مقبوضہ کشمیر میں ظلم و بربریت کا کھیل جاری ہے۔ تین روز میں شوپیاں پلوامہ اور دیگر علاقوں میں 12 نوجوانوں کو شہید کر دیا گیا۔ بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید 4 نوجوانوں کو ہزاروں افراد کی موجودگی میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ اس موقع پر احتجاج ، تعزیتی اجلاس ، ہڑتالوں اور جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ تجارتی اور کاروباری مراکز بند رہے۔ انٹرنیٹ اور موبائل سروس معطل رہی۔ بعض علاقوں میں کرفیو رہا۔ حریت رہنماء سید علی گیلانی نے کہا کہ کشمیریوں کو آپریشن آل آئوٹ کے تحت بدترین قسم کے جنگی جرائم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ معروف حریت رہنماء میرواعظ مولوی محمد فاروق ، خواجہ عبدالغنی لون شہید کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ہفتہ شہداء منایا جا رہا ہے۔ مشترکہ آزادی پسند تنظیم JRL کی کال پر 21 مئی کو مقبوضہ علاقہ میں ہڑتال اور سرینگر کی جانب مارچ کیا گیا۔ 21 مئی 1990ء کو ان کی رہائش گاہ پر نا معلوم مسلح افراد نے شہید کر دیا تھا۔ 21 مئی 2002ء کو خواجہ عبدالغنی لون کو بھی نا معلوم قاتلوں نے شہید کیا تھا۔ روئے زمین یا خطے میں پامالیوں اور ظلم و ستم کا سامنا کسی قوم کو نہیں ہے۔ جتنا ریاستی عوام کو ہے۔ تعلیمی اداروں میں آنے اور داخلوں پر پابندی اور امتحانات کو مئوخر کرنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ تلاشیوں اور محاصروں کے عمل سے رمضان مبارک کے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری ظلم و ستم کے ساتھ کنٹرول لائن پر بھی بلا اشتعال فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ رمضان المبارک کے مہینے میں سمانی سیکٹر میں ڈنہ کے مقام پر بلا اشتعال فائرنگ کر کے B.Sc. کے طالبعلم عمر طاہر سبحانی کو شہید کر دیا گیا جو اپنے گھر میں سوئے ہوئے تھے۔ آزاد کشمیر پارلیمنٹ کے اجلاس میں ایک قرار داد رکن اسمبلی محترمہ فائزہ شہناز نے پیش کی جو متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔ جس میں مقبوضہ کشمیر میں نوجوانوں ، بوڑھوں ، مرد اور خواتین پر بربریت بلٹ اور پیلٹ گن کے استعمال اور ریاستی دہشت گردی کی شدید مذمت کی گئی اور کہا کہ محاصروں اور تلاشیوں کی آڑ میں خواتین اور بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں حالیہ نام نہاد انتخابات میں بے جا طاقت کے باوجود انتخابات کے بائیکاٹ کرنے پر خراج تحسین پیش کیا گیا۔ یٰسین ملک سمیت تمام حریت قیادت کی گرفتاریوں اور ہراساں کرنے کی شدید مذمت کی گئی اور یٰسین ملک کو طبی سہولتیں مہیا کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ قرار داد میں اقوام متحدہ عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں سے مداخلت کی اپیل کی گئی کہ انسانی حقوق کی پامالیاں بند کروائیں اور بھارت کو مجبور کریں کہ کشمیریوں کو UNO کی قرارداد کی روشنی میں استصواب رائے کا حق دے۔
کشمیر اسمبلی کے اجلاس میں وزیر اعظم آزاد کشمیر کی طرف سے آڈیو لیکس کی بازگشت پورے زورو شور سے سنائی دے رہی ہے۔ وزیر اعظم سمجھتے تھے کہ خاموش رہنے سے مسئلہ حل ہو گا۔ وزیر مال سردار فاروق سکندر اور مسلم کانفرنس کے رکن اسمبلی صغیر چغتائی نے علیحدہ علیحدہ قرار دادیں پیش کیں۔ وزیر اعظم کی عدم موجودگی کی وجہ سے محرک کی درخواست پر آئندہ اجلاس 22 مئی پر ملتوی کر دی گیا۔ قرار دادوں میں وزیر مال نے کہا کہ وزیراعظم کی طرف سے سردار سکندر حیات کے خلاف ناشائستہ گفتگو قابل مذمت ہے۔ ہماری سیاسی ، معاشرتی روایات اس بات کی اجازت نہیں دیتیں کہ اپنے محسنوں اور خواتین کے بارے میں اس طرح کی گفتگو کی جائے۔ جس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو۔ لہٰذا وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان پارلیمنٹ میں آ کر سردار سکندر حیات خان اور جس خواتین کی دل آزادی کی ہے معذرت کریں۔ انہوں نے سپیکر سے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ضابطہ فوجداری کے تحت ملزم کا سامنے ہونا ضروری ہے۔ لہٰذا جب راجہ فاروق حیدر خان موجود ہوں تو بات کروں گا۔ اسی طرح سردار صغیر احمد چغتائی کی قرار داد کو بھی آئندہ اجلاس پر ملتوی کر دیا گیا۔ اجلاس کے دوران ممبران اسمبلی نے بھی آڈیو لیکس پر نازیبہ گفتگو پر شدید احتجاج کیا اور تحریک التواء پیش کی۔ لیکن سپیکر نے تحریک التواء پر بات کرنے کی اجازت نہ دی۔ جس پر شدید احتجاج اور بائیکاٹ کیا گیا۔
آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے قائد سردار عتیق احمد خان نے پیپلز پارٹی آزاد کشمیر اور چوہدری عبدالمجید تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹری جنرل غلام محی الدین دیوان ، ملک محمد نواز، سردار حسن ابراہیم ، سردار صغیر احمد چغتائی ، محترمہ شازیہ اکبر کے ہمراہ پریس کانفرنس کی اور کہا کہ وزیر اعظم کے الفاظ اور رویہ قابل مذمت ہے۔ جب تک معافی نہیں مانگتے اور اپنے عہدے سے مستعفیٰ نہیں ہوتے تحریک جاری رہے گی۔ پاکستان تحریک انصاف کے صدر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے بھی کہا کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال نہایت گھمبیر ہے۔ وزیر اعظم اپنی حکومت کو بچانے کی فکر میں ہیں اور حکومت وینٹی لیٹر پر خطے میں رواداری کی سیاست ہے۔ میرے والد چوہدری نور حسین اور سردار فتح محمد کریلوی نے اس خطے کی آزادی کے لئے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ لیکن نظریات کی علیحدگی کے باوجود آپس میں احترام کا رشتہ قائم رہا۔ سردار سکندر حیات بہت اچھے منتظم رہے۔ میں نے ہمیشہ ان سے رہنمائی لی ہے۔
لیکن وزیر اعظم آزاد کشمیر نے جو ناشائستہ زبان استعمال کی اور ایک خواتین کے خلاف نازیبہ الفاظ استعمال کیے اس کے بعد اقتدار میں رہنے کا کوئی جواز نہ ہے۔ لہٰذا مستعفی ہوں۔ اس کشیدہ صورتحال میں کوٹلی ، سالار ہائوس میں سپیکر اور سیکرٹری جنرل شاہ غلام قادر اور سینئر وزیر طارق فاروق احمد چوہدری نے سردار سکندر حیات سے ملاقات کر کے رہنمائی حاصل کی۔ تجزیہ نگار اور واقفان حال عید کے بعد دھڑن تختہ کی خبریں دے رہے ہیں جو کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور عوامی مسائل کے ضمن میں یہ خطہ اس بات کا متحمل نہیں ہوسکتا لیکن اس ساری صورتحال کو وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کو سنبھالنا ہو گا۔ وگرنہ اس سیاسی جنگ کا سب سے بڑا نقصان انہی کو ہو گا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024