نرم خو یا سخت گیر ریاست؟

Mar 24, 2025

نازیہ مصطفےٰ

جب برسوں کے اوراق پلٹے جاتے ہیں تو کچھ لمحے ایسے ہوتے ہیں جو قوموں کی تقدیر بدل دیتے ہیں۔ قومی سلامتی کمیٹی کا یہ اجلاس بھی ایک ایسا ہی لمحہ تھا جہاں پاکستان کی سول و عسکیری دونوں قیادتوں نے اپنے اپنے الفاظ میں وہ کہانی بیان کی جو ہر شہری کے دل کی دھڑکن ہے۔ یہ کہانی نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کی ہے، بلکہ اْس وجود کی بقا کی بھی ہے جو ہم نے قائدِ اعظم کی شکل میں ایک خواب دیکھا تھا۔ مگر خوابوں کو تعبیر دینے کے لیے جس مضبوطی کی ضرورت ہوتی ہے، کیا ہم نے اْسے کھو دیا ہے؟
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر کے الفاظ نے جس درد کو چھوا، وہ ہر پاکستانی کے دل میں موجود ہے۔ ’’ہم کب تک نرم ریاست بن کر اپنے جوانوں کا خون بہاتے رہیں گے؟‘‘ یہ سوال محض ایک فوجی جرنیل کا نہیں، بلکہ اْس ماں کا ہے جس کا بیٹا وزیرستان کے پہاڑوں میں شہید ہوا۔ اْس بیوہ کا ہے جس کا شوہر کراچی کی گلیوں میں دہشت گردوں کے ہاتھوں مارا گیا۔ اْس بچے کا ہے جس کے باپ نے بلوچستان کے صحراؤں میں اپنی جان دے دی۔ کیا ہماری ریاست کی نرم چھاتی پر یہ سب زخم ہمیشہ کے لیے ثبت ہو جائیں گے؟ یا پھر ہم اْس ’’ہارڈ اسٹیٹ‘‘کی طرف لوٹیں گے جو تاریخِ اسلام کے سنہری دور کی پہچان تھی؟ جب عمر فاروقؓ کا قانون اتنا مضبوط تھا کہ دریائے فرات کے کنارے ایک عورت بے خوف سفر کر سکتی تھی۔
یہ کوئی نئی بحث نہیں۔ ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ جب تک ریاست کی بنیادیں مضبوط رہیں، قومیں زندہ رہتی ہیں۔ مغلیہ سلطنت کا زوال اْسی دن شروع ہوا جب اورنگزیب عالمگیر کے بعد ریاست کی طاقت کمزور پڑنے لگی۔ آج پاکستان کو درپیش چیلنج بھی یہی ہے۔ 2018 کے بعد کی نااہل حکومتوں نے نہ صرف معیشت کو تباہ کیا، بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حاصل کیے گئے ثمرات کو بھی روند ڈالا۔ وزیراعظم شہباز شریف کا یہ کہنا کہ "ہم 2018 کی غلطیوں کو دہرائیں گے نہیں" دراصل اْس المیے کا اعتراف ہے جو ہم سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ حکومت اْس’’ہارڈ اسٹیٹ‘‘ کی تعمیر کر پائے گی جس کی بنیاد انصاف، شفافیت، اور قانون کی بالادستی پر ہو؟
سیاسی اختلافات کی یلغار میں ہم نے بھْلا دیا ہے کہ ریاست کی طاقت کا اصل سرچشمہ عوام کا اعتماد ہے۔ جب تک یہ اعتماد بحال نہیں ہوتا، تب تک نہ تو دہشت گردی ختم ہوگی، نہ ہی معیشت سنبھلے گی۔ اجلاس میں مولانا فضل الرحمن کا یہ کہنا کہ ’’ہمیں اختلافات پس پشت ڈال کر متحد ہونا ہوگا‘‘ دراصل اْس روایت کی طرف لوٹنے کی دعوت ہے جو 1947 میں قائدِ اعظم نے دی تھی۔ مگر افسوس کہ آج کی سیاست میں یہ روایت مفاد کی نذر ہو چکی ہے۔ پی ٹی آئی کی عدم شرکت نے جس خلا کو جنم دیا، وہ صرف ایک جماعت کا نہیں، بلکہ پوری قوم کا المیہ ہے۔ کیا ہم نے یہ سبق نہیں سیکھا کہ دشمن کی نظر ہمیشہ ہماری تقسیم پر ہوتی ہے؟
دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف فوج کی نہیں، بلکہ ہر شہری کی جنگ ہے۔ جب تک ہم اپنے گھروں میں بیٹھے اْن عناصر کو پہچاننے سے انکار کرتے رہیں گے جو بیرونی طاقتوں کے ایجنٹ ہیں، تب تک یہ جنگ جیتی نہیں جا سکتی۔ افغانستان کی سرزمین سے اْٹھنے والا دھواں صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں رہے گا۔ بلاول بھٹو کا یہ انتباہ کہ ’’ہمسائے یہ نہ سمجھیں کہ آگ اْن تک نہیں پہنچے گی‘‘ دراصل اْس حقیقت کی عکاسی ہے جو امریکہ نے نائن الیون کے بعد سیکھی۔ مگر کیا ہم نے اپنے ہمسائے کو یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان کی سلامتی سے کھیلنا خود اْس کی تباہی کا سبب بنے گا؟
قومی سلامتی کے اس اجلاس میں سب سے اہم نکتہ وہ تھا جو جنرل عاصم منیر نے اْٹھایا کہ ’’گورننس کا خلا فوج کے خون سے نہیں بھرا جا سکتا۔‘‘ یہ ایک ایسا سچ ہے جو ہمارے حکمرانوں کے کان تک پہنچنا چاہیے۔ ہماری ریاست کا ڈھانچہ اس قدر کمزور ہو چکا ہے کہ ہر دہشت گرد حملے کے بعد ہمیں فوج کے جوانوں کی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ یہ جوان کس لیے مرتے ہیں؟ کیا صرف اِس لیے کہ ہماری سول انتظامیہ اپنے فرائض سے بھاگتی ہے؟ کیا صرف اِس لیے کہ ہمارے پولیس تھانوں میں رشوت کا بازار گرم ہے؟ کیا صرف اِس لیے کہ ہمارے عدالتی نظام میں انصاف کی بجائے ذاتی مفادات کی بات ہوتی ہے؟
ہارڈ اسٹیٹ کی تعمیر کا مطلب یہ نہیں کہ فوج ہر محاذ پر تعینات ہو۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کا ہر ادارہ اپنا فرض احسن طریقے سے نبھائے۔ جب تک ہماری عدالتیں انصاف نہیں دیں گی، ہماری پولیس بے خوف خدمت نہیں کرے گی، اور ہمارے سیاستدان عوام کے بجائے اپنے مفادات کو ترجیح دیں گے، تب تک ہر اجلاس محض ایک رسم رہے گا۔ جنرل عاصم منیر کا یہ کہنا کہ اللہ پر بھروسہ ہے، ہم کامیاب ہوں گے‘ دراصل اْس ایمان کی تجدید ہے جو ہماری قوم کی رگوں میں دوڑتا ہے۔ مگر قرآن پاک نے صرف ایمان ہی نہیں، عمل کا بھی حکم دیا ہے۔ کیا ہم اپنے عمل سے ثابت کر پائیں گے کہ ہم واقعی ایک ہارڈ اسٹیٹ بننے کے اہل ہیں؟
اس اجلاس کا سب سے دردناک پہلو یہ تھا کہ جس قوم کو متحد ہونا چاہیے تھا، اْس کے نمائندے ایک کمرے میں جمع نہیں ہو سکے۔ پی ٹی آئی کی غیرحاضری نے ثابت کیا کہ ہماری سیاست اب بھی مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ جو قومیں داخلی اختلافات میں اْلجھ جاتی ہیں، وہ بیرونی خطرات کا شکار ہو جاتی ہیں۔ کیا ہم نے 1971 کا سبق بھلا دیا ہے؟ جب مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد ہمارے اندرونی انتشار پر رکھی گئی۔ آج بھارت کی نظر ہماری اس تقسیم پر ہے۔ کیا ہم اپنے دشمن کو ایک اور موقع دیں گے؟
حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کا یہ عفریت صرف بندوق سے نہیں مارا جا سکتا۔ اس کے لیے ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو بدلنا ہوگا، جہاں نوجوانوں کو نفرت کی بجائے محبت سکھائی جائے۔ ہمیں اپنی معیشت کو مستحکم کرنا ہوگا، تاکہ غربت کے اندھیرے میں پلنے والے نوجوان کلاشنکوف اْٹھانے پر مجبور نہ ہوں۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو نئے سرے سے ترتیب دینا ہوگا، تاکہ ہم اپنے دشمنوں کو تنہا کرسکیں۔ مگر سب سے بڑھ کر، ہمیں اپنے اندر وہ عزم پیدا کرنا ہوگا جو قائدِ اعظم نے دکھایا تھا۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کا متفقہ اعلامیہ ایک شمع کی مانند ہے جو اندھیرے میں روشنی پھیلاتی ہے۔ مگر یہ شمع تب تک جلے گی جب تک ہم سب اِس کی حفاظت کریں گے۔ ہمارے دشمن نہیں چاہتے کہ پاکستان مضبوط ہو۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم اختلافات میں الجھے رہیں، تاکہ وہ ہمارے وجود کو پارہ پارہ کر سکیں۔ مگر ہماری تاریخ، ہماری ثقافت، اور ہمارا ایمان ہمیں متحد رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے اختلافات کو قومی مفاد کے تابع کر دیں۔ ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کریگی۔پاکستان صرف ایک خطہ زمین نہیں، بلکہ ایک نظریہ ہے۔ یہ نظریہ تب تک زندہ رہے گا جب تک ہم اپنی ریاست کو مضبوط بنانے کے لیے کوشاں رہیں گے۔ آئیے، آج سے عہد کریں کہ ہم اپنے فرائض کو پوری ایمانداری سے نبھائیں گے۔ کیونکہ پاکستان کی بقا ہماری بقا ہے۔

مزیدخبریں