جمعرات ‘ 8 رمضان المبارک ‘ 1439 ھ ‘ 24 مئی 2018ء
ٹی وی پروگرام میں تلخ کلامی نعیم الحق نے دانیال عزیز کو تھپڑ مار دیا
سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے ایام میں گاڑیوں پر لاٹھیاں برساتے ہوئے ایک شخص گلو بٹ کا چرچا ہوا۔ پھر یہ نام ایسا مشہور ہوا کہ انگریزی لغت میں بھی اسے شامل کیا گیا۔ اُردو لغت میں بھی گلو ازم نہ سہی گلو بٹ بذات خود ایک محاورہ یا مثال بن چکا ہے۔ مگر اس عمل کو بھی مقبولیت حاصل ہوئی وہ بھی ایسی کہ ....ع
”بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا“
پہلے سیاسی کارکن کبھی کبھی آپس میں گتھم گتھا ہوتے تھے۔ مگر اب تو بات یہاں تک آن پہنچی ہے کہ سیاستدانوں میں بھی ہتھ چُھٹ لوگ جگہ بنانے لگے ہیں۔ کبھی یہ دلیری پیپلز پارٹی والوں کے ساتھ منسوب تھی کہ اس کے جیالے بہت ہتھ چُھٹ ہیں۔ پھر وقت بدلا تو مسلم لیگ میں ہتھ چُھٹ تو نہیں البتہ منہ پھٹ شیخ رشید کا دور دورہ رہا۔ اب پھر وقت بدلا ہے۔ پیپلز پارٹی کے اکثر ہتھ چُھٹ اور مسلم لیگ کے منہ پھٹ رہنما تحریک انصاف میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ سو ان میں بھی گلو بٹ والا جذبہ بیدار ہوتا رہتا ہے۔ خیبر پی کے سے منتخب ایم این اے مراد سعیدمیں بھی گلو ازم کوٹ کوٹ کر بھرا ہے وہ گلو بٹ کی طرح ہتھ چُھٹ بھی ہیں اور شیخ رشید کی طرح منہ پھٹ بھی۔ مگر تحریک انصاف کے رہنما نعیم الحق نے جس طرح اشتعال میں آ کر وفاقی وزیر دانیال کو تھپڑ دے مارا اسے کیا کہیں گے۔ کیا یہ گلوازم نہیں۔ اگر یہ سلسلہ روکا نہیں گیا تو پھر ہر جماعت کو اُمیدواروں اور عہدیداروں کے چناﺅ کے وقت گلو بٹ والی صفات کے حامل افراد کو ترجیح دینا پڑے گی۔ جو بوقت ضرورت مخالف اُمیدوار کی لاتوں اور گھونسوں کا جواب بھی اسی انداز میں دے سکے۔
٭........٭........٭
پنجاب پھر سے ٹاپ پر۔ نیازی رحم کرو اپنے آپ پر۔ دنیا میں پنجاب کا نام ہوا۔ زرداری ناکام ہوا۔ شہباز شریف
وزیر اعلیٰ پنجاب کی گرم گفتاری کا ایک زمانہ دیوانہ ہے۔ جذبات میں آ کر کبھی وہ ڈائس کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں کبھی سارے مائیک گرا دیتے ہیں۔ جالب کی شاعری بھی انہیں ازبر ہے۔ وہ گاہے بگاہے جالب کے رزمیہ اشعار سنا کر سامعین جلسہ کا لہو بھی گرما دیتے ہیں۔ یہ صفات اپنی جگہ مگر اب یہ جو طبع زاد نیا شاعری کا جو جوش ان میں عود کر آیا ہے۔ اگر اس میں آمد کی یہی رفتار رہی تو الیکشن تک وہ صاحب دیوان بھی بن سکتے ہیں۔ گزشتہ روز شدید گرم موسم میں جب چیل بھی انڈے چھوڑ دیتی ہے چنیوٹ اور اوکاڑہ کے طوفانی دوروں میں انہوں نے عوام کو اپنی شاعری سنائی تو پورا مجمع جھوم ہی نہیں اٹھا بلکہ تالیوں سے آسمان سر پر اُٹھا لیا۔ لوگ کافی دیر تک اور مسلم لیگ (ن) کے کارکن غالباً ابھی تک سر دھن رہے ہوں گے۔ ان کا یہ فی البدیہ کلام کافی پر تاثیر ہے۔ ز ور کلام سے اندازہ ہوتا ہے کہ معمولی مشق کے بعد میاں شہباز شریف اچھی خاصی رزمیہ شاعری میں نام پیدا کر سکتے ہیں۔ انہیں معقول تعداد میں شعرا اور ادبا کی معاونت بھی حاصل ہے تو پھر دیر کیسی انہیں فوری طور پر مشق سخن شروع کر دینی چاہئے۔ ابھی آمد کی کیفیت سے آہستہ آہستہ آورد میں بھی کمال حاصل ہو جائے گا....
٭........٭........٭
نواز شریف نے احتساب عدالت میں 4 گھنٹے کھڑے ہو کر سوالوں کے جواب دئیے
چچا غالب نے تو برسوں پہلے یہ کہہ کہ اپنے حساب کتاب اور پکڑ دھکڑ کا الزام فرشتوں پر دھر دیا تھا ....
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دم تحریر نہ تھا
مگر ہمارے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی تو انسانوں کے لکھے لکھائے پر گرفت ہو رہی ہے۔ وہ تو فرشتوں کا بھی شکوہ نہیں کر سکتے۔ زمانہ بڑا اُستاد ہے اور وقت سب سے بڑا پہلوان۔ یہ انسان کو ایسے ایسے سبق سکھاتاہے کہ اگر انسان سنبھل جائے تو کامیاب ترین انسان بن سکتا ہے۔ مگر شاید ”غم نہ کر زندگی بڑی ہے ابھی“ کے قاعدے کے مطابق انسان ہلکی پھلکی گرفت سے سبق نہیں سیکھتا اور بڑی گرفت میں آ جاتاہے۔
میاں نواز شریف کو تین مرتبہ وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل ہے مگر اس وقت وہ جس طرح قانون کی گرفت میں ہیں یا لائے گئے ہیں اس کا اندازہ سب کو ہے۔کہاں ایوان سلطنت یا جاتی امرا کے ٹھنڈے ٹھار محلات اور کہاں احتساب عدالت کا کمرہ جہاں ذرا بجلی غائب ہوئی دم گھٹنے لگتا ہے ۔ وہاں مسلسل چار گھنٹے کھڑے ہو کر سوالات کے جواب دینا میاں جی کا ہی حوصلہ ہے ورنہ بیورو کریٹ تو ایک آدھ گھنٹے میں ہی چند سوالات کے سامنے ہمت ہار دیتے ہیں۔ اوپر سے بجلی کی وقت بے وقت غائب ہونے کی عادت سے جو کوفت ہوتی ہے وہ الگ۔ جب احتساب عدالت میں بھی بجلی گئی توجج صاحب نے میاں صاب کو باہر ہوا میں بیٹھنے کو کہا مگر وہاں بھی عجب رنگ تھا۔ بنچ دھوپ میں ہونے کی وجہ سے وہاں بیٹھ کر میاں صاحب اور انکے ہمرائیوں کا تو بالٹیوں کے حساب سے پسینہ بہہ گیا ۔ معلوم نہیں یہ رعایت تھی یا سزا۔
٭........٭........٭
آرچ بشپ دہلی نے مودی حکومت کے مظالم کیخلاف احتجاجی عبادات کی کال دے دی
بھارت میں مودی حکومت کے ہاتھوں ستائی عیسائی اقلیت نے بھی مجبور ہو کر بالآخر آواز بلند کر لی ہے۔ برصغیر میں مسیحی برادری کو نرم خود اور برداشت کرنے والی برادری سمجھا جاتا ہے۔ مگر بھارت میں حکومت کی شہہ پر انتہا پسند ہندوغنڈوں نے جو اودھم مچایا ہے اس سے کوئی بھی اقلیتی گروہ محفوظ نہیں ہے۔ آچ بشپ دہلی آنیل کوٹونے اپنے پیغام میں بھارت میں بسنے والی تمام مسیحی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ ہندو غنڈوں کے ہاتھوں، اقلیتی برادریوں پر مظالم کے خلاف گرجا گھروں میں احتجاجی عبادات کا اہتمام کریں تاکہ انہیں اس خوف و ہراس سے نجات ملے۔ سچ کہیںتو اس خوف سے نجات کا وقت قریب ہے۔ اگر عبادات کے ساتھ تمام اقلیتی برادریاں بشمول مسلمان، سکھ، دلت اور عیسائی مل کرالیکشن میں اپنی زندگی اجیرن کرنے والی مودی حکومت کیخلاف ایکا کر لیں ۔ اس کے امیدواروں کو ووٹ نہ دیں تو عبادت اور ووٹ کا یہ خوبصورت اتحاد بہت جلد اس ظالم حکومت سے انہیں نجات دلا سکتا ہے۔اس سے بھی بڑھ کر اگر یہ ساری اقلیتیں اپنا اتحاد بنا لیں تو بھارت میں الیکشن لڑنے والی سیاسی جماعتیں ان کے پاﺅں پکڑنے پر مجبورہو جائیں گی۔ اس اتحاد کی برکت سے پھر بی جے پی ہو یا کانگرس کسی میں اتنی جرا¿ت نہیں ہو گی کہ وہ کسی مسجد گرجے یا گوردوارے کو آگ لگائے یا اس پر قبضہ کرے۔ انگلیاںتنہا کچھ نہیں مگر جب یہ مکے کی شکل اختیار کر لیں تو کسی کا بھی منہ توڑ سکتی ہیں۔
٭........٭........٭