فورٹ منرو میں کیڈٹ کالج کے قیام کا معاہدہ
پاکستان ائیر فورس اور حکومت پنجاب کے مابین گذشتہ دو ماہ میں دو اہم ترین معاہدہ جات پر دستخط ہوئے ہیں۔ پہلا معاہدہ 18مارچ 2018کو پاکستان ائیر فورس اور سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ حکومت پنجاب کے مابین فورٹ منرو (ڈیرہ غازی خان ) میں پی اے ایف کیڈ ٹ کالج کے قیام کے متعلقہ ہوا۔ اِس معاہدہ میں وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، پی اے ایف کے اعلیٰ افسران سمیت وفاقی وزیر و چیرمین فورٹ منر و ڈیویلپمنٹ اتھارٹی سردار اویس احمد خان لغاری اور ایم پی اے سردار جمال خان لغاری موجو دتھے۔ دوسرا معاہدہ مورخہ20مئی 2018کو تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کھر فورٹ منرو کے انتظامی امور کی سپردگی کا معاہدہ پی اے ایف اورپرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کئیر ڈیپارٹمنٹ کے مابین طے ہوا ہے۔ اِس تقریب میں بھی سردار اویس احمد خان لغاری نمایاں طور پر شریک تھے۔بعدازاں دونوں تقریبات الیکڑانک ، پرنٹ اورسوشل میڈیا پر پنجاب حکومت اور لغاری سرداران نے اپنی تصاویر بمعہ احوال معاہد ہ جات کوبطور احسن کارکردگی عوام الناس کے سامنے پیش کیا ہے۔ اگرہمارے ہاں بھی مہذب اقدار کا راج ہوتا تو تمن لغاری کے یہ دونوں سردارکم از کم سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر اور اِن معاہدہ جات کی تشہیر نہ کرتے۔ کیونکہ یہ دونوں معاہدہ جات پاکستان ائرفورس کے تناظر میں تو یقینی طور پر قابل تعریف اقدام ہیں کہ اِس خطہ کے پسماندہ ترین اور محرومیوں کے شکار فورٹ منرو میں اب کیڈ ٹ کالج بھی بن جائے گا اورملٹری ہسپتالوں کی مانند ایک ٹی ایچ کیو لیول کا ہسپتال یہاںغریب عوام کو صحت کی بہترین سہولیات فراہم کرئے گا۔مگر تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ کیڈٹ کالج کا قیام اور تحصیل ہیڈ کوارٹر کھر کا قیام حکومت پنجاب سمیت لغاری سرداروں کی ذمہ داری تھی اور یہ دونوں منصوبہ جات کیڈٹ کالج ۔۔۔ اور کھر ہسپتال کا2006-07 سے التوا کا شکار تھے۔ یہ لوگ اپنی نااہلیت کی بناپر پاکستان ائیر فور س سے معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ مگر اخلاقی پستی کا یہ عالم ہے کہ یہ لوگ جو کام خود نہیں کرسکے اور نہ کرنا چاہتے تھے اب اُس کام کا بھی ایڈاونس میں کریڈٹ لینا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے 70سالہ سفر مسافت میں اِن سرداروں کے پاس اقتدار کے اعلیٰ ترین عہدے رہے ہیںاور کسی نے انہیں عوام کی خدمت کرنے سے روکا بھی نہیں تھا۔پھر اُنہوں نے قبائلی عوام کے لیے کیوں کچھ نہیں کیا۔ جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ سے ملحقہ ضلع ڈیرہ غازی خان کا6475مربع کلومیٹر رقبہ قبائلی علاقہ پر مشتمل ہے۔ قبائلی علاقہ کے مکین آج بھی پتھر کے زمانے کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اِس علاقہ پر انگریزی راج کے بعد سے آج تک6 قبا ئل قیصرانی، کھتران، لُند، کھوسہ ، بزدار اور لغاری سرداروں کا راج قائم ہے ۔
بنیادی ضروریات زندگی ، پینے کا پانی، خوارک، سٹرکیں ، تعلیم اورہیلتھ کیئر کی دستیابی قبائلی مکینوں کے لیے آج کے 4Gدور میں بھی ایک خواب ہے۔یہ لوگ زندگی بسر نہیں کر رہے بلکہ دن رات گزرتے دیکھ رہے ہیں۔زندگی اور موت کی سختی اِن کے لیے یکساں معنی رکھتی ہے۔ ہر دور حکومت میںشامل اقتداررہنے والے سرداروں نے فقط اپنی سرداری کی بقاکی خاطر انہیں آج تک پسماندہ رکھا ہے۔ قبائلی علاقہ تمن لغا ری میں فورٹ منرو ایک صحت افزاء مقام جنوبی پنجاب کا مری واقع ہے۔ منصب صدارت سے لے وفاقی اور صوبائی وزارتوں تک لغاری سرداروں نے دور اقتدار کا لطف اُٹھایا ہے مگر فورٹ منرو کو اِن لوگوں نے ہمیشہ جان بوجھ کر نظر انداز کیے رکھا ہے۔ مری کی مانند اگر اِس خطہ کو ترقیاتی منصوبہ جات سے نواز دیا جاتا تو آج بائیکاٹ مری کی مہم سے جنوبی پنجاب کو فورٹ منرو کی شکل میں ایک اور مری مل سکتا تھا۔ اِس خطہ کو پسماندہ رکھ کرقبائلی عوام سے اُن کا حق ِزندگی چھینا گیاہے۔ معاشی پسماندگی کی بنا پر غربت و افلاس کے اندھیروں میں گھرے قبائلی لوگ تعلیم او ر صحت کی سہولیات سے بھی نابلد ہیں۔ معمولی نوعیت کی بیماریاں بھی اِن لوگوں کی عدم فراہمی ہیلتھ کیئر کی بناپر جان لے لیتی ہیں۔ زچگی میں زچہ بچہ کی اموات کی شرح اِن علاقوں میں بہت ہی زیادہ ہے۔
اِن معاہدہ جات کے بعد اب اُمید کی کرن نظر آر ہی ہے کہ سسک سسک کر مرنے والے قبائلی لوگوں کی زندگیاں اچھی ہیلتھ کیئر کی بنا پر شائد بچ جائیں۔ محکمہ صحت ڈیرہ غازی خان کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق20کینال رقبہ پر مشتمل اِس ہسپتال کے PC-1کی منظوری حکومت پنجاب نے 15مئی 2014کو دی۔ اِس کا ابتدائی تخمینہ لاگت کل 171.395ملین روپے تھا۔ 30ستمبر 2017تک اِس پر کل رقم 147.033ملین روپے خرچ کی گئی۔ مورخہ 12فروری 2018کو کابینہ میٹنگ فنانس اینڈ ڈیویلپمنٹ میں اِس منصوبہ کے لیے مذید 19.742ملین روپے کی منظوری دی گئی۔ اب تک اِس ہسپتال کے آوٹ ڈور ڈیپارٹمنٹ (OPD)کا انتظامی کنٹرول Punjab Health Facilities Management Company (PHFMC) کے پاس تھا۔ مگر اب اس منصوبہ کے بعد اِس کا انتظامی کنٹرو ل پی ایف اے کو سپرد کر دیا گیا ہے۔ کھر فورٹ منرو اور دیگر ملحقہ قبائلی علاقوں کی تقریباً3لاکھ آبادی کو40بستروں پر مشتمل اِس ٹی ایچ کیو ہسپتال میں ای سی جی، ڈینٹل یونٹ، موبائل ایکسرے یونٹ ، ائرکنڈیشنڈ ایمبولینس، 100KVAکا جنریٹر، پورٹ ایبل الٹرا ساونڈ ، سی سیکشن آپریشن اور دیگر ہمہ قسمی آپریشن کی سہولت سمیت بچوں کی نگہداشت کی سہولیات24گھنٹے فراہم ہوں گی۔ اور اِس منصوبہ کا ڈیزائن قبائلی علاقہ کی آئند ہ 50سالوں کی ضروریات کو مد نظر رکھ کر بنا یا گیا ہے۔ حکومت پنجاب نے 27ستمبر 2017کو اِس ہسپتال کے لیے 96آسامیوں کی باقاعدہ منظوری بمعہ بجٹ دے دی ہے۔ اِس کے سٹاف میں BS-01 تا BS-19کے سرکاری ملازم شامل ہیں جن میں نمایاں سرجن ، فزیشن، گائنالوجسٹ، چائلڈ سپیشلسٹ ، پتھالوجسٹ، ریڈیالوجسٹ ، آئی سپیشلسٹ،آرتھو پیڈک سرجن، میڈیکل آفیسر (زنانہ /مردانہ)، ڈینٹل سرجن، فارماسٹ، سٹاف نرسز سمیت دیگر پیرا میڈیکل سٹاف شامل ہیں نیز اِن سرکاری ملازمین کے لیے 11سرکاری رہائش گاہیں بھی تعمیر کی گئی ہیں۔ اگرچہ فی الحال 96آسامیاں منظور کی گئی ہیں۔ عمومی طو رپر ٹی ایچ کیو ہسپتال میں 173آسامیاں ہوتی ہیں۔ اگر حکومت پنجاب بقایا 77آسامیوں بشمولSWMO، ای این ٹی سپیشلسٹ،سینئر انتقال خون آفیسراور مختلف ای سی جی اور ڈینٹل ٹیکنیشن کی منظوری بھی دے تو یہ ہسپتال نہ صرف ضلع ڈیرہ غازی خان کے قبائلی علاقہ جات کے لیے علاج کا نعمت کدہ بن جائے گا بلکہ بلوچستان کے ژوب ڈویژن آبادی 1542447 کے اضلاع بارکھان، قلعہ سیف اللہ ، لورالائی اور موسی خیل کے لوگوں کے لیے ایک بہت بڑی علاج گاہ بن جائے گا۔ جس کا فوری طور پر یہ فائدہ ہوگاکہ وہ غریب لوگ جن کو سینکٹروں میل کی مسافت طے کرکے ٹیچنگ ہسپتال ڈیرہ غازی خان او ر پھر یہاں سے نشتر ہسپتال ملتان علاج معالجے کے لیے جانا پڑتا تھا اُن لاکھوں لوگوں کو ایک معیاری پرائمری ہیلتھ کئیر کھر فورٹ منرو کے ہسپتال میں دستیاب ہو جائے گی۔جس سے مریضوں کے رش کا دبائو ٹیچنگ ہسپتال ڈیرہ غازی خان ا اور نشتر ہسپتال ملتان میں بھی کم ہو جائے گا۔