نواز شریف کس کی تباہی کے درپے ہیں ؟
امریکہ نے 2003 میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر عراق پر حملہ کیا تھا ، الزام یہ تھا کہ عراق کے صدر صدام حسین وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار بنا رہے ہیں ، جس سے عالمی امن کو سنگین خطرہ ہے ، امریکہ کے ساتھ برطانیہ اس حملے میں شریک سب سے اہم اتحادی تھا ، بلکہ امریکی صدر بش اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر اس حملے کے منصوبہ ساز تھے ، جنہوں نے من گھڑت رپورٹوں کو بنیاد بنا کر یہ جنگ شروع کی گئی تھی ، عراق سے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تو نہ ملے ، مگر دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی اور2.5 ٹریلین ڈالر کی لاگت سے لڑی جانیوالی اس جنگ نے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر دیا ، عراق میں صرف 179 برطانوی فوجی مارے گئے ، جب ان فوجیوں کے تابوت برطانیہ کی سرزمین پر پہنچنے شروع ہوئے تو ایک کہرام مچ گیا ، پوری قوم یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھی کہ انکے فوجی ایک اجنبی زمین پر یوں مارے جائینگے ، فوجیوں کے ان تابوتوں نے لیبر پارٹی کی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا جس کے نتیجے میں ٹونی بلیئر کو رخصت ہونا پڑا۔
دنیا کے بہترین فوجی سٹلائیٹ ، جدید ترین ڈرون ٹیکنالوجی اور مہنگے ترین آلات استعمال ہونیوالے ان فوجیوں کا مورال افسوسناک حد تک پست تھا ، اسی طرح کی ایک جنگ دہشتگردی کے خاتمے کے نام پر انہی کرداروں نے افغانستان میں شروع کی جو بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ پاکستان کی سرزمین تک پھیلا دی گئی ، کچھ غیروں کی سازشوں اور کچھ اپنوں کی نادانیوں کی وجہ سے دہشت گردی کی جنگ نے پورے ملک کو لپیٹ میں لے لیا ، مگر ستر ہزار شہریوں اور فوجی جوانوں کی قربانی کے بعد بھی ہمارے فوجیوں اور انکے اہل خانہ کے حوصلے بلند ہیں ، کہتے ہیں دنیا میں سب سے بھاری بوجھ باپ کے کندھے پر بیٹے کے جنازے کا ہوتا ہے ، مگر اس بوجھ کے باوجود ہر شہید کے والد سے یہی الفاظ سننے کو ملتے ہیں کہ اس کو اپنے شہید بیٹے پر فخر ہے اور وہ باقی بیٹے بھی وطن پر قربان کرنے کو تیار ہے ، یہ وہ جذبہ ہے جس کی وجہ سے کراچی سے فاٹا تک دہشت گردی کا خاتمہ ہوا ہے اور قوم نے سکھ کا سانس لیا ہے ، یہ حوصلہ 2.5 ٹریلین ڈالر خرچ کرنے کے باوجود امریکی اور برطانوی فوج میں پیدا نہ ہو سکا۔ جنگ لڑنے کیلئے جس ولولے کی ضرورت ہوتی ہے اسکی کوئی قیمت نہیں ہوتی، میدان جنگ میں اتری ہوئی فوج کے حوصلے بلند رکھنے پڑتے ہیں۔
مگر افسوس سیاست کے میدان کے شہسوارمیاں نواز شریف اپنی ہی فوج کو کبھی خلائی مخلوق اور کبھی ممبئی حملوں کے نام پرنشانہ بنائے ہوئے ہیں ، اس خطرناک جنگ میں قوم نے ایک بار بھی سابق وزیراعظم کو کسی جنگی محاذ پر فوجیوں کے ساتھ نہیں دیکھا مگر کبھی ڈان لیکس تو کبھی مجھے کیوں نکالا کی بازگشت میں بھارتی موقف کی تائید ہی کرتے دکھائی دیئے ، ان کا بیانیہ ملکی سلامتی کی پرواہ کئے بغیر جس خطرناک ڈگر پر چل نکلا ہے ، اس نے انکی پارٹی کو بھی ایک دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے ، وزیراعظم ان کا نامزد کردہ حکومت انکی اپنی جماعت کی ، سگے بھائی پارٹی قائد اور ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ اسکے باوجود وہ مظلوم بننے اور اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، جس پاناما کیس میں انہیں نکالے جانے کا گلا ہے وہ خود اسے سپریم کورٹ لے کر گئے ، سپریم کورٹ کی جے آئی ٹی کو بھی انہوں نے مٹھائی بانٹ کر بڑی خوشی سے قبول کیا ، یہ بات خود انکے انتہائی قریبی مگر ناراض رفیق چوہدری نثار بھی چند روز قبل انہیں یاد دلا چکے ہیں ، جس چیف جسٹس کو وہ آج للکار رہے ہیں انہی کے قریبی ساتھی صدیق الفاروق طعنے کے انداز میں تسلیم کر چکے ہیں کہ چیف جسٹس ثاقب نثار کو میاں نواز شریف نے ہی پہلے سیکرٹری قانون اور پھر ہائیکورٹ کا جج تعینات کیا ، نواز شریف جس خلائی مخلوق کے مدمقابل ہونے کا دعوی کر رہے ہیں اسکے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ بھی ان کا اپنا انتخاب ہیں اور انکی تعیناتی کے بعد مریم نواز جس خوشی کے عالم میں ٹوئٹ کے ذریعے عمران خان اور پیپلز پارٹی کو یہ باور کرا رہی تھیں کہ اب سارے طوفان ٹل گئے اور کوئی خطرہ باقی نہیں رہا ،وہ بھی قوم کو یاد ہے ، جس چیئرمین نیب کے استعفیٰ کا مطالبہ اب میاں نواز شریف کر رہے ہیں وہ انکے اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مشاورت ، اورانتہائی محتاط انتخاب کے بعد عہدے پر رکھے گئے ، تو پھر گلہ میاں نواز شریف کو اپنے فہم و فراست پرکرنا چاہیئے ، پھر ماتم تو اپنی سیاسی دانش اور 35 سالہ تجربے پر کیا جانا چاہیئے کہ وہ ایک انتخاب بھی ڈھنگ کا نہ کر سکے ، جس طرح اب پیپلز پارٹی کے زوال پر کہا جاتا ہے کہ جنرل ضیاالحق پیپلز پارٹی کو جو نقصان نہ پہنچا سکے وہ اسکے اپنے قائد آصف علی زرداری نے پہنچایا ہے۔
بالکل اسی طرح میاں نواز شریف نے بھی اپنے ہی نشیمن پر بجلی گرائی ہے انکے بیانیے سے ن لیگ کو جو نقصان ہوا ہے جنرل پرویزمشرف تواس کا عشرعشیر بھی نہ کر سکے ، نوازشریف جس راہ پر چلنے کا فیصلہ کر چکے ہیں ، اس راہ پر خود انکی جماعت قدم رکھنے کو تیار نہیں، پارٹی کے اندر اختلافات کی خبریں اب زبان زد عام ہیں، انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہونیوالاہے الیکشن ہر سیاسی جماعت کیلئے زندگی موت کا معاملہ ہوتے ہیں ،مگر میاں نواز شریف کا لہجہ بتا رہا ہے کہ انتخابات سے پہلے ہی وہ شکست تسلیم کر چکے ہیں ، انہیں اب الیکشن کی کوئی پروا نہیں ہے ، انکی اس مایوسی سے ن لیگ کی صفوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے ، جس سے اپوزیشن کے حوصلے انتہائی بلند ہو چکے ہیں ، عمران خان تو وزیراعظم بن کر پہلے سو دن کا پروگرام بھی قوم کے سامنے پیش کر چکے ہیں ، مگر مسلم لیگ ن الیکشن میں قوم کو اپنا پروگرام دینے کے بجائے اپنے تاحیات قائد کے بیانیے سے پھیلی تباہی کے ملبے تلے دبی ہوئی ہے۔