرپور استعمال جاری رکھے ہوئے ہیں۔ رمضان المبارک سے قبل ہی دوعلیحدہ جماعتیں ادا کی جا رہی تھیں مگراب نمازیوں کی اکثریت کے پیش نظر پہلا تراویح کے اعلانات کے موقع پر سپیکر باالعموم بند کیاجارہا ہے تاکہ نمازی مرد اور باالخصوص خواتین اعلانات کوواضح طور پر نہ سن پائیں ۔؟ نمازیوںکی اکثریت امام عبدالستارکوہر حال میںواپس لانے کا فارمولہ طے کر چکی ہے جبکہ کمیٹی کسی بھی قیمت پر امام صاحب کو دوبارہ لانے کے لیے تیار نہیں…؟ صورتحال انتہائی مخدوش ہے۔
آئندہ چند روزمیں عیدالفطر کی آمد آمد ہے جبکہ مسجد کے حالات کسی طرح بھی پُرامن نظرنہیں آ رہے۔ میرے منہ میں خاک …ایک دھڑکا سا لگا ہے۔ مسجدکمیٹی اورنمازیوں کی اکثریت کے مابین آئندہ آنیوالے دنوںمیں اگر کوئی سمجھوتہ نہ ہو سکا تو میری اطلاعات کے مطابق ہو سکتا ہے قانون نافذکرنے والے اداروں کو مسجد بند کرنی پڑ جائے…ایسا اگر ہوا تو مسلمان کمیونٹی کے لیے یہ ایک بہت بڑا سانحہ ہو گا؟ بیشتر نمازیوںنے جمعہ کو چندہ دیناپہلے ہی بند کررکھا ہے…؟ مسلمانوں کے مابین پائی گئی اس عدم یکجہتی کے مزید منفی اثرات یہاں جوان ہونے والی نئی مسلمان نسل پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ غیر مسلم اس بارے میں کیا سوچ رہے ہیں؟ موجودہ مرکزی جامع مسجد جو پہلے چرچ تھا اس میں PROTESTANT فرقے کے ایک بزرگ مسیحی گورے نے مسجد کے باہر پولیس کی گاڑیاں دیکھتے ہوئے اگلے روز مسجد سے سادہ الفاظ میںجو کچھ کہا وہ میں آپ سے بھی شیئرکرنا چاہتا ہوں تاکہ مِن حیث القوم ہماری حِس جاگ اٹھے ’’جب تک یہ چرچ مسجد نہیں تھا تو یہاں امن و محبت اورخلوص تھا…اس میٹنگز اور کرسمس کی دعائیں اخوت و بھائی چارے کا پیغام دیتی تھیں مگر! مسجد تو امن کا گھر ہوتا ہے پھر آئے روز یہاں پولیس کیسی؟؟؟ بس! یہی وہ گورے بزرگ کاسوال ہے جس کا میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ ہاتھ اُٹھائیے دعا کیلئے کہ رمضان المبارک کی ممکن ہے اگلی رات شبِ لیلہ ۃ القدر ہو…؟
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024