عمران خان۔۔۔ ابتدائی 100 دنوں کا پلان
تحریکِ انصاف نے اقتدار میں آنے کے بعد ابتدائی سو دنوں کے لئے اپنی ترجیحات کا اعلان کیا ہے تو تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایک شور برپا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سید خورشید شاہ، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف نے فرمایا ہے کہ یہ پروگرام ”پری پول رگنگ“ ہے، مسلم لیگ ن نے بھی ہاہا کار مچا دی ہے۔ ان کے وزراءفرماتے ہیں کہ یہ ہمارے ویژن 2025 ءسے اخذ کردہ نکات ہیں لیکن نقل کے لئے عقل درکار ہوتی ہے اور تحریک انصاف نے بڑے بھونڈے انداز میں ہمارے پروگرام کے چربہ کو اپنی ترجیحات کا نام دیا ہے۔ اسی طرح دیگر جماعتیں بھی تحریک انصاف کے 100 دنوں کے پروگرام کو ہدف تنقید بنا رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت میدان میں اسی لئے اترتی ہے کہ وہ اقتدار میں آکر اپنے منشور کے مطابق ملک اور عوام کی خدمت کرے گی۔ چنانچہ بنیادی منشور پیش کرنے کے بعد یہ امید رکھنا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے کہ وہ اقتدار میں آئے گی۔ اور پھر اسی امکان کے پیش نظر ابتدائی سہ ماہی یا 100 دنوں کے لئے اپنی ترجیحات کا اعلان کرتی ہے۔ اس میں کوئی غیر جمہوری، غیر اخلاقی یا غیر قانونی بات نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن کی طرف سے چین بجبین ہونا سمجھ میں آتا ہے۔ تحریک انصاف سے اسے بہت سا سیاسی نقصان ہوا ہے۔ ایک طاقتور سیاسی حریف کی صورت میں تحریک انصاف پنجاب ہی نہیں پورے ملک میں اسے اپنے مدمقابل نظر آتی ہے۔ سیاسی پرندے ہیں کہ ہر طرف سے اڑتے ہوئے اس کی چھتری پہ پہنچ رہے ہیں۔ ان حالات میں اگر اس کا سیاسی حریف ایسی ترجیحات پیش کرے جو عوام کی دکھتی رگ ہیں تو اس کا مضطرب ہونا سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن ردعمل انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ یہ ہمارے ویژن 2025ءکا چربہ ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ویژن 2025 الہامی نکات نہیں جو آپ پر نازل ہوئے۔ بنیادی عوامی ضروریات تمام سیاسی جماعتوں کے علم میں ہیں۔ وہ ان کو پورا کرنے کے لئے ان کی ترجیحات کو ترتیب دیتی ہے اور پھر آپ نے تو اپنی ترجیحات 2025ءتک پوری کرنے کا وعدہ فردا پیش کر رکھا ہے۔ کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک۔ اس کے برعکس تحریک انصاف نے ان نکات کو اپنی ممکنہ حکومت کے ابتدائی 100 دنوں کی ترجیحات بنایا ہے تو عقل کا فقدان کس کے ہاں ہے۔ اس کا فیصلہ آپ خود کر لیں۔ مزید بات کرنے سے پہلے آئیے دیکھتے ہیں کہ تحریک انصاف نے جو ترجیحات پیش کی ہیں وہ کیا ہیں؟ اس کے چیدہ چیدہ نکات کیا ہیں۔ طرز حکومت میں تبدیلی، قومی سلامتی کی ضمانت، کشمیر کی آزادی کے لئے ٹھوس بنیادوں پر قومی اور بین الاقوامی تحریک چلانا، زرعی ایمرجنسی، معیشت کی بحالی، نیب کی خود مختاری اور جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانا، ظاہر ہے معروضی حالات میں یہ نکات اولین ترجیحات کے زمرے میں ہی آتے ہیں۔ تحریک انصاف نے اپنے 100 دنوں کے ترجیحاتی پلان میں مزید کہا ہے کہ بجلی کی ضروریات پوری کرنے پر توجہ دی جائے گی۔ ہم متعدد مقامات پر پانی سے بجلی بنا سکتے ہیں جو سستی رہتی ہے۔ فرنس آئیل سے مہنگی ترین بجلی بنتی ہے، عمران خان کا دعویٰ ہے کہ خیبر پختون خوا کی پولیس آج مثالی ہے وہ اقتدار میں آکر دوسرے صوبوں کی پولیس کو بھی سیاسی آلودگی سے پاک کریں گے۔ فاٹا کو خیبر پختون خوا میں ضم کریں گے۔ بلوچستان کو احساس محرومی سے نکال کر قومی دھارے میں لائیں گے۔ کراچی کے لئے پیکج دیا جائے گا۔ وہاں پبلک ٹرانسپورٹ لائیں گے۔ قبضہ مافیا کے خلاف کریک ڈاﺅن کریں گے۔ انرجی پالیسی پر کام کا آغاز کیا جائے گا۔ پاکستان سٹیل اور پی آئی اے کو ٹھیک کریں گے۔ قومی احتساب بیورو (نیب) کو مکمل خود مختاری دی جائے گی۔ چوری شدہ قومی دولت کی وطن واپسی کے لئے خصوصی ٹاسک فورس قائم کی جائے گی۔ یہ 100 دنوں کی ترجیحات ہیں۔ مخالف سیاسی جماعتوں کو ان پر تنقید کا جمہوری حق ہے البتہ دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ اعلان بھی دیگر سیاسی جماعتوں کے ماضی کے دعووں اور منشوروں کی طرح محض لفاظی اور سبز باغ ہے یا یہ نکات ممکن اور قابل عمل ہیں اور دعویٰ کرنے والی جماعت اور اس کی قیادت پر لوگوںکا اعتماد ہے بھی یا نہیں۔ اس سوال کا حتمی جواب تو آئندہ انتخابات کے نتائج ہی دیں گے۔ لیکن ماضی کو سامنے رکھ کر اگر مستقبل کے لئے وعدوں پر اعتبار کرنا ہے تو عمران خان کی ماضی کی کارکردگی کو دیکھنا ہوگا۔ جب عمران خان کہتے ہیں کہ ہم پاکستان کو فلاحی ریاست بنائیں گے۔ ہم اداروں میں میرٹ کا نظام لائیں گے تو بیشتر لوگ ان کی باتوں کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اب تک جتنے کام شروع کئے ان کے لئے ثابت قدم رہے اور مسلسل جدوجہد کے نتیجہ میں کامیاب رہے۔ ان کے بہی خواہوں کا کہنا ہے کہ انہیں سیاست میں اب 23 سال ہوچکے ہیں۔ انہوں نے بے شمارنشیب و فراز دیکھے ہیں وہ نہ تو کبھی مایوس ہوئے ہیں اور نہ دل برداشتہ ۔ وہ جس کام کو شروع کرتے ہیں اس کو پایہ¿ تکمیل تک پہنچا کر چھوڑتے ہیں۔ اس لئے ان ترجیحات پر بھی مکمل طور پر عمل درآمد ہوگا، ہمارے پیش نظر عمران خان کی تعریف و توصیف نہیں۔ ہم ایک غیر جانبدار پاکستانی شہری کی حیثیت سے ہر اس بات کو سراہیں گے جو ملک و قوم کے مفاد میں ہو چاہے وہ کوئی بھی کر رہا ہو اور ہر اس بات کو ہدف تنقید بنائیں گے جو عوام اور ملک کے لئے نقصان د ہ ہو۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ترجیحات انتہائی مناسب و موزوں ہیں اور اگر تحریک انصاف اقتدار میں آتی ہے تو اسے ان ترجیحات پر خلوص نیت کے ساتھ عمل کرنا چاہیے۔ اگر وہ ان ترجیحات کو مکمل طور پر عملی جامہ نہ بھی پہنا سکے تو ایک ایسی بنیاد استوار ہوسکے گی جس میں اقتدار کے بقیہ دنوں میں اپنے وعدوں کے مطابق پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانے کے ٹھوس امکانات کی عمارت کھڑی ہو جائے۔