قومی سلامتی کمیٹی نے اقتصادی مسائل کے پائیدار اور دیرپا حل کی کوششوں کیلئے تمام اقدامات کی حمایت کردی ہے۔ اس سلسلہ میں وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت منعقدہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں جس میں وزیردفاع‘ وفاقی وزیر داخلہ اور مشیر خزانہ کے علاوہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود‘ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ‘ پاک بحریہ کے سربراہ چیف ایڈمرل ظفرمحمود اللہ عباسی‘ ایئرچیف مارشل مجاہد انور خان اور دیگر اعلیٰ سول و عسکری حکام نے شرکت کی۔ خطے میں حالیہ پیش رفتوں بالخصوص جیوسٹرٹیجک ماحول پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔ اجلاس میں علاقائی امن و استحکام کے حوالے سے پاکستان کی جانب سے کوششیں جاری رکھنے کے عزم کو دہرایا گیا جبکہ گلگت بلتستان میں اصلاحات پر الگ سے تبادلۂ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ فیصلہ سازی کے عمل میں گلگت بلتستان کے عوام بالخصوص نوجوانوں کو فوقیت دی جانی چاہیے۔ اجلاس میں علاقائی امن و استحکام اور معاشی معاملات کے پائیدار حل کیلئے اٹھائے جانیوالے تمام اقدامات کی حمایت اور یہ اقدامات جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ اجلاس سے ہٹ کر وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی الگ سے بھی ملاقات ہوئی جس میں ملکی سلامتی کے معاملات اور معاشی امور زیرغور آئے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی نے معاشی استحکام کیلئے اقدامات کی مکمل حمایت اور اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان خطے میں امن کیلئے کوششیں جاری رکھے گا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک میں اقتصادی استحکام کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے جتنا ہمیں دفاع وطن کیلئے ہر قسم کے جدید اور روایتی جنگی سازوسامان اور اسلحہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے شروع دن کے دشمن بھارت نے ہماری سلامتی اور خودمختاری کمزور کرنے کی سازشوں کے تانے بانے بنے تو اس میں پاکستان کو اقتصادی طور پر کمزور کرنے کی سازش کو فوقیت دی چنانچہ بھارت کی ہندو بنیاء لیڈر شپ نے اس سازش کے تحت ہی تقسیم ہند کے فارمولے کے طے شدہ نکات سے انحراف کرکے خودمختار ریاست جموں و کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا اور اسے متنازعہ بنا کر تصفیہ کیلئے اقوام متحدہ میں درخواست ڈال دی۔ چونکہ بھارت نے کشمیر پر تسلط پاکستان کو اقتصادی اور معاشی طور پر کمزور کرنے کی نیت سے جمایا تھا‘ اس لئے اس نے کشمیر کے تصفیہ کیلئے یواین جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کو بھی درخوراعتناء نہ سمجھا جن میں کشمیریوں کے استصواب کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے بھارت کو مقبوضہ وادی میں رائے شماری کے اہتمام کی ہدایت کی گئی تھی۔ کشمیر پر تسلط جمانے کا بھارتی منصوبہ یہی تھا کہ کشمیر سے پاکستان آنیوالے دریائوں کے پانی سے پاکستان کی زرخیز دھرتی سیراب نہ ہونے دی جائے اور اس طرح وہاں خشک سالی اور قحط سالی کی کیفیت پیدا کرکے پاکستان کو ریگستان میں تبدیل کر دیا جائے اور پھرکمزور پاکستان پر شب خون مار کر اس پر بھی کشمیر کی طرح اپنا تسلط جمالیا جائے۔
بھارت نے اسی نیت سے جہاں پاکستان پر تین جنگیں مسلط کرکے اور پھر سانحۂ سقوط ڈھاکہ کے بعد ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرکے پاکستان کی سالمیت کمزور کرنے کی سازشیں کیں وہیں اس نے مسئلہ کشمیر کی طرح پاکستان کے ساتھ آبی تنازعات کو بھی فروغ دیا جو درحقیقت پاکستان پر آبی دہشت گردی مسلط کرنے کی سازش تھی۔ پاکستان کی سلامتی کیخلاف ہر محاذ پر شروع کی گئی بھارتی سازشیں آج بھی برقرار ہیں جن سے عہدہ براہ ہونے کیلئے پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ ملک کو اقتصادی اور معاشی استحکام سے ہمکنار کرنا بھی ضروری ہے۔ عساکر پاکستان نے بلاشبہ ہر محاذ پر دفاع وطن کے تقاضے نبھاتے ہوئے سرخروئی حاصل کی ہے اور کنٹرول لائن پر کی جانیوالی ہر بھارتی سازش میں دشمن کو فوری اور مسکت جواب دیکر اسکے دانت کھٹے کئے ہیں جبکہ دفاع وطن کیلئے ہمیں اقتصادی میدان میں بھی دشمن کے دانت کھٹے کرنے کیلئے ایسی ہی ٹھوس حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت نے پاکستان چین اقتصادی راہداری کے ذریعے پاکستان کی اقتصادی ترقی کے راستے کھلتے دیکھ کر ہی سی پیک کو سبوتاژ کرنے کی گھنائونی منصوبہ بندی کی جو پاکستان اور چین کی قیادتوں نے باہمی اشتراک عمل سے ناکام بنائی تاہم اپنے زخم چاٹتا ہوا بھارت آج بھی اپنی سازشوں سے باز نہیں آرہا جس نے بلوچستان اور ملک کے دوسرے حصوں میں دہشت گردی بشمول خودکش حملوں کی وارداتوں کے ذریعے پاکستان کے غیرمحفوظ ہونے کا تاثر پھیلانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے تاکہ چین کو سی پیک کے منصوبہ سے ہٹایا جاسکے اور بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری سے روکا جاسکے۔
بدقسمتی سے ملک کے اندر بھی بعض حکومتی پالیسیوں کے نتیجہ میں گزشتہ کچھ عرصہ سے اقتصادی عدم استحکام کی فضا استوار ہوئی ہے جسے ڈالر کی بلند ہوتی اڑان نے مزید گھمبیر بنایا۔ اس سے جہاں مہنگائی کے بوجھ تلے دب کر ملک کے عوام زندہ درگور ہوئے وہیں ملک کی کمزور ہوتی معیشت سے بھارت کو پاکستان کی سلامتی کیخلاف سازشیں مزید پروان چڑھانے کا موقع ملا۔ گزشتہ دنوں گلگت بلتستان میں بی این ایف کے بھیس میں بھارتی ’’را‘‘ کے قائم کردہ نیٹ ورک پر ہمارے سکیورٹی اداروں نے کامیاب اپریشن کرکے اس بھارتی سازش کو بھی ناکام بنایا ہے تاہم ہمیں اس ارض وطن کو اقتصادی طور پر اتنا مضبوط اور مستحکم بنانے کی ضرورت ہے کہ ملک میں کسی کو چند ٹکوں کی خاطر اپنا ضمیر بیچ کر پاکستان کی سلامتی کیخلاف بھارتی سازشوں میں اس کا معاون بننے کا خیال ہی نہ آئے۔
ملک کے حالیہ اقتصادی اور مالی بحران کو یقیناً حکومتی گورننس بہتر بنا کر ختم کیا جا سکتا ہے جس کیلئے حکومت نے عملی اقدامات اٹھانا شروع بھی کر دیئے ہیں۔ نتیجتاً قوم کو گزشتہ روز ڈالر کی بلند پرواز بھی ٹوٹتی ہوئی نظر آئی اور ایک روپیہ نیچے آکر ڈالر کا انٹر بنک ریٹ 151 اعشاریہ 95 روپے ہوگیا جبکہ سیمنٹ کی بوری اور سونے کے نرخوں میں بھی حیران کن کمی دیکھنے میں آئی۔ اسی طرح گزشتہ روز سٹاک مارکیٹ میں بھی سات ماہ بعد ہزار سے زائد پوائنٹ کا اضافہ ہوا جو ملک کے اقتصادی استحکام کا سفر شروع ہونے کا غماز ہے۔ اس سلسلہ میں وفاقی مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے بھی قوم کو یہ مژدہ جانفزا سنایا ہے کہ سعودی عرب یکم جولائی سے پاکستان کو ہر ماہ 27 کروڑ ڈالر کا ادھار تیل دینا شروع کر دیگا جس سے کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم ہوگا اور اسکے مارکیٹ پر مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ اسی طرح وفاقی وزیر ریونیو حماد اظہر نے بھی قوم کو معیشت کے جلد مستحکم ہونے کی نوید سنائی ہے جبکہ قومی سلامتی کمیٹی کے گزشتہ روز کے اجلاس میں اعلیٰ سول اور عسکری قیادتوں کی جانب سے حکومت کے معاشی استحکام کیلئے اٹھائے جانیوالے اقدامات کی مکمل حمایت کا اعلان کیا گیا ہے جس سے ملک کو اقتصادی‘ معاشی اور مالی بحرانوں سے نجات دلانے کیلئے تمام قومی اداروں کے ایک صفحے پر آنے کی عکاسی ہوتی ہے۔
دشمن کی گھنائونی سازشوں کے مقابل آج ہمیں قومی سطح پر ایسے ہی اتحاد و یکجہتی اور تعمیر و استحکام وطن کیلئے قوم کے ہر فرد کی جانب سے حصہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنی دفاعی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ اقتصادی استحکام کی منزل سے بھی ہمکنار ہونگے تو کسی کو ہماری سلامتی و خودمختاری کی جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہیں ہوگی جبکہ اقتصادی استحکام سے قوم کی خوشحالی کے راستے بھی کھل جائینگے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024