عمران خان کو ”ٹیم “کا اعلان کر دینا چاہیے!
پاکستان تحریک انصاف نے عام انتخابات 2018ءکے بعد حکومت کے قیام کی صورت میں پہلے 100 روز کے لیے متعدد کلیدی نکات پر مشتمل اپنے لائحہ عمل کا اعلان کردیا ہے ۔تحریک انصاف کے مخالفین اس پر کڑی تنقید کر رہے ہیں، کہہ رہے ہیں کہ عمران خان نے بغیر سوچے سمجھے ان نکات کو عوام کے سامنے رکھ دیاہے۔ لیکن اس کے برعکس میرے نزدیک یہ بحث قطعی غیر ضروری ہے کہ عمران خان نے اپنا 100روزہ پلان جاری کیا ہے۔ الیکشن سے پہلے یہ ہر سیاسی جماعت کو حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے منشور ، اپنے منصوبوں کا اعلان کرے اور اپنے ووٹرز کی توجہ حاصل کرنے کا باعث بنے۔
میرے نزدیک وژن کے حساب سے تو یہ اعلان بہت اچھا ہے مگر اس پر عمل کرنے کرنے کے لیے عمران خان نے اپنی ٹیم کا اعلان نہیں کیا۔ جس پر قوم اعتماد کر سکے۔ یہ بات مجھ سمیت سب مانتے ہیں کہ قوم عمران خان کا ماضی دیکھتے ہوئے اُن پر اعتماد کرنے کے لیے تیار ہے کہ وہ ہمیشہ ڈلیور کرنے والا رہنما ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ جو تحریک انصاف میں جمع ہو چکی ہیں کیا اُن کی ماضی میں یہ اہلیت رہی ہے کہ وہ چیزیں ڈلیور کر سکیں ؟ عوام اُن پر اعتماد کر سکیں، قوم کو خدشہ ہے کہ اگر عمران خان 100کے بجائے 500دن میں بھی ان باتوں پر عمل درآمد نہ کر سکا تو کہیں مخالفین کی باتیں سچ ثابت نہ ہو جائیں اس لیے مناسب ہے کہ عمران خان کے 100دن کے پلان کے لیے اپنی ٹیم کا بھی اعلان کرے کہ اُس کی وزارت خارجہ کو کون چلائے گا، اُسے اعلان کرنا چاہیے وزارت داخلہ کو کون چلائے، اُسے اعلان کرنا چاہیے کہ اُنہوں نے سیاحت پر زور دیا ہے تو سیاحت کی وزارت کس کے سپرد کی جائے گی، اُسے شعبہ زراعت کے لیے اپنی ٹیم کا اعلان کرنا ہوگا۔ اُسے تعلیم و صحت کے وژن کے حوالے سے بتانا پڑے گا کہ اسے کون آگے لے کر چلے گا۔
اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وزارت اطلاعات کس کے پاس ہوگی، جو دلائل سے ان تمام باتوں کا جواب دے سکے جو مستقبل میں سامنے آسکتی ہیںاور رہی بات موجودہ حالات میں عمران خان کے 100روزہ پلان کی تو میں بس یہی کہوں گا کہ اگر جذبہ سچا ہے، اور واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں تو دنیا میںکیا نہیں ہوسکتا۔ ملائشیا جب مہاتیر محمد کو ملا تو کیا تھا؟کرپٹ ترین ملک تھا، مہاتیر نے اسے ایشیائی ٹائیگر بنا دیا۔ ترکی جب اردوان کو ملا تو کیا تھا؟شورش زدہ ملک تھا جہاں خانہ جنگی کا ہر وقت کھٹکا لگارہتا تھا، اردوان نے اسے یورپ کے سامنے مضبوط معیشت بنا کر کھڑا کر دیا، چین کیا تھا؟ سری لنکا کیا تھا؟ جنوبی افریقہ کیا تھا؟ ان سب ملکوں کو شفاف قیادت نے ترقی کے زینوں تک پہنچایا ہے۔ لیکن اس کے برعکس ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمیں ہمیشہ جھوٹے سیاستدان ملتے ہیں ، ایسے سیاستدان جو جھوٹے وعدے کرتے ہیں۔
ن لیگ نے جو وژن2025کا جو اعلان کیا ہے اس کے لیے تو انہوں نے ملک کو قرضوں میں ڈبو دیا ہے، ملک اس وقت اندرونی اور بیرونی 190ارب ڈالر کا مقروض ہو چکا ہے۔چین 100ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے، کیا مسلم لیگ ن یہ بتا سکتی ہے کہ یہ 100ارب ڈالر کہاں سے ادا کیا جائے گا۔ لیگ کے منشور 2013ءکی ہی سن لیں ن لیگ نے اعلان کیا تھا کہ بجلی کی ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن لاسز کو دس فیصد تک لائیں گے....جبکہ ایم ڈی پیپکو کے مطابق سکھر الیکٹرک سپلائی کمپنی 38فیصد لائن لاسز، پشاور الیکٹرک سپلائی 33فیصد، حیدر آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی 31فیصد لائن لاسز جبکہ پاور سیکٹر کا سالانہ نقصان 360ارب روپے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ کہا گیا تھا کہ گردشی قرضوں کو ختم کردیں گے ....جبکہ فیڈرل سیکرٹری واٹراینڈ پاور نسیم کھوکھر کے مطابق ”سرکلر ڈیٹ ایک ٹریلن روپے یعنی ایک کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے“ ۔ کہا گیا تھا کہ ریاستی ملکیتی اداروں میں آزاد اور پروفیشنل چیف ایگزیکٹو لائے کیے جائیں گے....جبکہ رپورٹ کے مطابق پانچ سال پہلے پی آئی اے کا سالانہ نقصان 192ار ب روپے تھا، جبکہ آج 350ارب روپے سے زائد نقصان میں ہے اور ”آزاد“ چیف ایگزیکٹوز نے پی آئی اے کو پانچ سال میں 3700ارب روپے کا چونا لگایا۔ کہا گیا تھا کہ محکمہ پولیس کو غیر سیاسی بنایا جائے گا....آج بھی رشوت کے بغیر ایف آئی آر درج نہیں ہوتی، آج بھی پہلے سے زیادہ رشوت وصول کی جاتی ہے۔پھر ن لیگ نے منشور میں کہا تھا کہ تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی جائے گی.... ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ شرح خواندگی مزید 5فیصد کم ہوگئی ۔ کہا گیا تھا کہ فوری انصاف فراہم کرنے کے لیے ججز کی تعداد کو بڑھایا جائے گا ....ججز پہلے سے کم ہوگئے جبکہ زیر سماعت مقدمات کی تعداد 18لاکھ سے زیادہ ہوگئی۔کہا گیا کہ عدالتوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائز کیا جائے گا....ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ ہر ریکارڈ کو آگ لگا دی گئی ہے۔ پھر کہا گیا کہ تمام حکومتی پراجیکٹس میں خود احتسابی کا نظام لائیں گے....جبکہ حکومت 5سال تک خود احتسابی کے نظام کے قریب سے بھی نہیں گزری جس کی وجہ سے آخری 6ماہ میں حکومت کے کرنے کے کام نیب اور سپریم کورٹ کو کرنا پڑ رہے ہیں۔
جبکہ پیپلز پارٹی کا دور اس سے بھی براد ور تھا۔
حقیقت میں پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں جو سیاسی جماعتیں برسراقتدار رہی ہیں، انھوں نے بھی ایسے ہی سنہرے خواب عوام کو دکھائے تھے لیکن برسراقتدار آنے کے بعد داخلی اور خارجی سطح پر مسائل اور چیلنجز اپنی سنگینی کے ساتھ سامنے آئے تو ان پر اصل حقیقت کھلی کہ دعوے کرنا تو آسان کام لیکن مسائل حل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔یہی وجہ ہے کہ عوام کے آج تک بنیادی مسائل ہی حل نہیں ہو پائے۔ پینے کے صاف پانی‘ سیوریج کے بہتر نظام‘ صفائی‘ صحت‘ تعلیم اور روز گار سمیت ہزاروں مسائل اپنی سنگینی کے ساتھ جوں کے توں موجود ہیں، اب جبکہ عمران خان سے اگر کے پی کے میں کچھ کوتاہیاں ہوئی ہیں تو اُس کا اصل سبب یہی تھا کہ عمران خان اپنی صحیح ٹیم کو صحیح طرح پروموٹ نہیں کر سکے، تو میرا یہ خیال ہے کہ عمران کے پاس ابھی 60دن باقی ہیں اور ان 60دنوں میں الیکشن مہم سر پر ہو تو یقینا عمران خان کی توجہ الیکشن پر ہوگی ناکہ ٹیم پرلہٰذااس 100روزہ شاندار پلان کے لیے فوری طور پر اپنی ٹیم کا اعلان کرنا چاہیے۔ اور میرا خیال ہے کہ کم سے کم وہ شعبے جن کا اُس نے اعلان کیاہے اُس کے لیے ٹیم کا اعلان کر دینا چاہیے ۔ اور بتانا چاہیے کہ وہ میری پالیسیوں کو آگے لے کر چلیں گے، یہ اُن کا تجربہ ہے، یہ اُن کی قابلیت ہے اور میں نے انہیں اس لیے یہاں لگایا ہے۔ اگر ایسا ہوگا تو میرے خیال میں قوم کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی کہ انہوں نے عمران خان کو ووٹ کیوں دینا ہے....ایسا میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ سیاست ٹیم ورک کا نام ہے، اگر ٹیم ورک میں سپرٹ نظر نہ آئے تو منصوبے مکمل نہیں ہوا کرتے ، جبکہ پاکستان کی بیوروکریسی، پاکستان کے ادارے، پاکستان کے مالی حالات اس وقت انتہائی ناگفتہ بہ ہیں۔ عمران خان کا خواب ضرور اچھا ہے لیکن اُس کی تعبیر کے لیے جس چیز کی ضرورت ہے اُس کی تلاش کا کام مکمل ہوجانا چاہیے تھا، لیکن لگتا ہے کہ یہ کام ابھی شروع بھی نہیں ہوالہٰذا عمران خان اس قوم کی خاطر اہم ترین ایجنڈوں پر کام کر کے گومگو کی کیفیت کو ختم کریں!