محسن پاکستان امیر آف بہاولپور کو سلام
24 مئی 1966 ء کی صبح کا سورج بہاولپور اور اہلیان بہاولپور کے لئے محسن پاکستان کے انتقال کی خبر لئے طلوع ہو رہا تھا۔بہاولپور میں قیامت کا سماں پیدا ہو گیا جس نے دل و دماغ کو ماؤف کر ڈالا۔ جب اعلیٰ حضرت سرصادق محمد خامس عباسی کی میت لندن سے کراچی اور کراچی سے لاہور ڈیرہ نواب صاحب لائی گئی تو ریلوے سٹیشن پر ایک زبردست کہرام برپا تھا۔ لاکھوں مرد‘ عورتیں یتیم بچے جن کا وہ واحد سہارا تھے آج کے دن ہر آنکھ اشکبار تھی۔ جب ٹرین سٹیشن پر آ کر رکی تو ایک شخص نے سراسیمگی کی حالت میں اپنا سرگاڑی کے دروازے پر اتنے زور سے مارا کہ اس کے ماتھے سے خون کا فوارہ بہہ نکلا۔ یہ کوئی نواب بہاولپور کا رشتہ دار نہ تھا‘ یہ کوئی رعایا کا فرد اور نہ مسلمان تھا بلکہ یہ فوجی وردی میں ملبوس ایک انگریز تھا جس نے بیس سال سے زائد بہاولپور سٹیٹ فورسز کی کمانڈ کی تھی اور نواب صاحب کے مشیر بھی تھے۔ یہ میجر جنرل جے ایچ مارڈن تھا۔ اس شخص کی آہ و بکا نے حاضرین کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ ریلوے سٹیشن سے صادق گڑھ پیلس تک تین میل کا سفر کئی گھنٹوں میں طے ہوا۔ سٹیشن سے میت کو چار گھوڑوں کی بگھی میں پلٹن میدان لے جایا گیا جہاں قاضی عظیم الدین صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے بعد یہ ملک کا تیسرا بڑا جنازہ تھا جس میں تقریباً آٹھ لاکھ سے زائد اشخاص نے شرکت کی۔
امیر آف بہاولپور سچے مسلمان اور محب وطن تھے۔ تاریخ شاہد ہے کہ غیروں نے پاکستان اور بہاولپور کے الحاق کے خلاف کئی سازشیں کیں مگر مرحوم امیر نے وطن اور اسلام کی محبت کو فوقیت دیتے ہوئے ریاست کا پاکستان سے الحاق فرمایا۔ معاہدہ الحاق میں امیر آف بہاولپور نے امور خارجہ‘ دفاع اور کرنسی میں حکومت پاکستان کی سربراہی قبول کی۔ وہ قائداعظم کے ذاتی دوست تھے اس لئے ان کے ہاں بھی وہی تعمیری سوچ کارفرما تھی جو بانی پاکستان کا طرہ امتیاز تھی۔ سرصادق محمد خان عباسیؒ نے جو گراں قدر اور دقیع خدمات قیام پاکستان اور استحکام پاکستان کے لئے انجام دی تھیں وہ ناقابل فراموش ہیں۔ صرف الحاق کے وقت پاکستان کو 7 کروڑ روپے نقد بطور تحفہ عنایت کئے اور کروڑوں روپے کا سامان سپیشل ٹرین کے ذریعے حکومت کے حوالے کیا۔ کچھ عرصے بعد دوبارہ2 کروڑ روپے دئے‘ 22 ہزار ٹن گندم اور مہاجرین کیلئے پانچ لاکھ روپے بھی دئے۔ تین برس کے لئے تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اپنی جیب سے ادا کیں۔ پاکستان کی کرنسی کے لئے دنیا کا کوئی بنک گارنٹی دینے کو تیار نہیں تھا اسی بہاولپور نے پورے 20 من سونا خزانہ میں ڈالا اور اس ملک کی کرنسی پر اپنی مہر ثبت کی تاکہ دنیا پاکستان کی کرنسی کو تسلیم کرے۔ قائداعظم نے نواب صاحب کو محسن پاکستان کا خطاب دیتے ہوئے فرمایا میں نواب صاحب کے کن کن احسانات کا شکریہ ادا کروں۔ انہوں نے اس وطن کیلئے کاغذ‘ قلم اور دوات تک فراہم کی۔ جب مہاجرین کی بڑی تعداد ریاست بہاولپور پہنچی تو امیر آف بہاولپور نواب سر صادق محمد خان نے وزارت بحالیات بھی قائم کی اور مقامی لوگوں پر پابندی عائد کر دی کہ وہ مہاجرین سے شادی نہیں کر سکتے اس کی وجہ یہ تھی کہ کہیں مقامی لوگ ان مہاجرین کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر شادیاں نہ کرلیں۔31 مئی 1935 ء کو کوئٹہ میں شدید زلزلہ آیا جس سے نصف آبادی اور شہر زمیں بوس ہو گیا۔ ہزاروں لوگ رات کے اندھیرے میں ابدی نیند سو گئے۔زلزلہ سے جو تباہی پھیلی اس کی برصغیر میں مثال نہیں ملتی۔ کوئٹہ میں اہل پنجاب کی آبادی زیادہ تھی‘ ہر روز ایک پوری ٹرین کوئٹہ سے روانہ ہوتی اور دوپہر کو بہاولپور پہنچتی تھی۔ ان بے گھر لوگوں کے لئے امیر آف بہاولپور کے فرمان کے مطابق روزانہ چار ہزار آدمیوں کاکھانا سمہ سٹہ ریلوے سٹیشن پر تیار ہوتا تھا۔ جس میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے لئے علیحدہ علیحدہ لنگر تیار ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ کپڑے‘ جوتے بھی ان کو مفت مہیا کئے جاتے اور نقد رقم بھی دی جاتی تھی۔
پنجاب یونیورسٹی کا سینٹ ہال(جہاں اس وقت یونیورسٹی کالج آف انفارمیشن ٹیکنالوجی قائم ہے) امیر بہاولپور نے تعمیر کروایا۔ اس کی پیشانی پر آج بھی نواب صاحب کی تختی موجود ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کو زمین بھی بہاولپور نے عطیہ کی۔ نواب آف بہاولپور نے کنگ ایڈورڈمیڈیکل کالج لاہور کی 1915 ء میں توسیع کے لئے ایک لاکھ پچاس ہزار روپے دئے۔ (آج کے پچاس کروڑ) جس سے ایک وسیع و عریض فزیالوجی اور پتھالوجی بلاک تعمیر کرایا گیا جبکہ ضلع لاہور کے تمام امراء ‘ تاجروں‘ سیٹھ‘ جاگیرداروں‘ سرمایہ داروں‘ اہل ثروت‘ خاص و عام سے صرف ایک لاکھ 67 ہزار روپے چندہ اکٹھا ہوا۔ انگریزوں نے نواب صاحب کے اس بھاری اور خطیر امداد سے تعمیر ہونے والے بلاک پر کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج بہاولپور 1916 ء لکھوایا۔ اسی طرح ایچیسن کالج کا بورڈ نگ ہاؤس ’’بہاولپور ہاؤس‘‘ مسجد اور سوئمنگ پول نواب سر صادق عباسی کی یادگار ہیں۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ‘ عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد دکن‘ کنگ ایڈورڈ انجینئرنگ کالج لاہور‘ ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی وغیرہ میں بہاولپور سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کے لئے علیحدہ نشستیں مخصوص تھیں۔ ریاست کی طرف سے بہاولپور ہاؤس لاہور اور الشمس پیلس کراچی میں طالب علموں کی رہائش کا انتظام تھا اور ان کو وظائف بھی دئے جاتے تھے۔ ایچیسن کالج کی طرز پر صادق پبلک سکول جیسے اعلیٰ معیاری ادارے کا قیام کیا گیا۔ اس ادارے کے لئے نواب صاحب نے اپنی ذاتی 450 ایکڑ زمین کے علاوہ تعمیر و ترقی کیلئے فنڈز فراہم کئے۔ نواب آف بہاولپور نے دیگر اداروں کے علاوہ بہاولپور میں عظیم الشان صادق ریڈنگ لائبریری قائم کی جس میں نادر و نایاب مخطوطات‘ قدیم و جدید اخبارات و رسائل اور لاکھوں کتابیں موجود ہیں۔ اس لائبریری میں ایک بس کا بھی انتظام کیا گیا۔ وہ خواتین جو پردے کی پابندی کی وجہ سے گھروں سے باہر نہیں جاتی تھیں ان کے لئے اس بس میں سفری لائبریری کا انتظام کیا گیا اور خواتین کلرک گھروں میں جا کر کتابیں جاری کرتیں اور واپس لاتیں۔
سرصادق محمد خان عباسیؒ آخری فرمانروائے بہاولپور کی حضورﷺ سے دلی محبت کا جذبہ بہت وسیع و عمیق تھا۔ نواب صاحب کے حضور پرنور سرکار مدینہؐ کے روضہ اقدس پر سرخ رنگ کے لگوائے ہوئے فانوس آج بھی اس محبت اور خلوص کی گواہی دے رہے ہیں۔ نواب آف بہاولپور صادق محمد خان سادہ مگر خوددار شخصیت کے مالک تھے۔ اپنے لندن میں قیام کے دوران ایک روز سادہ لباس میں عام شہری کی طرح ٹہلنے نکلے اور اسی دوران دنیا کی معروف ترین کارساز کمپنی ’’رولز رائس‘‘ کے شوروم پر نظر پڑی۔ شوروم میں کھڑی گاڑیاں بے حد پسند آئیں لیکن جب ان کی قیمت معلوم کرنے کیلئے اندر داخل ہونے لگے تو دروازے پر موجود گارڈ نے ان کو غریب ایشیائی باشندہ سمجھ کر ان کی بے عزتی کردی اور کہا یہ گاڑیاں تمہاری پہنچ سے بہت دور ہیں۔ گارڈ کی اس بدتمیزی کے بعد امیر آف بہاولپور واپس ہوٹل پہنچے اور اگلے ہی دن پورے شاہی لوازمات کے ساتھ ملازموں کی فوج لے کر شو روم پہنچے اور وہاں موجود چھ کی چھ گاڑیاں خرید لیں اور ملازموں کو حکم دیا کہ فوراً یہ گاڑیاں بہاولپور بھجوا کر میونسپلٹی کے حوالے کی جائیں اور ان گاڑیوں سے شہر کو صاف کرنے اور کوڑا اٹھانے کا کام لیا جائے۔ جب بہاولپور رولز رائس گاڑیاں کوڑا اٹھانے لگیں تو یہ بات پوری دنیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور مارکیٹ میں رولز رائس کی قیمت تیزی سے گرنے لگی۔ دنیا میں رولز رائس کمپنی کی ساکھ کو بری طرح نقصان پہنچا۔ کہیں بھی رولز رائس کا نام لیا جاتا تو لوگ ہنسنے لگتے اور کہتے ’’وہی رولز رائس جس سے ریاست بہاولپور میں کوڑا اٹھایا جاتا ہے‘‘اس صورتحال سے پریشان ہو کر رولز رائس کمپنی کے مالک نواب صاحب سے معافی مانگنے خود بہاولپور آئے اور تحریری معافی نامہ پیش کیا اور درخواست کی کہ گاڑیوں کو کوڑا اٹھانے کے کام سے ہٹا دیا جائے۔ نواب صاحب نے ان کی معافی قبول کرتے ہوئے تمام گاڑیوں کو کوڑے اور صفائی کے کام سے ہٹا دیا۔
رولز رائس کمپنی کے مالک نے نواب آف بہاولپور کو بطور تحفہ چھ نئی گاڑیاں بھی پیش کیں جن میں سے ایک نواب صاحب نے ریاست کے دورے پر آئے سعودی عرب کے شاہ کو تحفہ میں دے دی۔ حکومت پاکستان امیر آف بہاولپور سر صادق محمد خان عباسیؒ پر مضمون باقاعدہ نصاب میں شامل کرے اور نیو اسلام آباد ائرپورٹ کو ان کے نام سے منسوب کرے تاکہ اس ہستی کو خراج تحسین پیش کرنے کی ایک ادنیٰ سی کوشش کی جا سکے۔