’’60ملین پاکستانی پانی کی کمی سے دوچار
پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا -فرمانِ ربی ہے ’’میں نے اپنی حاکمیت کی ابتدا پانی سے کی ‘‘پانی کی اہمیت کا انداز ہ اس سے بڑھ کر ا ور کیا لگایا جائے ۔جب بھی کوئی سیاستدان اس ملک کا حکمران بنتا ہے اس کا پہلا فرض یہ ہوتا ہے کہ اپنے ملک کے پانیوں کی حفاظت کرے ۔افسوس کی بات ہے جتنے بھی حکمران آئے ،انہوں نے پانی کی حفاظت کا اپنا فرض ادا نہیں کیا ۔ایوب خان کے دور میں سندھ طاس معاہدہ ہوا ، اس میں تین دریا مکمل طور پر بھارت کو دے دیے گئے جو عالمی قوانین کے منافی ہے ۔ اس سے دریا کے ٹیل پر رہنے والوں کو پانی سے محروم نہیں کیا جا سکتا ۔ دنیامیں جتنے بھی بڑے دریا بہہ رہے ہیں وہ سب چار یاپانچ ملکوں سے گزرکر ان تمام ملکوں کو پانی دے رہے ہیں ۔سند ھ طاس معاہدہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی تھا ۔مزید ظلم پاکستان کے ساتھ بھارت نے یہ کیا کہ پاکستان کے تین دریا ئوں چناب ،جہلم اور سندھ کے معاون دریائوں کا پانی روکناشروع کر دیا اور اپنے علاقوں میں ان دریائوں پر ڈیم بنادیے ۔آج پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے ۔دریا تہذیبوں کی زندگیوں کے ضامن ہوتے ہیں۔جب دریا خشک ہوجاتے ہیں تو تہذیبیں فنا ہوجاتی ہیں ۔ ہمارے علاقے کا سب سے پہلا دریا جو خشک ہوا اس کا نام ہاکڑہ ہے ،جب یہ بہتا تھا ، اس کی تہذیب دنیا میں سب سے زیادہ خوبصورت ترین سمجھی جاتی تھی ۔اس کا اعتراف یونانی اسکندر اعظم نے بھی کیا ۔دریائے ہاکڑہ کے خشک ہونے پر اس کی تہذیب کے فنا ہونے میں صدیاں لگیں کیونکہ آبادی کم تھی اور زمین سے پانی ہاتھوں سے کھینچا جاتا تھا ۔آج آبادی کروڑوں میں ہے اور ٹربائینوں کے ذریعے لاکھوں کیوسک پانی نکالا جارہا ہے جس سے پانی کی زیرزمین سطح خو فناک حدتک گر رہی ہے ۔پانی میں آرسنک شامل ہو چکا ہے اور یہ پانی پینے کے قابل نہیں رہا ۔یہ سلسلہ جاری رہا تو دریائے ستلج کی تہذیب چند دہائیوں میں فناہوجائے گی۔ یہ بات میں نے سابق صدرِپاکستان آصف علی زرداری صاحب کو بھی بتائی تھی ،وہ بھی دریائے ستلج تہذیب کے فنا ہونے کے خیال سے پریشان ہوئے ۔آج پانی کی کمی پورے ملک کے دریائوں میں ہے ۔ یہ مسئلہ خوفناک صورت اختیار کر چکا ہے ۔گندم کی پیداوار پانی کی کمی کی وجہ سے متاثر ہو چکی ہے اور کپاس کی فصل کے لیے دریائی پانی ابھی تک نایاب ہے جو کہ 30مئی تک فصل کے لیے ضروری ہوتا ہے ۔آج جدھر دیکھو جلسے جلوس نکالے جارہے ہیں ، ساری باتیں قوم سے کی جارہی ہیں لیکن سیاستدانوں نے پانی کے مسئلہ پر قوم کو آگاہ نہیں کیا ۔وہ آگاہ کرہی کیسے سکتے ہیں جبکہ انھوں نے اپنے دور میں پانی کی حفاظت کی منصوبہ بندی ہی نہیں کی ۔بھارت کا منصوبہ ہے کہ پاکستان پانی کی کمی کی وجہ سے اکھنڈ بھارت کا حصّہ بن جائے ۔بھارتی مفادکی سیاست نہ سمجھنے والوں کو چُلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہیے ۔قوم سے استد عا ہے کہ پانی کے بحران کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے لوگوں کو چُنیں جو بھارت کی پانی کی سازش کو ناکا م بناد یں۔ڈاکٹر عبدالقدیرخان نے ایٹم بم بناکر ملک کا دفاع ناقابل تسخیر بنادیا تھا آج پانی کی حفاظت کے لیے بھی ایسے جذبے کی ضرورت ہے ۔ آج ملک کو ڈاکٹر عبد القدیر خان جیسے زیرک لوگوں کی ضرورت ہے جو ملک کو بحرانوں سے نکال کر ترقی کے راستے پر ڈال سکیں۔ ملک میں تعلیم کا جدید نظام اپنانا ہوگا اس کے ساتھ ساتھ جدید ترین اسلحہ ،جنگی جہازاور مطلوبہ جنگی سامان بنانا ہوگا ۔ حدیث ہے ،علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے ۔ ملک میں تعلیم کا نظام حضورؐ کی احادیث مبارکہ کی روشنی میں اپنانا ہوگا ،ا س سے ڈاکٹر عبد القدیر خان جیسے لاکھوں فنی ماہر ین پیدا ہوں گے۔ دوسری حدیث ہے ،ہنر مند اللہ کا دوست ہے ۔تعلیم کو پورے ملک میں عام کیا جائے تاکہ بھارت کی سازشوں کو ناکا م بنایا جاسکے ۔حضورسرورکائنات ؐنے تلوارکی دھارسائنٹیفک بنیادوں پر بنوائی اور حکم دیاگھوڑوں کو اتنا تیز دوڑائو کہ ہانپ جائیں ،واپسی پر جو گھوڑے خوراک کی طر ف چلے گئے ان کو علیحدہ کر دیا اور جو سواروں کے ساتھ کھڑے رہے،گھوڑوںکی آئندہ نسل ان سے لی ۔آپؐنے فرمایا کہ قسطنطنیہ کے فاتحین جنتی ہو ں گے ۔اس جنگ میں تلوارکی بجائے منجنیق اور گھوڑوںکی بجائے بحریہ استعمال ہوئی ۔ایک طرف پانی کا مسئلہ خوفناک صورتحال اختیار کر چکا ہے ،دوسری طرف سیاستدان شوگرملیں لگا رہے ہیں ۔عوام ووٹ دینے سے پہلے سیاستدانوں کو سوال کر یں کہ تم نے پانی کے بحران کو حل کرنے کے لیے کیا سوچا ۔ پانی کا بحران پانچ کروڑ پاکستانیوںکی موت کا سبب بن سکتاہے ۔اب عالمی ادارہ صحت نے انتباہ کیا ہے کہ چھ کروڑ پاکستانی پانی کی کمی اور آلودہ پانی سے ہونے والی بیمار یو ں کی وجہ سے موت کے مُنہ میں جاسکتے ہیں۔سیاستدان سیاست کو کاروبار سمجھنے کی بجائے عبادت سمجھیں تو ملک پانی کے بحران سے نکل سکتاہے ۔افواج پاکستان کے پاس جدید ترین اسلحہ اور جدید ترین سواری ہوگی تو بھارت کو ہمارے دریائوں کے معاون دریائوں کے پانیوں کو روکنے کی جرأت نہیں ہوگی ۔حضورؐ نے کافروں کے مقابلے کے لیے جنگی اسلحے اور جنگی سواری میں برتری کو بنیاد بنایا ،آج مسلمانوں کو اس طریقے پر عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔