کالاباغ ڈیم اور مجید نظامی
1991ءمیں میاں محمد نوازشریف حکومت میں چاروں صوبوں کے وزائے اعلیٰ نے پانی کی تقسیم کے معاہدے پر 16 مارچ 1991ءکو مشترکہ مفادات کونسل میں فارمولے پر متفق ہوئے۔ اور باقاعدہ منظور کیا گیا۔ چاروں صوبوں کے درمیان اعتماد کی بہترین فضا قائم ہوئی‘ طے پایا گیا کہ دریائے سندھ اور دیگر دریاﺅں پر کالا باغ ڈیم سمیت چھوٹے بڑے ڈیم بنائے جائینگے۔ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کے بعد صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ میر افضل خان نے کہا کہ ہم مطمئن ہیں۔ پہلے ہماری 18لاکھ ایکڑ اراضی آبپاشی سے کاشت ہوتی تھی اب 9 لاکھ ایکڑ اراضی مزید سیراب ہو گی۔ یہ خوشی کی بات ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما ولی خان نے کہا کہ میں پانی کے معاہدے سے مطمئن ہوں۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ جام صادق نے کہا کہ معاہدے کی بدولت 4.5 بلین ایکڑ پانی مزید ملے گا۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ہم بہت خوش ہیں ۔ تربیلا اور منگلا کی وجہ سے چھ لاکھ ایکڑ اراضی سیراب کر رہے تھے۔ اس معاہدے کی بدولت مزید 10 لاکھ ایکڑ اراضی سیراب ہو گی۔ بعد ازاں سیاسی مخالفت اور بیرونی دباﺅ اور لالچ پر کالا باغ ڈیم کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے۔ یہ منصوبہ سب سے سستا اور قدرتی ڈیم ہے۔ ارد گرد پہاڑ ہیں۔ معمولی تعمیر کے بعد یہ ڈیم بن جائیگا۔ اس سے 3600 میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی‘ بعد ازاں 4500 تک بڑھائی جا سکتی ہے‘ بجلی سستی ہو گی ‘ قریباً 2 روپے یونٹ پڑے گی۔ سب سے زیادہ فائدہ سندھ کو ہو گا۔
اسی طرح صوبہ پنجاب اور سرحد بھی استفادہ حاصل کر سکیں گے۔ بلوچستان میں بھی تعمیر و ترقی کی لہر آئےگی۔ اس ڈیم کے حامیوں میں قائد اعظم محمد علی جناح، ذوالفقار علی بھٹو ، محمد خان جونیجو، بینظیر بھٹو، میاں محمد نوازشریف، جام صادق ، سید مظفر شاہ ، میر افضل خان، محسن علی خان ، میر تاج محمد جمالی، ذوالفقار مگسی سمیت بیشمار شخصیات تھیں۔ کیا یہ لوگ پاکستان کے دشمن تھے‘ اسکے برعکس بھارت 4000 ڈیم تعمیر کر چکا ہے ۔ حکومت نے نہ کسی سے پوچھا نہ کسی نے مخالفت کی۔ انکے رہنماﺅں اور سیاسی پارٹیوں نے ملکی اور عوامی مفاد کے منصوبوں پر سیاسی دکانداری نہیں چمکائی۔ نہ مصلحتوں کا شکار ہوئے۔ قربانیوں کی بات کی جائے تو کشمیری عوام مبارک باد کے مستحق ہیں۔ جنہوں نے پاکستان کی محبت میں عوامی مفاد کا منصوبہ منگلا ڈیم تعمیر کروایا اور پھر ایک بار توسیع کی گئی اور اپنے پیاروں کی قبروں کو اپنے سامنے پانی میں ڈبو دیا۔ ہر سال جب ڈیم میں پانی کم ہو جاتا ہے تو کشمیری اندرون ملک اور بیرون ملک سے آ کر منگلا کے مقام پر اپنے پیاروں کی ڈوبی ہوئی قبروں کا نظارہ کرتے ہیں اور آنسو بہاتے ہیں۔ مجال ہے وہ پاکستان یا عوام کےخلاف کوئی جذباتی بات کرتے ہوں۔ ہمارے فوجی اور سیاسی حکمرانوں نے اپنی حکومتوں کو دوام بخشنے کیلئے اپنی مرضی کے اور جبراً بہت فیصلے کرائے‘ کاش کالا باغ ڈیم بھی تعمیر کر لیا ہوتا۔ آبروئے صحافت مجید نظامی مرحوم نے ہمیشہ اپنی آواز اور قلم سے ملکی مفاد کے اس منصوبے کی اہمیت پر زور دیا۔ اور حکمرانوں کو جھنجھوڑتے رہے۔ لیکن عمل نہ ہو سکا۔ کئی بار سیاستدانوں اور حکمرانوں نے جمہوریت کے مفاد میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کیے۔ کاش ساری پارٹیاں اس پر بھی ایک ساتھ کھڑی ہوتیں‘ اپنے منشور اور انتخابی نعروں میں کالاباغ ڈیم کی تعمیر شامل کرتیں۔ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے ایک زمانے میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے سلسلے میں عوامی رابطہ مہم شروع کی تھی اس کو پنجاب اور سرحد میں بڑی پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر پنجاب کے وزیرا علیٰ میاں شہبازشریف نے صوبہ سندھ میں سندھڑی کے مقام پر بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پنجاب کی طرح سندھ کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے پیغام دیئے۔ ساتھ یہ بھی کہا کہ سندھی نہیں چاہتے تو کالا باغ ڈیم تعمیر نہیں کیا جائیگا اور سندھ کی محبت میں 100ڈیم قربان کرنے کا عندیہ بھی دیا۔ میاں شہبازشریف محنتی اور کام کرنے کےلئے مشہور ہیں۔ انکے 10 سالہ دور اقتدار میںبالخصوص پنجاب میں میٹرو بس ، گرین ٹرین تعمیر و ترقی انٹرچینج ، صحت و تعلیم غرض ہر شعبہ زندگی میں شاندار تعمیر و ترقی ہوئی‘ عوام اس سے بھر پور استفادہ حاصل کر رہے ہیں۔ یہ تعمیراتی منصوبے صوبوں کیلئے بھی مثال ہیں۔ لیکن افسوس کہ بڑی پارٹی کے رہنما اور مسلم لیگ کے صدر مستقبل کے متوقع وزیر اعظم سے ایسی توقع نہ تھی کہ وہ محض ووٹروں کو خوش کرنے کی خاطر اپنے مﺅقف سے پیچھے ہٹ جائیں گے‘ حالانکہ پنجاب میں مسلم لیگ کی شاندار کامیابیوں میں بنیادی نقطہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر ہے‘ مسلم لیگ ہمیشہ اس کی حمایتی رہی ہے‘ مسلم لیگ اور اسکے قائدین سے لوگ ایسی توقع نہیں کرتے ‘وہ محض عارضی فائدہ کےلئے قومی اور عوامی مفاد کے منصوبے کو قربان کردینگے۔ملک و قوم اور خود مسلم لیگ (ن) کے قائدین کے بہترین مفاد میں ہے کہ وہ اپنے بنیادی مو¿قف کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی حمایت سے پیچھے نہ ہٹیں۔