میرے پاس سیاسی موضوعات بھی بہت ہیں مگر کبھی کبھی میرا جی چاہتا ہے کہ اس سے ہٹ کر بات کی جائے۔ ٹی وی چینلز پر بھی یہی موضوع چل رہا ہوتا ہے۔ یہ جب سے پرائیویٹ چینلز آئے ہیں۔ زندگی بھی سیاست بن کر رہ گئی ہے۔
نواز شریف اب علامتوں میں بات کرنے لگ گئے ہیں۔ تین چار دنوں سے سینکڑوں لوگ مجھ سے پوچھ چکے ہیں کہ یہ خلائی مخلوق کون ہے؟ اور یہ مخلوق پاکستانی سیاست اور پاکستانی جمہوریت پر کس طرح اثرانداز ہوتی ہے۔ یہ مخلوق نواز شریف کو اس وقت کیوں یاد آئی جب وہ سپریم کورٹ کی طرف سے نااہل ہوئے اور نئے الیکشن سر پر ہیں۔ یہ وہ سمجھتے ہیں کہ ”22 کروڑ کے نمائندے کو چار پانچ لوگ کیسے نکال سکتے ہیں۔ انہیں بھی خلائی مخلوق کی حمایت حاصل ہو گی۔ قطری خط کا مشورہ بھی خلائی مخلوق نے دیا ہو گا جس سے شریف فیملی کو شرمندگی اٹھانا پڑی۔
ایک دبنگ سیاستدان چودھری نثار کا ایک جملہ سنیے۔ ”میں ہمیشہ نواز شریف کے ساتھ کھڑا رہا ہوں۔ میں نے اپنی پارٹی چھوڑی ہے نہ اپنی سیاست مگر کلمہ حق کہنا کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ نواز شریف مجھ سے کیوں ناراض ہیں۔ مجھے ان کے اس بیان پر اعتراض ہے جس میں انہوں نے خلائی مخلوق کا ذکر کیا ہے۔“ ویسے ایک جملہ معترضہ ہے۔ اتنے پرانے قابل اعتماد دلیر ساتھی کے لیے نواز شریف نے غلط اندازہ لگایا۔
شہباز شریف نے بہت کوشش کی کہ نثار اور نواز آپس میں ملاقات کریں مگر بات آگے نہ بڑھ سکی۔ چودھری نثار نے ایک شاندار بات اور بھی شہباز شریف سے کہی۔ نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز میری ذات پر طعنہ زنی کرتے رہتے ہیں۔ میں نے انہیں سپریم کورٹ جانے سے منع کیا تھا۔ اب وہ فیصلہ بھی مان لیں۔ فیصلہ تو انہوں نے مان لیا ہے۔ وزارت عظمیٰ چھوڑ دی مگر تلخ باتیں کرنا نہ چھوڑیں۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ اچکزئی کی گود میں جا کے بیٹھ گئے ہیں۔ اچکزئی جس طرح کا معاملہ بھارت کے ساتھ رکھتے ہیں بھارت کے لیے نرم گوشہ دکھانے کے لیے شاید اچکزئی کے ساتھ دوستی ضروری تھی؟ اور نواز شریف نے اپنے نظریاتی ہونے کا اعلان کیا ہے جس سے مجھے پریشانی ہوئی کہ میں سمجھتا تھا وہ پہلے بھی نظریاتی تھے۔ کہیں نواز شریف کا نظریاتی معاملہ بھی محمود اچکزئی والا تو نہیں ہے۔ نواز شریف کا نظریاتی ہونا ایک خطرناک بات ہے؟
نظریاتی ہونے کے لیے نواز شریف کے اعلان پر چودھری شجاعت بھی پریشان ہیں اور پوچھ رہے ہیں۔ نجانے کس سے پوچھ رہے ہیں۔ یہ خلائی مخلوق کون ہے۔ وہ کچھ عرصہ سیاست میں نواز شریف کے ساتھ رہے ہیں۔ پھر بھی نہیں جانتے۔ میری گزارش چودھری صاحب سے ہے کہ وہ چودھری پرویز الٰہی سے پوچھ لیں۔ نواز شریف خلائی مخلوق کو بہت جانتے ہیں۔ وہی بتا دیں کہ یہ مخلوق کیا ہے۔ نواز شریف کہتے ہیں اور بار بار کہہ رہے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو۔ بڑی اچھی بات ہے مگر عزت کے قابل اور بھی بہت سی چیزیں ہیں۔
کئی لوگ نجی محفلوں میں خلائی مخلوق کے لیے ایک ریاستی ادارے کا نام لے رہے ہیں۔ چودھری نثار نے یہ بات کی ہے کہ نواز شریف کو یہ جملہ نہیں کہنا چاہیے تھا۔ اداروں میں تصادم کی وجہ سے ہمیشہ نواز شریف کو نقصان اٹھانا پڑا۔ انہوں نے جے آئی ٹی میں پیش ہونے سے منع کیا تھا۔ نواز شریف چودھری نثار کی صلاحیتوں کوجانتے ہیں۔ وہ نواز شریف کے سیاست میں آنے سے قبل ہی ایک دوسرے کے ساتھ روابط رکھتے تھے۔ اب شہباز شریف کے دوست ہیں۔
شریف برادران اور عمران خان کے بعد کسی سیاستدان کا نام ہے تو چودھری نثار علی ہیں۔ سیاست میں بھی ایسے آدمی ہیں جو اپنے لیڈر کے ساتھ اختلاف کریں اور کھل کر کریں۔ پارٹیوں کے اندر حزب اختلاف زیادہ اہم ہے۔ مشاورت کے بعد فیصلے کرنا ایک اچھی روایت ہے مگر ہمارے ملک میں اچھی روایات کو فروغ دینا اور مل کر کام سرانجام دینا غیر ضروری سمجھا جاتا ہے۔
پارٹی کے اندر بلکہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں جو کچھ لیڈر کہہ دے وہی فائنل ہے۔ یہی جمہوریت ہے تو پھر آمریت کیا ہے۔ میں نے صورتحال کے لیے آمرانہ جموریت یا جمہوری آمریت کی اصطلاح استعمال کی تھی جس کے لیے بڑے بڑے سیاستدانوں نے اتفاق کیا تھا۔ یہاں تو کئی کئی مہینے باوجود کوشش کے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سے ملاقات نہیں ہوتی۔
٭٭٭٭٭٭٭
میں بڑے دنوں کے بعد نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے دفتر گیا۔ برادرم شاہد رشید نے بتایا کہ 28 مئی کو سمر سکول کا آغاز ہو رہا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ مجید نظامی نے کہا تھا کہ یہ نظریاتی سمر سکول ہے۔ محفل میں تمام لوگ حیران رہ گئے۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے دفاتر میں قائم کوئی سکول نظریاتی سمر سکول ہونا چاہیے۔ مجھے تین چار بار یہاں بچوں سے خطاب کرنے کا موقع ملا۔ میں نے بڑی تقاریب میں تقریریں کی ہیں مگر جو بے قراری اور سرشاری نظریاتی سمر سکول میں محسوس ہوئی۔ اس کا کوئی جواب نہیں۔ اس پر ایک پورا کالم لکھنے کا خیال ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024