گذشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں نئے صوبوں کی تشکیل کا مسئلہ اٹھا اور ارکان اسمبلی نے جنوبی پنجاب صوبہ کی ضرورت‘ اہمیت اور فیزیبلٹی کے حوالے سے نکات اٹھائے، تو ق لیگ کے تعلق رکھنے والے بہاول پورسے رکن اسمبلی اور وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ نے دہائی دی کہ زیریں پنجاب میں دو صوبے بنیں گے۔ صوبہ بہاولپور اور صوبہ ملتان۔ مزید فرمایا کہ جب ہم بہاولپور والے ملتان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے، تو ہمیں مجبور کیوں کیا جا رہا ہے؟تحت لاہور کی غلامی سے نکل کر ہم تخت ملتان کی ماتحتی میں نہیں جانا چاہتے۔ ہمارا مطالبہ کوئی نیا نہیں، ریاست بہاولپور کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے وقت سے ہم بہاولپور صوبہ کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔ جب اسے درخوراعتنانہ سمجھا گیا تو ریاست کے دو ایم این ایز نے احتجاجاً 1973ء کے آئین پر دستخط نہیں کئے تھے۔ موصوف نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر وہ اپنا مطالبہ نہ منوا سکے تو وزارت سے علیحدہ ہو جائیں گے۔
یاد رہے کہ نئے صوبوں کی تشکیل کا معاملہ پہلی بار نہیں ہوا۔ وقفوں وقفوں سے اس حوالے سے ہلچل ہوتی آئی ہے۔ 2013ء کے انتخابات کا غوغا اٹھا، تو ووٹروں کو رجھانے کیلئے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے پاس کوئی معقول قسم کا نعرہ تھا نہ پروگرام، لے دے کر دونوں کو ایک ہی گیدڑ سنگی ہاتھ آئی کہ نئے صوبوں کا شوشا چھوڑ دیا جائے۔ فوری نظر عنایت سرائیکیوں پر ہوئی جن کی بلائیں لینے کیلئے دونوں جماعتیں پاگل ہوئی جا رہی تھیں اور خوفزدہ تھیں کہ نئے صوبے کا لالی پاپ تھمانے میں مخالف پارٹی کہیں سبقت نہ لے جائے۔ چنانچہ اضطراری کیفیت میں 9 مئی 2012ء کو مسلم لیگ ن نے پنجاب اسمبلی سے دو نئے صوبوں، بہاول پور اور جنوبی پنجاب کی تشکیل کی قرار داد منظور کرا لی۔ سرائیکی بیلٹ کے ووٹوں سے صدوقچیاں بھرنے کے تصور سے سرشار پیپلزپارٹی نے جھٹ سے مرکز میں 14 رکنی پارلیمانی کمیشن بنا دیا جس کی تمام تر توجہ پنجاب میں سے اپنی مرضی کا ایک ان گھڑت سا سرائیکی صوبہ تراشنے پر مرکوز رہی۔ جس میں بہاولپور ملتان اور ڈیرہ غازی خان ڈویژنوں کے ساتھ ساتھ بھکر اور میانوالی کے اضلاع بھی شامل تھے۔ خواہشات کے گھوڑوں پر سواری پر پابندی تو نہیں‘ مگر یہ سفارش کرنے والے نقشہ سامنے رکھ کر مجوزہ صوبے کی شکل دیکھ لیتے تو ان کا اپنا ہاسا نکل جاتا۔
2013ء کے انتخابات کے نتیجے میں PML-N برسر اقتدار آ گئی۔ مگر نئے صوبوں کی تشکیل کے حوالے سے چپ سادھ لی اور پنجاب اسمبلی کی قراردادوں کولڈ سٹوریج میں ڈال دیا۔ پورے پانچ برس تک کسی کو بھی ان کا خیال نہ آیا۔ بالآخر وہ وقت آن پہنچا اور جنوری 2019ء میں PML-N نے مذکورہ بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیا۔ تا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکلز 1 اور 51 میں ترمیم کر کے ملتان اور بہاولپور کے صوبوں کی تشکیل کی راہ ہمراہ کی جا سکے۔ PTI کو بھی یاد دلایا گیا کہ نئے صوبے بنانے کا وعدہ اسکے گیارہ نکاتی انتخابی منشور کا حصہ تھا جس سے پیچھے ہٹ کر وہ مذکورہ علاقہ کے عوام سے ناانصافی کر رہی ہے۔ جبکہ pti کا تازہ موقف یہ ہے کہ وہ پنجاب کی تقسیم کے حق میں ضرور ہے۔ مگر صرف ایک صوبہ (جنوبی پنجاب) کی حد تک بہاولپور صوبہ کو بوجوہ پارٹی قابل عمل اکائی تصور نہیں کرتی۔ جس سے بہت سے مسائل جنم لیں گے۔ شاہ محمود قریشی اور مخدوم خسروبختیار سمیت جنوبی پنجاب کی نمایاں لیڈرشپ پارٹی کے اس موقف کی تائید مختلف فورمز پر کر چکی ہے۔
2018ء کی انتخابی مہم کے دوران جنوبی پنجاب صوبہ محاذ نے بھی خاصا کام کیا تھا۔ جس کے صدر مخدوم خسروبختیار تھے۔ مذکورہ محاذ نے خطہ کی محرومیوں کا ذکر نہایت جوش و ولولہ سے کہا تھا کہ ہمارے ساتھ بہت نا انصافی ہو چکی۔ دہائی خدا کی کھربوں کے خرچہ سے لاہور کو دنیا کے جدید شہروں کے برابر کھڑا کیاگیا جبکہ جنوبی پنجاب میں آپ بھی ہر طرف دھول اڑتی ہے۔ لوگ بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ اور یہ بھی صوبہ محاذ کی محنت کا نتیجہ تھا کہ انتخابی مہم کے دوران ہی pti نے اسکی قیادت کے ساتھ معاہدہ کیا کہ برسراقتدار آنے کے ایک ماہ کے اندر اندر جنوبی پنجاب صوبہ کی تشکیل کے حوالے سے پنجاب اور مزکز میں آئینی پیشرفت شروع ہو جائے گی۔منافقت کا بازار گرم ہے، سندھ والے اس معاملے میں یکسو اور دو ٹوک ہیں اور اس حوالے سے چیئرمین بلاول زرداری نے سندھ کے بہادر سپوت ہو شو شیدی کی زبان سے نکلے نعرے کو حرزِجاں بنا رکھا ہے۔
’’مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں‘‘۔ ہوشو شیدی نے یہ نعرہ 1842ء میں انگریزوں کے خلاف جنگ میں شہادت سے ذرا پہلے لگایا تھا۔ یہ ایک شہید کی اپنی سرزمین کے لئے کمٹمنٹ تھی جس کی لاج اس نے مرتے دم تک نبھائی۔ انگیز واقعتاً نعش پر سے گزر کر ہی سندھ میں داخل ہو سکا تھا۔ آج کی قوم پرست سندھی ہوشوشیدی کے اس نعرے سے سو فیصد متفق ہیں۔ مزید صوبوں کی صورت میں اُسے سندھ کی تقسیم دکھائی دیتی ہے جو اسے ہرگز قبول نہیں۔مزید صوبے بنانے کے حوالے سے اپنا کیس مضبوط کرنے کے لئے اردگرد سے مثالیں دی جاتی ہیں کہ بھارت میں 36 ریاستیں ہیں ایران 31 اور افغانستان 24 صوبوں میں منقسم ہے۔ یہ ذکر ہمسایوںکا ہے۔ ذرا باہر نکل جائیں تو ایسی بیسیوں اور مثالیں بھی مل جائیں گی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے حالات کا دنیا کے کسی بھی ملک سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے زمینی حقائق شاید دنیا بھر میں یکتا ہوں، جنہیں محض استدلال کے زور پر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ ایک بہت ہی محترم شخصیت نے اگلے روز کہا کہ ’’ہم خوفزدہ لوگ ہیں۔ اہم قومی مسائل کو بھی ناگفتنی (taboos) بنا رکھا ہے کہ ان کو زبان پر ہرگز نہیں لانا، مبادا کوئی فتنہ کھڑا ہو جائے کوڑا کباڑ کویوں قالین کے نیچے چھپانے کی سائیکی ماضی میں بھی ہمیں بہت نقصان پہنچا چکی۔ مسائل سے ہم مسلسل آنکھیں چراتے رہتے ہیں۔ حل تو دور کی بات، انکے بارے میں سوچنے کے روادار بھی نہیں ہوتے اور جب رائی کا پہاڑ بن جاتا ہے اور دم گھٹنے لگتا ہے تو انتہائی ایمرجنسی بلکہ ہذیانی کیفیت میں اسکا حل ڈھونڈنے نکلتے ہیں۔ ایسے میں حل خاک ملے گا؟ بس دال دلیا کر لیتے ہیں۔ فی الحقیقت یہی دال دلیا ہماری پالیسی میکنگ کا لب لباب ہے۔ موصوف کی بات میں دم ہے اور دل کو بھی لگتی ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024