بلوچ سردار جو بھارت کی شہ پر بھارت کا پیسہ لے کر یورپ میں پر تعیش زندگی گزار رہے ہیں اور بلوچستان علیٰحدہ کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ بھارت اور افغانستان کو خوش رکھنے کیلئے بلوچستان میں دہشتگردی کے ذریعے پاکستان فورسز کے اہلکار وں کے ساتھ ساتھ اپنے لوگ بھی مروا رہے ہیں۔ اس لسٹ میں اب آخری نام کچھ پی ٹی ایم کے نوجوانوں کا ہے جو بھارتی اور افغان این ڈی ایس سے پیسے لیکر انکے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔
اس سلسلے میں پاکستان کے سیاستدانوں کو بھی معاف نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کے ایک بہت بڑے سیاستدان جس کو قوم نے اقتدار کی عزت بخشی۔ تین بار وزارت عظمیٰ کے مزے لوٹے۔ خاندان نے تقریبا بیس سال اس ملک پر حکمرانی کی۔ لندن میں بہت قیمتی جائیدادیں خریدیں۔ بچوں کو نوعمری میں ہی ارب پتی بنا دیا جو اب اپنے آپ کو اس مقدس اور پاک وطن کا شہری کہلانے سے بھی نفرت کرتے ہیں۔ آج یہ عظیم ہستی اپنی قیمتی جائیداد کی’’منی ٹریل‘‘ بھی دینے سے انکاری ہیں۔ جب اقتدار سے قانونی فیصلے کے ذریعے الگ کئے گئے تو ملک کو نقصان پہنچانے پر اتر آئے۔ اپنے ایک بیان میں یہ قبول کیا بھارت میں ہونیوالی دہشتگردی پاکستان سے ہوئی۔ بھارت تو یہی کچھ چاہتا تھا۔ بھارت نے یہ بیان عالمی عدالت میں کلبھوشن کیس میں عدالت کے سامنے پیش کیا۔ موصوف سیاستدان نے صرف اسی بات پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ شیخ مجیب الرحمن کی غداری بھی جائز ثابت کی۔ایک ایسا شخص جو ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز رہا ہو۔ ملکی سلامتی کا ذمہ دار رہا ہو۔ یقیناً وہ ہم سب سے بہتر جانتا ہے کہ کونسی بات ملک کیلئے مفید ہے اور کونسی نقصان دہ۔یہ سب کچھ جانتے ہوئے ایسے بیان ملکی سلامتی کیلئے فائدہ مند یقیناً نہ تھے۔ نہ ہی اتنے بڑے انسان سے ایسے بیانات کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اقتدار تو آنی جانی چیز ہے۔ ملکی سلامتی کی ذمہ داری تو ہر پاکستانی کا فرض ہے۔ وہ بھی تو پاکستان ہی کے بیٹے ہیں جو اپنے پاک وطن کی سلامتی پر جانیں قربان کرتے ہیں۔
ایک دوسری پارٹی کے ابھرتے ہوئے نوجوان قائد جن سے ان کے پارٹی ممبران کے علاوہ پوری قوم کو بڑی توقعات ہیں۔ قوم سمجھتی ہے کہ ایک دن وہ ملک کا عظیم قائد ثابت ہو گا۔ جب سے انکے والد محترم کے گرد نیب کا گھیرا تنگ ہوا ہے۔ محترم روزانہ کہیں نہ کہیں تقریریں فرما رہے ہیں ۔روانی میں اپنے قد سے بھی بلند باتیں شروع کر دیتے ہیں۔ حکومت پر گولے نہیں بلکہ میزائل برسانا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسی باتیں کرتے ہیں جیسے انکے والد محترم کے دور ِ حکومت میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں۔ محترم اس بات پر غور نہیں کرتے کہ محترم کے والد نے خود کیا کیا اور زبان خلق کے مطابق ملک کو کس طرح کنگال کیا۔ اس سے مزید کچھ کہنا زیب نہیں دیتا۔ عقلمند کیلئے اشارہ ہی کافی ہے۔محترم نوجوان قائد جو کہ وراثت کی وجہ سے قائد بنا ہے کے کردار میں کہیں بھی عظیم لیڈروں والی خوبی نظر نہیں آتی۔ محترم ایک سال پہلے تک میاں نواز شریف کے اتنے خلاف تھے کہ اسے ’’چور، ڈاکو، لٹیرا اور مودی کے یار‘‘ تک کے القابات دے ڈالے لیکن جب والد محترم کے گرد گھیرا تنگ ہوا تو دونوں یک جان ہو گئے۔ محترم بنفسِ نفیس انہیں ملنے جیل بھی تشریف لے گئے۔ آج اسکی ہر بات کو سپورٹ کررہے ہیں۔ پھر بات بیان پر ہی ختم نہیں ہوتی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے قوم کو بتایا کہ پی ٹی ایم ملکی مفاد کے خلاف کام کررہی ہے۔ بھارتی ’’را اور افغان این ڈی ایس‘‘ سے تعلقات ہیں۔ ان سے بھاری رقم وصول کرتے ہیں اور ان کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں۔ ڈی جی صاحب نے یہ بھی پوچھا کہ جب فاٹا میں لوگوں کے گلے کاٹے جا رہے تھے ۔اسوقت محترم کہاں تھے؟ اس لحاظ سے تو ان پر غداری کا کیس لگتا ہے۔ مگر حیران کن بلکہ پریشان کن بات جناب نوجوان قائد کا کردار ہے کیونکہ دوسرے دن محترم پی ٹی ایم والوں سے ملنے چلے گئے۔ یقیناً ملکی مفاد کے خلاف تو باتیں نہیں ہوئی ہونگی لیکن ایسے لوگوں سے میل ملاپ رکھنا قابل قدر بات نہیں ہے۔ نوجوان قائد نے ثابت کیا ہے کہ محترم کا مطمع نظر ملکی خدمت نہیں بلکہ والد صاحب اور ان کی دولت بچانا ہے۔ چاہے اسے دشمنوں سے ہی کیوں نہ گٹھ جوڑ کرنا پڑے۔ ایک با کردار قائد کوایسے گٹھ جوڑ اور دشمنوں سے ملاقات زیب نہیں دیتی۔ نوجوان قائد عظیم لیڈر کی تاریخ پڑھیں اور اپنے آپ کو ان لیڈروں کے اصولوں کے مطابق ڈھال لیں۔سب سے عظیم کردار اور انسانی خوبیاں تو حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے ملتی جن پر عمل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ (ختم شد)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024