موجودہ حکومتوںنے تہیہ کر رکھا ہے کہ پانچ برس کی آئینی ٹرم مکمل کرنے کے لئے ا ٓخری رات کے بارہ بجے تک اقتدار سے چمٹے رہیں گے ، حالانکہ جو حکومتیں قبل از وقت الیکشن کروا لیتی ہیں ، انہیں یہ کوئی طعنہ نہیں دیتا کہ انہوںنے چار چھ دن یا تین چار ماہ قبل الیکشن کروانے کا جرم کیوں کیا اور اپنی ٹرم پوری کیوںنہ کی۔ٹرم پوری کرنا ایک الگ بات ہے ارو الیکشن کاا نعقاد الگ بات، دونوںمیں سے کسی کو نفسیاتی بیماری نہیں بنا لینا چاہئے۔ اور نہ یہ کوئی طعنہ ہے الا یہ کہ سیاسی پارٹیاں محاذ آرائی پیدا کر کے کسی کی آئینی ٹرم پوری نہ کرنے دیں اور کسی تیسری قوت کو مداخلت پر مجبور کر دیں جو پس پردہ رہ کر نگران حکومت کی تشکیل کریں اور نئے الیکشن کی نگرانی کریں، ایسے الیکشن کو ہم انجینئرڈ یا کمپیوٹرائزڈ الیکشن کہہ کہہ کر کوستے ہیں۔
چلئے۔ بھئی ٹرم پوری کر لیں ،مگر ایک آئینی ذمے داری آپ پر یعنی لیڈر آف دی ہائو س اور اپوزیشن لیڈر پر یہ بھی عائیدہوتی ہے کہ ان کے ہاتھ میں جو ہما بٹھا دیا گیا ہے، اس کے پر کھولیںاور کسی کے سر پہ بیٹھنے دیں تاکہ کسی شخص کو پتہ چلے کہ اسے دو ماہ کے لئے ملک کی تقدیر کا نازک ترین اور حساس ترین فریضہ ادا کرنا ہے۔ جمعہ جمعہ آٹھ روز باقی ہیں ،۔ دونوں زیرک اصحاب بار بار سر جوڑ کر بیٹھنے کا ڈرامہ رچاتے ہیں اور اندھیرے میں ٹکریںمار کر رخصت ہو جاتے ہیں، ،۔ شاید سونے کی کوئی کان ہے جس کی نگرانی سونپنے کا فیصلہ انہیں کرنا پڑ گیا ہے۔
وفاق کی سطح پر تو پھر بھی آنیاں جانیاں نظر آ رہی ہیں مگر چاروں صوبوں میں نگران حکومت کے تعین یاا س کی نامزدگی کی کوئی سوچ ہی نہیں پائی جاتی ، اس سے شبہہ ہوتا ہے کہ صوبوںمیں کوئی نگران حکومت بنے گی ہی نہیں۔جبکہ الیکشن کاا صل رن انہی صوبوں میں پڑنا ہے اور پنجاب ا ور سندھ نے فیصلہ کرنا ہے کہ الیکشن کے بعد وفاق کا حکمران کون ہو گا۔ مگر صوبوں کی سیاسی فضا کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو، ایسی مردنی چھائی ہے کہ خدا کی پناہ، کسی کو کل کی فکر کیوں لاحق نہیں۔
پاکستان میں گورننس ہمیشہ مذاق بنی رہی، تماشہ بنی رہی، کوئی شخص اچانک امریکہ سے آنے والی فلائٹ سے ا ترا ، ہم نے اسے نگران وزیر اعظم بنا لیا ، کم از کم محمد علی بوگرہ اور معین قریشی کی قسمت پڑیا تو اسی طرح ہی نکلی تھی معین قریشی کے پاس حلف لینے سے پہلے پاکستان کا شناختی کارڈ تک نہ تھا، گویا ہم نے ایک امریکی وائسراے کو سر آ نکھوں پہ بٹھالیا تھا۔شوکت عزیز بھی ایک خلائی گاڑی ہی سے اترا تھا اور اسی خلائی گاڑی پر واپس چلا گیا ، ایسے لوگ پیچھے مڑ کربھی نہیں دیکھتے کہ ملک اور قوم کا کیا حشر کر گئے ہیں۔
دوستو! ابھی الیکشن نہیں ہوئے مگر عمران خان پہلے سو دن کا پروگرام دے رہے ہیں، ابھی الیکشن نہیں ہوئے اور زرداری کہہ رہے ہیں کہ وہ پنجاب میں شریفوں کو حکومت نہیں بنانے دیں گے، زرداری کے تصرف میں کوئی روحانی مخلوق ہے یا لہ دین کاجن ،اس نے کہا تھا کہ اپنی مرضی کا چیئرمین سینیٹ لائوں گا۔ا ور اس نے ایسا کر دکھایا۔ اس کے آثار کچھ کچھ پہلے ہی وا ضح ہو گئے تھے جب اس نے بلوچستان اسمبلی توڑنے والوں کو دعا دی تھی اور لاہور میں طاہر القادری کے جلسے میں وہ عمران خان کے اسٹیج سے تقریر کرنے چلاا ٓیا، یہ نشانیان تو تھیں مگر قیامت کی نشانیاں تھیں۔ اور زرداری صاحب نے قیامت برپا کر ڈالی، چیئر میں سینیٹ ایسا شخص بنوا لیا جسے انہوںنے نامزد کیا تھا۔ اور عمراں خان بھی اس کو وٹ دے گیا۔ یہ انہونی بات تھی مگر ہو گئی،یارو! ابھی الیکشن ہوا نہیں اور ن لیگ کہہ رہی ہے کہ اگلی حکومت وہی بنائے گی، ضرور بنائے مگر پہلے الیکشن تو ہو لینے دے۔ اور الیکشن کروانے کے لئے ایک نگران حکومت چاہئے وفاق میں بھی صوبوں میں بھی ، اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص ایک صبح آنکھیں ملتا ہوا سو کر اٹھے اور اسے پروٹوکول والے پکڑ کر لے جائیں کہ چلو صاحب، آپ نے حلف لینا ہے۔ یہ شخص شاید انکار تو نہیں کرے گا مگر اسے اقتدار کی کرسی پر یکا یک بیٹھ کر کیا معلوم کہ کرنا کیا ہے، کیسے کرنا ہے ا ور جب تک وہ اقتدار کی راہداریوں اور بھول بھلیوں کا ادراک کر پائے گا، اس کی رخصتی کا بگل بج جائے گا، تو یہ شخص حکومت کی منصوبہ بندی کیا کر پائے گا، کس وقت غورو خوض کرے گا کہ ا سکی کابینہ کیا ہو گی اور اس کابینہ سے وہ کیا کام لے گا، کس طرح لے گا۔ س کی ترجیحات کیا ہوں گی۔اور وہ ان ترجیحات کا تعین کب کر پائے گا۔ظاہر ہے ایساشخص افسر شاہی کی انگلیوں پر ناچنے کے لئے مجبور ہو گا مگر اچھے برے نتائج تو اسی کو بھگتنا ہوں گے۔ اور خلائی مخلوق کو بھی دوش دینے والے کم نہیں ہوں گے۔
پاکستان انسانی وسائل کے لحاظ سے کس قدر غریب اور پس ماندہ ملک ہے کہ یہاں کوئی ایک نگران وزیر اعظم نہیں مل پا رہا ، چار صوبائی وزرائے اعلی بھی نایاب ہو گئے۔۔ پتہ نہیں کہ ہم جمہوریت کے دلدادہ بھی ہیں اور نگران سیٹ اپ بھی کہیں سے دخل انداز ہو گیا ہے، مہذب، متمدن ، جمہوری اورا ٓئین پرست ملکوںمیں حکومت وقت ہی الیکشن کرواتی ہے اورا س کے کرائے گئے الیکشن کوکبھی کسی نے چیلنج تک نہیں کیا۔ امریکہ کو ہم جمہوریت کی ماں کہتے ہیں برطانیہ کو بھی جمہوریت کی جنم بھومی سمجھتے ہیں ، یہاں سٹنگ گورنمنٹ ہی الیکش کرواتی ہے اور اگر ہار جائے توایک بریف کیس تھام کر ایوان اقتدر سے رخصت ہو جاتی ہے، کئی امریکی صدر دوسری مرتبہ کے الیکشن میں جیتے بھی اور ہارے بھی مگر جیتنے کی صورت میں اپوزیشن نے یہ شور قطعی نہیںمچایا کہ دھاندلی ہو گئی اور نہ ہارنے کی صور ت میں سابقہ صدر نے وائٹ ہائوس میں ضرورت اسے ایک لمحہ مزید گزارنے کی کوشش کی۔پاکستان میں جب بھی الیکشن ہوئے چاہے وہ فرشتے بھی کراوئیں، ان پر جھگڑا لازمی پڑتا ہے اور کوئی عمران خان دھرنا دے کے بیٹھ جاتا ہے ،کوئی تحریک نظام مصطفی ملک بھر میں احتجاج کاا ٓغا زکر دیتی ہے حتی کہ ملک میں مارشل لا نافذ ہو جائے۔ اس پر احتجاج کرنے والوں کو چین آ جاتا ہے۔ اور وہ بھنگڑے ڈالتے ہیں، حلوے بانٹتے ہیں ، لڈو کھلاتے ہیں، الیکشن دھاندلی کی ایک قسم عمران خان نے دریافت کی کہ فلاں شخص نے اتنے پنکچر لگائے۔ بات پنکچروں ہی کی کرنی ہے تو عمران نے بھی دھرنا دینے والوں کو تسلی دی تھی کہ بس کسی وقت بھی امپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے،۔ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں مگر وہ دوسروں کو ننگا ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔
ہر پارٹی کو خدشہ ہے کہ کہیں الیکشن میں دھاندلی نہ ہو جائے جبکہ الیکشن کی دھاندلی کی بسم اللہ ہی یہ ہے کہ ابھی تک کسی نگران حکومت کاا علا ن نہیں کیا گیا، دونوں بڑی پارٹیاں اس دھاندلی میں شریک ہیں ، وہ تو کم از کم کسی تیسرے فریق کو بعد میں طعنہ نہ دیں۔نگران نگران کھیلتے انہوںنے اپنی ٹرم پوری کر لی۔ اب بھبلیاں ڈالیں ۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024