جمعۃ المبارک ‘ 18 ؍ رمضان المبارک ‘ 1440ھ‘ 24 ؍مئی 2019ء
بیانات سے ایڈز ختم ہو سکتاتو دے دیتا ہوں۔ وزیر اعلیٰ سندھ
توٹھیک ہے آپ بیان نہ دیں بیشک نہ دیں۔ کم از کم عملی اقدامات کر کے ایڈز پر قابو پانے کی کوشش کریں۔ دنیا بھر میں بھی تو یہی ہو رہا ہے۔ سب جانتے ہیں فی الحال یہ لاعلاج مرض ہے مگرسب ہاتھ پر ہاتھ دھرے تو نہیں بیٹھے رہتے۔ وہ اپنی طرف سے اس پر قابو پانے اس کا علاج تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ آپ سے تو یہ تک نہیں ہو رہا کہ ایڈز زدہ علاقوں کا طوفانی دورہ کریں‘ وہاں کے لوگوں کی ڈھارس بندھائیں۔ رتوڈیرو تو آپکے قائد بھٹو مرحوم کا آبائی علاقہ ہے۔ لاڑکانہ ان کا حلقہ انتخاب تھا۔ آج بھی بینظیر سے لے کر بلاول تک سب اسے اپنا گھر اور قلعہ کہتے ہیں تو اپنے گھر اور قلعے سے یہ بے رخی کیسی۔ اس سارے قصے میں ایک ڈاکٹر کا ذکر بھی تھا جس نے جان بوجھ کر یہ مرض پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کا کیا بنا۔ ڈاکٹروں کے ہڑتال کے خوف سے اس مسئلہ پر مٹی پائو والی پالیسی کیوں ہے۔ کچھ اور نہیں تو آپ وزیر اعلیٰ سندھ ہیں۔ آپ اسی پر کوئی دھواں دھار بیان داغیں۔ کم از کم آپ کے حامی اور موالی ہی خوش ہو جائیں گے۔ وہ بھی آپ کے بیان کے حق میں چند دن اخبارات اور میڈیا پر رونق میلہ لگائے رکھیں گے۔ آپ کو تو فوری ایکشن لینا چاہئے کہیں یہ مرض آپ لوگوں کے اپنے علاقوں تک نہ پھیل جائے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ بلاول صاحب کے علاقہ میں موت کا یہ رقص جاری ہے ا ور وہ اسے سنجیدہ نہیں لے رہے۔ وہ بھی سندھ کے حکمرانوں کی طرح ایڈز کے خوف سے ان علاقوں کا رخ کرنا نہیں چاہتے۔ خدارا کچھ کیجئے اس سے پہلے کہ یہ مرض بے قابو ہو کر پورے سندھ میں پھیل جائے۔
ًًً٭٭٭٭
ماضی کی طرح کمپنیاں بنانے کا سلسلہ پھر شروع
عجب تماشا ہے۔ ایک طرف حکومت ماضی کے حکمرانوں کی بنائی گئی مختلف النوع کمپنیوں کو فنا کے گھاٹ اتار رہی ہے۔ انہیں خزانے پر بوجھ کرپشن کے اڈے، مفادات کا مرکز قرار دے رہی ہے۔ نیب بھی کئی کمپنیوں کے خلاف ایکشن میں ہے۔ کروڑوں روپوں کے فراڈ اور بھاری تنخواہوں پر نااہل افراد کی بھرتی اقربا پروری کا وہ شور و غوغا اٹھا ہوا ہے کہ ہرایک پریشان ہے مگر یہ کیا کہ دوسری طرف خود حکومت بھی وہی کام کر رہی ہے جس پر سابقہ حکومت کو لتاڑا جاتا رہا ہے۔ عدالتوں میں گھسیٹا جا رہا ہے۔ عدالتیں بھی ان کمپنیوں پر برہم ہیں۔ کیس چل رہے ہیں۔ اب پنجاب کی حکومت ڈی جی خان میں کچرا اٹھانے کے لیے ایک ویسٹ مینجمنٹ کمپنی بنا رہی ہے تو کیا یہ سب عجیب نہیں ہے۔ جو کمپنیاں فراڈ کرپشن میں ملوث ہیں، انہیں بندکیا جا رہا ہے تو یہ نیا تجربہ کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی۔ سابقہ حکومت میں تو پھر بھی کمپنیاں دکھاوے کے لیے ہی سہی کچھ نہ کچھ کرتی تھیں۔ اب صوبائی دارالحکومت میں یہاں کی ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کیا گل کھلا رہی ہے۔ صفائی کی صورتحال ابتر ہے۔ جو کمپنیاں حکومت کی ناک کے نیچے کام نہیںکرتیں وہ بھلا اتنی دور ڈی جی خان میں کیاکریں گی۔ صاف لگتا ہے ایک بار پھر اپنوں کونوازنے کے لیے چہیتوں کو خوش کرنے کے لیے بندربانٹ والا ناٹک رچایا جا رہا ہے۔ ورنہ کیا گارنٹی ہے اس بار بننے والی کمپنیاں سستی ساوتری ہونگی اور کرپشن کی گنگا میں اشنان نہیں کریں گی۔ بس اتنا یاد رکھیں۔ ’’لنکا سے جو نکلا سو باون گز کا‘‘ یہ محاورہ ہماری کمپنیوں پر بھی فٹ بیٹھتا ہے۔ جہاں سب ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔
ڈالر کی ذخیرہ اندوزی حرام ہے۔ مزید 26 مفتیان کرام کا فتویٰ
ڈالر کے خلاف ’’یہ اتحاد مبارک ہو مومنوںکے لیے‘‘ بے شک اس وقت یہ دشمن دین و ایماں کی اڑان اونچی سے اونچی ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارا باعزت پرہیز گار روپیہ جس تیزی سے اس کے مقابلے میں سجدہ ریز ہو رہا ہے خطرہ ہے کہ وہ دوبارہ سر اٹھا ہی نہ سکے۔ ویسے بھی آج تک ہم سب ڈالر کے سامنے کبھی آنکھیںنہیں اٹھا سکے۔ نظر ملانا تو دور کی بات ہے۔ ڈالر کو عروج 1977ء میں حکومت کے خلاف تحریک میں نصیب ہوا۔ ضیا ء الحق دور میں تو یہ سر چڑھ کر بولتا نظر آیا۔ پھر اس کے بعد پورا ملک ڈالر کی زلفوں کا ایسا اسیر ہوا کہ آج بھی وطن عزیز میں جو شخص مال کماتا ہے ناجائز طریقے سے اسے بیرون ملک بنکوں میں ڈالروں کی شکل میں محفوظ کرتا ہے۔ زر سے محبت تمام فتنوں کی جڑ ہے سو اس وقت ڈالر کا فتنہ عوام کو تگنی کا ناچ نچا رہا ہے اس لیے ہمارے بڑے بڑے علما کرام نے اس کی ذخیرہ اندوزی حرام قرار دے دی ہے۔ خدا کرے لوگ ان کے فتوئوں پر کان دھریں۔ اب ان تمام مفتیان کرام سے دست بستہ عرض ہے کہ وہ ایک ایسا ہی فتویٰ باقی اشیا کی ذخیرہ اندوزی کے بارے میں بھی جاری کریں تو ثواب ہو گا۔ کیونکہ اس ماہ مقدس میں ناجائز منافع خور مافیا روزے داروں پر ستم ڈھا رہا ہے۔ کوئی ایسا فتویٰ دیا جائے کہ یہ سب ناجائز منافع خور روزے داروں کو سستانے کے جرم میں جہنم رسید ہونگے۔ کیونکہ جو دوسروں پر رحم نہیںکرتا۔ اللہ کریم ان پر بھی رحم نہیں کرے گا۔ جو لوگ امت محمدیہ ؐ کو ستاتے ہیںوہ خود بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت سے محروم رہیں گے۔ شایدمفتیان کرام کے اس فتوے سے یہ لوگ عبرت پکڑیں سدھر جائیں ورنہ ہوتا یہ آیا ہے جس چیز سے منع کرو ہم وہی کام زیادہ کرتے ہیں…
٭٭٭٭
سفیدے کو ماحول دوست درخت قرار دینے پر سینٹ کمیٹی برہم
اب ہمیں بات بات پر برہم ہونے کی عادت ترک کر دینی چاہیے۔ بے شک سفیدہ پانی بہت پیتا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ نہیں اسے لگایا ہی نہ جائے۔ درخت بہرحال درخت ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں سفیدے کے جنگلات بھی ہیں۔ یہ پانی بہت جذب کرتا ہے تو اسے ایسے علاقوں میں لگائیں جہاں پانی کی زیادتی کی وجہ سے سیم پنجے گاڑے ہوئے ہے۔ ان علاقوں میں اسکے جنگل لگا کر بنا کسی خرچ کہ وہاں پانی کی زیر زمین سطح کم کی جا سکتی ہے۔ زمین کو پھر کارآمد بنایا جا سکتا ہے یوں ایک تیر سے دو شکار ہو سکتے ہیں۔ سیم بھی ختم ہو گئی اور کارآمد لکڑی کا ایک بڑا ذخیرہ بھی مفت میں مل جائے گا۔ ویسے بھی ہمیں ملک میں اس وقت درخت لگانے جنگلات بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ اربوں درخت لگانے کے دعوے کرنے والے حکمران سیم زدہ علاقوں میں ہنگامی بنیادوں پر سفیدے کے درخت لگاکے جنگلات اگائیں اور فائدہ اٹھائیں۔ سوہانجنا بھی کارآمد درخت ہے۔ پانی کم پیتا ہے اسے بھی لگائیں، جگہ جگہ لگائیں۔ ملک کو سرسبز و شاداب بنائیں۔ اصل مقصد درخت لگانا ہے۔ ماحول اور زمین کی ساخت کے مطابق اگر یہ کام کیا جائے تو زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ صرف برہمی سے کام نہیں چلتا ماحول دوست پودے اور درخت تیزی سے پھلتے پھولتے ہیں۔ سو عام زمین میں سوہانجنا اور سیم وال زمین میں سفیدہ، ریگستانی علاقے میں کھجور وغیرہ لگائیں اور ملک کو سرسبز بنائیں۔