ایک دوسرے کو قبول نہ کرنے کا کلچر ہی غیرجمہوری قوتوں کیلئے راستہ ہموار کرتا ہے
حکومت اور اپوزیشن کی نگران وزیراعظم کیلئے کسی ایک نام پر عدم اتفاقی اور جمہوریت کی عملداری کے تقاضے
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کی ملاقات میں نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق رائے نہ ہوسکا جس کے باعث اپوزیشن لیڈر کی وزیراعظم سے پانچویں ملاقات بھی بے نتیجہ رہی چنانچہ معاملہ پارلیمنٹ کے ہاتھ سے نکل کر الیکشن کمیشن کے پاس جانے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔ گزشتہ روز وزیراعظم آفس میں وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی ملاقات 35 منٹ جاری رہی جس میں نگران وزیراعظم کے ناموں پر غور کیا گیا تاہم ڈیڈلاک برقرار رہا۔ ملاقات کے بعد اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ نگران وزیراعظم کے انتخاب کیلئے وزیراعظم سے انکی دوبارہ ملاقات ہوگی اور امید ہے کہ اس ملاقات میں نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق رائے ہو جائیگا۔ انکے بقول سابق وزیراعظم نوازشریف کہہ چکے ہیں کہ نگران وزیراعظم کیلئے اپوزیشن لیڈر کے پیش کردہ نام پر ہی اتفاق کرلیا جائیگا مگر اب وزیراعظم نے اپنی جانب سے بھی نام دے دیئے ہیں۔ انہوں نے اسی لئے وزیراعظم سے وقت لیا ہے کہ جو بات پہلے کی گئی‘ اب اسی پر عمل ہونا چاہیے۔ گیم اب حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ موجودہ حکومت اور اسمبلیوں کی آئینی میعاد اسی ماہ 31 مئی کو مکمل ہورہی ہے جس کے بعد نگران حکومت آئندہ انتخابات تک اپنی ذمہ داریاں سنبھالے گی۔ اگر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے مابین نگران وزیراعظم کیلئے اتفاق نہ ہو سکا تو حکومت اور اپوزیشن کے چار چار ارکان پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی بنے گی جو تین دن کے اندر کثرت رائے سے فیصلہ کریگی تاہم اختلاف برقرار رہا تو حکومت اور اپوزیشن کے تجویز کردہ نام الیکشن کمیشن کو بھیجے جائینگے اور وہ دو دن کے اندر نگران وزیراعظم کیلئے ایک نام فائنل کرکے اس کا اعلان کر دیگا۔
نگران وزیراعظم کیلئے پیپلزپارٹی کی جانب سے سابق چیئرمین پی سی بی ذکاءاشرف اور سابق سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی کے نام پیش کئے گئے ہیں جبکہ تحریک انصاف نے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی‘ سابق گورنر سٹیٹ بنک ڈاکٹر عشرت حسین اور عبدالرزاق کے نام تجویز کئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف کو نگران وزیراعظم کیلئے کسی متفقہ نام پر راضی کرنے کیلئے مزید وقت مانگا ہے کیونکہ نوازشریف کسی سابق جج یا بیوروکریٹ کے نام پر اتفاق نہیں چاہتے اور وہ کسی سیاست دان کو نگران وزیراعظم بنانے کے حق میں ہیں۔
دنیا کے بیشتر ممالک میں جہاں وفاقی پارلیمانی جمہوری یا صدارتی جمہوری نظام رائج ہے‘ حکومت وقت ہی اگلے انتخابات کے انعقاد تک برقرار رہتی ہے اور نئی حکومت کو اقتدار منتقل کرکے وہ ایوان اقتدار سے رخصت ہوتی ہے۔ برطانیہ اور بھارت میں پارلیمانی جمہوری نظام کے ماتحت نئی حکومت کو اقتدار منتقل ہونے تک پہلی حکومت اپنے فرائض ادا کرتی رہتی ہے اور انتخابات بھی اسکی نگرانی میں منعقد ہوتے ہیں جبکہ امریکہ میں صدارتی انتخاب کا مرحلہ مکمل ہونے اور نیا صدر منتخب ہونے کے بعد بھی ڈیڑھ ماہ تک پہلے صدر ہی اپنے منصب پر برقرار رہتے ہیں اور پھر نئے صدر کو حلف دلوانے کے بعد وائٹ ہاﺅس خالی کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی پارلیمانی جمہوریت کا ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار تک یہی طریقہ رائج رہا ہے اور 1977ءکے انتخابات بھٹو حکومت کی نگرانی میں ہی منعقد ہوئے۔ انتخابات کے انعقاد کیلئے عبوری نگران حکومت کی گنجائش ضیاءالحق کے دور میں 8ویں آئینی ترمیم کے تحت نکالی گئی جبکہ 1985ءکے غیرجماعتی انتخابات خود ضیاءالحق نے اپنے دور اقتدار میں اپنی نگرانی میں کرائے تھے تاہم آئین کی دفعہ 58(2)B کے تحت انہوں نے 85ءکی اسمبلی کے ذریعے حکومت اور اسمبلیوں کو توڑنے کا صوابدیدی اختیار حاصل کیا تو اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے انہوں نے جونیجو کی منتخب حکومت کو گھر بھجوانے کے بعد اپنی ہی صدارت میں نگران حکومت تشکیل دینے کا بھی اختیار حاصل کرلیا۔ تاہم یہ اختیار انکے ائرکریش میں اس جہانِ فانی سے گزر جانے کے بعد غلام اسحاق خان نے صدر مملکت کی حیثیت سے استعمال کیا جنہوں نے صوابدیدی اختیار کے تحت بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف کی حکومتیں گھر بھجوانے کے بعد انتخابات کے انعقاد کیلئے نگران وزیراعظم کی سربراہی میں دونوں بار عبوری نگران سیٹ اپ قائم کیا اور پھر صدر فاروق لغاری نے بھی بے نظیر بھٹو کی حکومت کو گھر بھجوانے کے بعد نگران سیٹ اپ کے تحت ہی انتخابات کرائے جس کے بعد مشرف کے دور اقتدار میں بھی 2008ءکے انتخابات نگران سیٹ اپ کے ماتحت منعقد ہوئے۔
صدر کے اسمبلیاں توڑنے سے متعلق صوابدیدی اختیار کی طرح نگران وزیراعظم نامزد کرنا پہلے وزیراعظم کے ماتحت حکومت کا صوابدیدی اختیار ہوتا تھا تاہم پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں متفقہ طور پر منظور کی گئی 18ویں آئینی ترمیم میں چیف الیکشن کمشنر اور چیئرمین نیب کی طرح نگران وزیراعظم کی نامزدگی بھی پارلیمنٹ کے ہاتھ میں دے دی گئی جس کے تحت وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر باہمی مشاورت سے نگران وزیراعظم کیلئے کسی ایک نام پر اتفاق کرتے ہیں اور اتفاق نہ ہونے کی صورت میں نگران وزیراعظم کی نامزدگی کا معاملہ حکومت اور اپوزیشن کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے جبکہ پارلیمانی کمیٹی میں بھی اتفاق نہ ہونے کی صورت میں الیکشن کمیشن کو نگران وزیراعظم کیلئے حکومت اور اپوزیشن کے پیش کردہ ناموں میں سے کسی ایک نام کو فائنل کرنے کا صوابدیدی اختیار مل جاتا ہے۔
اگرچہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ نگران وزیراعظم کیلئے اپوزیشن لیڈر جو نام پیش کرینگے اس پر ہی اتفاق کرلیا جائیگا تاہم اس وقت سیاسی محاذآرائی جس انتہاءکو پہنچ چکی ہے‘ اسکے پیش نظر نگران وزیراعظم کیلئے حکومت اور اپوزیشن کا کسی ایک نام پر متفق ہونا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ بالفرض اگر وزیراعظم اور اپوزیشن کسی ایک نام پر متفق ہو بھی جاتے ہیں تو دوسری اپوزیشن موجود تحریک انصاف اپنی اتھل پتھل ایجنڈا والی سیاست گرما کر انتخابات کے عمل کو ہی مشکوک بنا دیگی۔ نتیجتاً معاملہ پارلیمانی کمیٹی سے ہوتا ہوا الیکشن کمیشن تک جا پہنچے گا جس کی صوابدید پر ہوگا کہ وہ حکومت اور اپوزیشن کے پیش کردہ ناموں میں سے کسی بھی ایک نام کا قرعہ¿ فال نکال لیں۔ اس وقت تک حکومت کی جانب سے نگران وزیراعظم کیلئے کوئی نام سامنے نہیں آیا جبکہ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے پیش کئے گئے ناموں میں سابق جج‘ سابق بیوروکریٹ اور سابق بنکار ہی شامل ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے یقیناً وہی نام سامنے آئینگے جن کی میاں نوازشریف توثیق کرینگے جبکہ وہ پہلے ہی عندیہ دے چکے ہیں کہ نگران وزیراعظم کیلئے کسی سابق جج یا بیوروکریٹ کے بجائے کسی سیاست دان کو نامزد کیا جائے چنانچہ مسلم لیگ (ن) کے پیش کردہ ناموں میں سے کسی پر اپوزیشن کی جانب سے اتفاق رائے پیدا ہونا ناممکنات میں نظر آتا ہے کیونکہ مسلم لیگ (ن) کی تجویز کردہ کوئی سیاسی شخصیت اپوزیشن کیلئے قابل قبول ہو ہی نہیں سکتی۔
نگران وزیراعظم کی نامزدگی کیلئے حکومت اور اپوزیشن کے پاس اب صرف پانچ دن کی مہلت ہے جس کے بعد معاملہ الیکشن کمیشن کے ہاتھ میں آجائیگا۔ میاں نوازشریف اپنے سیاسی بیانیے میں جس خلائی مخلوق کا حوالہ دے رہے ہیں‘ اس سے بچنے کیلئے آئین نے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کو نگران وزیراعظم کا اتفاق رائے سے فیصلہ کرنے کا اختیار دیا ہوا ہے۔ اگر وہ اپنی اپنی اناﺅں کی بنیاد پر اس اختیار کو استعمال نہیں کرتے تو پھر وہ آئندہ کے سیٹ اپ کے معاملات اسی خلائی مخلوق کے ہاتھ میں دینے کی خود ہی راہ ہموار کرینگے۔ اگر پارلیمانی جمہوری نظام میں مفاداتی سیاست کارفرما نہ ہوتی تو موجودہ یا سابقہ اسمبلی میں آئینی ترامیم لاتے وقت انتخابات کے انعقاد کیلئے نگران سیٹ اپ کی گنجائش نکالنے والی آئینی شق سے بھی خلاصی پائی جا سکتی تھی مگر بلیم گیم والی سیاست میں حکومت اور اپوزیشن کو ایک دوسرے کی بات قبول ہی نہیں ہوتی اور انکی باہمی محاذآرائی کے نتیجے میں غیرجمہوری عناصر کو اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا ہے تو ایسے حالات میں اٹھائے گئے کسی ماورائے آئین اور غیرجمہوری اقدام کی حکومتی اور اپوزیشن جماعتیں ہی سزاوار ٹھہرتی ہیں۔ ایسے لچھن جمہوریت کی گاڑی کو ٹریک سے اتارنے کے خود ہی اسباب پیدا کرنے کے مترادف ہوتے ہیں اس لئے پارلیمانی جمہوری نظام سے وابستہ سیاسی قیادتوں کو کم از کم اتنی تو باہمی رواداری پیدا کرنی چاہیے کہ وہ جمہوریت کی پاسداری و عملداری کی خاطر اپنی انائیں ترک کرنے پر آمادہ نظر آئیں۔ اگر انکی اناﺅں کے باعث نگران وزیراعظم کے تقرر کا اختیار بھی انکے ہاتھ سے نکل جاتا ہے تو ان کا چھوڑا گیا خلا جو بھی پر کریگا وہ اپنے ایجنڈے کے مطابق حکومتی ریاستی معاملات چلائے گا۔ اس سے جمہوریت کی کمزوری کی راہ ہموار ہوتی ہے تو اسکی ذمہ داری ہمارے قومی سیاسی قائدین پر ہی عائد ہوگی جس کے بعد ”خلائی مخلوق“ کے عمل دخل کے شکوے کرنا بے معنی ہوگا۔ اس تناظر میں جمہوریت کی عملداری اور استحکام کی خاطر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کو ہی نگران وزیراعظم کیلئے کسی ایک نام پر متفق ہو جانا چاہیے اور اس امر پر بھی ابھی سے اتفاق رائے کرلینا چاہیے کہ آئندہ کی اسمبلی میں انتخابات کے انعقاد کیلئے نگران سیٹ اپ کی تشکیل سے متعلق آئینی شق کو آئینی ترمیم کے ذریعے حذف کردیا جائیگا۔ بصورت دیگر منتخب جمہوری پارلیمانی نظام پر ماورائے آئین شب خون والی تلوار لٹکتی ہی رہے گی۔