قومی اسمبلی میں فاٹا کو مکمل طور پر صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی 31 ویں آئینی ترمیم کو دوتہائی اکثریت سے منظور کر لیا گیا۔ترمیم کو230 سے زائد ووٹوں سے منظور کیا گیا،حکومتی اتحادیوں جمعیت علماءاسلام (ف)،پختونخوا ملی عوامی پارٹی، مخالتف کرتے ہوئے احتجاجاً واک آؤٹ کر گئیں۔ ترمیم کو پاکستان مسلم لیگ (ن) پاکستان پیپلزپارٹی، پاکستان تحریک انصاف جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی، ایم کیو ایم دیگر اپوزیشن جماعتوں کی حمایت سے منظور کیا گیا ہے۔وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان بھی اس موقع پر موجودتھے ، ترمیم کے تحت آئین سے فاٹا پاٹا کے الفاظ نکال دیئے گئے بلوچستان کے قبائلی علاقے بھی صوبہ بلوچستان میں شامل ہو جائیں گے۔ فاٹا کی12 نشستوں میں 6 کی کمی کے ساتھ قومی اسمبلی کی نشستیں 342 سے کم ہو کر 336 رہ جائیں گی۔ فاٹا کی 8 سینیٹ نشستیں ختم ہو جائیں گی جس پر سینیٹ کی 104 نشستیں کم ہو کر 96 رہ جائیں گی۔ خیبرپختونخوا اسمبلی کی نشستیں 145 ہو جائیں گی۔ 8آئینی شقوں میں ترامیم کی گئی ہیں۔ 31ویں آئینی ترمیم وزیر قانون و انصاف چوہدری محمود بشیر ورک نے پیش کی پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی طویل عرصے کے بعدقومی اسمبلی میں آئے ۔ آئینی ترمیم کے تحت فاٹا کی 12 نشستوں کو ختم کر کے 6 کر دیا گیا ہے۔ اس طرح قومی اسمبلی کی موجودہ 342 نشستیں کم ہو کر 336 ہو جائیں گی۔ اس مقصد کے لئے آئینی شق 51 میں ترمیم کی گئی ہے۔ فاٹا کی قومی اسمبلی کی نشستوں کے ساتھ خیبرپختونخوا کی قومی اسمبلی کی 45 نشستوں میں 6 کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اب خیبرپختونخوا کی قومی اسمبلی کی نشستیں 45ہو جائیں گی۔ اس طرح آئین کی شق 59 میں ترمیم کرتے ہوئے فاٹا کی سینیٹ کی 8نشستیں ختم کر دی جائیں گی۔ آئینی ترمیم کے تحت سینیٹ کی 104 نشستیں کم ہو کر 96 ہو جائیں گی۔ آئینی شق 62 میں ترمیم کے تحت اس شق سے فاٹا کے الفاظ کو حزف کر دیا جائے گا۔ 106 شق میں ترمیم کے تحت ضم ہونے والے علاقوں کی صوبائی نشستوں کے ساتھ خیبرپختونخوا اسمبلی کی نشستیں 145 ہو جائیں گی۔ قبائلی علاقوں کی نسبت خیبرپختونخوا میں 16 جنرل خواتین کی چار اور غیرمسلموں کیلئے ایک ہو گی۔ آئینی ترمیم میں لکھ دیا گیا ہے کہ ضم ہونے والے علاقوں کی 16 جنرل صوبائی نشستوں پر انتخابات 2018ءکے بعد ایک سال کے اندر ہونگے۔ آئین کی شق 155 میں ترمیم کے تحت اس شق سے فاٹا کے الفاظ حذف کر دیئے جائیں گے۔ 246 شق سے پاٹا کے الفاظ کو نکال دیا گیا ہے جبکہ بلوچستان کے زیرانتظام قبائلی علاقے صوبہ بلوچستان میں ضم ہو جائیں گے۔ 31ویں آئینی ترمیم کے تحت آئین سے شق 247 کو حذف کرتے ہوئے فاٹا کے بارے میں صدر اور گورنر کے اختیارات ختم کر دیئے گئے ہیں اور فاٹا و پاٹا کو صوبائی حکومت کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ ترمیم کو پی پی پی ، مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی، ایم کیو ایم، قومی وطن پارٹی و دیگر اپوزیشن جماعتوں اور فاٹا ارکان کی حمایت کے ساتھ دوتہائی اکثریت سے منظور کر لیا گیا ہے۔ اتحادیوں جمعیت علماءاسلام (ف)، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، تحریک انصاف کے منحرف رکن داور کنڈی اور قبائلی رکن بلال الرحمان نے فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی مخالفت کی اور اتحادی جماعتوں کے ارکان احتجاجاً واک آؤٹ کر گئے۔ بل کی بیان اغراض و وجوہ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی کابینہ نے 2017ءمیں اپنے ابتدائی اجلاس میں فاٹا (FATA) کی صوبہ خیبرپختونخوا میں انضمام کی منظوری دی تھی اور دستور (تیسویںترمیم) بل 2017ءقومی اسمبلی میں پیش کیا گیا جو کہ اب تک مجلس قائمہ میں زیرالتواءہے جسے اب واپس لے لیا جائے گا۔ 2۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں اور قبائلی علاقہ جات کے نمائندگان کے ساتھ مشاورت سے اور اس پر دوبارہ غور و خوض کے لئے کابینہ نے 22 مئی 2017ءکو ہونے والے اپنے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا کہ صوبہ کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات کو متعلقہ صوبے کے ساتھ اور وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات کو صوبہ خیبرپختونخوا کے ساتھ ضم کرنے کے لئے جامع بل تیار کیا جائے تاکہ قبائلی علاقہ کی عوام کو قومی دھارے میں لایا جا سکے۔ بحسبہ، دستور (اکتیسویں ترمیم) بل 2018ءتیار کیا گیا۔ بل مذکورہ بالا مقاصد کے حصول کے لئے تیار کیا گیا ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024