بلوچستان کے گدھ

Mar 24, 2025

کامران نسیم بٹالوی

وطن عزیز پر اس وقت چاروں اطراف سے گد ھ حملہ اور ہیں لیکن یہ سب گدھ کیوں بھولے بیٹھے ہیں کہ ان کا شکار صرف مردہ اور بے حس چیز ہی ہو سکتی ہے زندہ جاوید اشیاء پرحملہ اور ہونا تو دور کی بات وہ پاس بھی نہیں بھٹک سکتے مگر ملک پاکستان میں یہ گد ھ قیام وطن سے لے کر اب تک انتہائی نچلی سطح پر محو پرواز رہتے ہوئے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ان کے پیٹ کی اگ کو بجھانے کا سامان یہیں سے ملے گا مگرایسا نہیں ہونے کا کیونکہ یہ غلیظ اور مردار کھانے والا پرندہ جب شہری ابادیوں کا رخ کرتا ہے تو ماحول کو صاف اور پرسکون رکھنے کے لیے اسے مار گرانا پڑتا ہے گدھ کا وصف یہ ہے کہ وہ بزدل اور گند کھانے والا پرندہ ہے جب یہ سفاکی یا گندگی کسی انسان میں پائی جاتی ہے تو اسے بھی اسی نام سے یاد کیا جاتا ہے اور پہچانا جاتا ہے اور پاکستان میں انسان نما گدھ اپنی قبیع حرکات میں مصروف و مشغول ہیں مگر مسلسل مایوسی اور ناکامی انکے حصہ میں ا رہی ہے۔
ویسے تو ان گدوں کی کئی اقسام ہیں جو مختلف پاکستانی شعبوں میں دیکھنے میں ملتی رہی ہیں جن کا بنیادی مقصد ملک کی تعمیر و ترقی کو ڈی ریل کر کے غیر ملکی اقاؤں کے ایجنڈا کی تکمیل کرنا ہے مگر فی الوقت ہمیں ان گدوں کی بات کرنی ہے جو بلوچ لبریشن ارمی تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی صورت میں براہ راست پاکستان پر دہشت گردانہ حملوں اور مہموں کے ذریعے حملہ آور ہیں اور ملکی امن اور یکجہتی کے پے در پے ہیں ان نام نہاد تحریکوں کے پیچھے حقوق کی جنگ نہیں بلکہ سی پیک اور گوادر پورٹ کی صورت میں وہ سبق رفتار ترقی ہے جو کہ دشمن کے پیٹ کا وہ درد ہے جو تھم نہیں پا رہا کیونکہ اس گیم چینجر پروگرام نے کچھ ایشیائی اور عرب ممالک کی چھٹی کروا دی ہے محض اپنی معشیت کا پہیہ چلاتے کے لئے پاکستان کو جن کا مرہون منت ہونا پڑتا تھا اہلیان وطن کو تکلیف یہ نہیں ہے کہ دہشت گردی کا اصل مرکز و منبع ہمارا ازلی دشمن بھارت ہے بلکہ دکھ اس بات کا ہے کہ دو ہمسایہ اسلامی برادر ممالک بھی کسی حد تک اس میں شراکت دار ہیں۔
کہہ سکتے ہیں پاکستان دہشت گردی کی ایک ایسی چکور میں پھنس چکا ہے جس کا ایک سرا بھارت تو دوسرا افغانستان تو تیسرا ایران سے ہوتے ہوئے پاکستان سے جا ملتا ہے ۔
بلوچستان میں بے امنی اور غارت گری کے بنیادی محرکات میں صرف قومی ترقی کی مخالفت ہی بڑا ذریعہ نہیں بلکہ دیگر عوامل میں اہم ترین بلوچ سرداروں کی منافقت اور دہرا معیار ہے جو ایوب سے لے کر باجوہ تک اور بھٹو سے لے کر عمران خان نیازی تک رہا رقبہ کے لحاظ سے تمام مراعات اور فنڈ تو لیتے رہے مگراپنے قبیلوں کو جوں کا تو محکوم اور محروم ہی رکھا اپنی جائیدادیں لاہور کراچی اسلام اباد یورپ اور امریکہ میں تو بناتے رہے مگر اپنی قوم کو بنیادی سہولیات تک سے محروم رکھا یہی وجہ ہے کہ سرداروں کی روایتی اجارہ داری کی بنا پر دیگر صوبوں کی نسبت نہ ہی بلوچستان میں کوئی انڈسٹری کا جال موجود ہے جس کی وجہ سے عوام کو روزگار مل سکے باقی بچی معدنیات تو انکے ٹھیکے بھی انہیں نے آپس میں بانٹ رکھے ہیں اور نہ ہی سکول کالجوں اور یونیورسٹیوں کا پھیلاؤ ہے یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان کے ترقی یافتہ شہروں سے تعلیم مکمل کر کے واپس جانے والا بلوچ طالب علم اپنے صوبہ بلوچستان کو لوٹتا ہے تو احساس محرومی اس کا استقبال کرتی ہے اور یہی محرومی نوجوان نسل میں پاکستانی وسائل کی غیر مساوی سوچ کو ابھارتی ہے حالانکہ اسی خدشہ کے پیش نظر ہر وفاقی حکومت صوبہ کو کثیر بجٹ سے بھی نوازتی ہے مگر اسی محرومی کی سوچ کو پھر پاکستان دشمن طاقتیں اگ کے شعلہ سے تبدیل کر کے بڑا اگ کا طوفان بنا دیتی ہیں جس میں سرداروں کا منافقانہ رویے کا بھی عمل دخل شامل ہو جاتا ہے جو محض سیاسی سکورنگ اور اپنے ریٹ بڑھانے کی خاطر ایسے بیانیوں کی نفی کی بجائے تائید کرتے ہیں بالکل ایسے ہی جیسے نام نہاد بلوچ یکجہتی کمیٹی کی نام نہاد لیڈر ماہ رنگ بلوچ پر بلوچستان کے منظر نامے کی مثال عین صادق اترتی ہے۔ جعفر ایکسپریس ٹرین کے واقعہ نے جہاں بلوچستان کے نقص امن کی سنگینی کو اعلی پیمانے پر نمایاں کیا ہے وہاں بھارتی پراکسی کے بے رول پر کام کرنے والی ماہ رنگ بلوچ کا کٹا چھٹا بھی کھول کر رکھ دیا ہے جو کہ بلوچ نہیں بلکہ ایک لاہنگو قبیلے سے تعلق رکھتی ہے
اور جسکے منہ سے بلوچ انتہا پسندوں کی دہشت گردی کے سینکڑوں واقعات میں موت کی بھینٹ چڑھنے والے کسی بھی غیر بلوچی کی ہلاکت یا شہادت پر ایک بھی ہمدردی کا لفظ نہیں نکلا بلکہ الٹا وہ دہشت گردوں کی بزدلانہ حرکتوں کا دفاع کرتی رہی ہے کرتی بھی کیوں نہ کیونکہ اس کا باپ غفار لاہنگو بی ایل اے کا بڑا اہم دہشت گرد رکن تھا مسنگ پرسن کے نام پر متحرک یہ خاتون بڑی عیاری سے دہشت گردوں کو سیاسی تحفظ دینے کے جتن کرتی رہی یہاں تک کہ اس خاتون کی دیدہ دلیری دیکھیں کہ کوئٹہ کے ہسپتال میں جعفر ایکسپریس کے حملہ کے دوران ہلاک ہونے والے پانچ دہشت گردوں کی لاشیں چھین کر فرار ہونا شامل ہے وہ بات الگ کے حکومت نے انہیں باز یاب کرا لیا مگر یہ بات کنفرم ہو گئی کہ یہ بی بی دہشت گردوں کی تنظیم بی ایل اے کا ایک سیاسی ونگ تھا جو پہلے بلواسطہ ان کے تحفظ میں مصروف تھی لیکن اب بلاواسطہ طور پر اس کا سامنے انا یہ ظاہر کرتا ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی نہ ہی دائیں اور نہ ہی بائیں بازو کی کوئی پاکستانی تحریک ہے بلکہ یہ پاکستان کی کھلی دشمن ہونے کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں شورشوں کو پیدا کرنے والی تمام دہشت گرد تنظیموں کی زیلی جماعت ہے۔
یاد رہے کہ پورے بلوچستان کی ابادی جو کہ ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ ہے بھارت سے ملنے والے ڈالروں کے عوض بلوچ کارڈ کھیلنے والے افراد صرف 15 سے 16 ہزار ہیں جو کسی بھی صورت بلوچوں کی نمائندگی نہیں کرتے جن میں سے سرکردہ دہشت گردوں کے نہ صرف بھارتی پاسپورٹ ہیں بلکہ ان کی جائیدادیں بھی انڈیا میں ہیں یہ کہنا بے جانا ہوگا کہ یک دم بلوچستان میں معصوم شہریوں کے خون سے ہولی کھیلنے کی دو بڑی وجوہات ہی ہو سکتی ہیں جنہیں ہر گز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا پہلا بنگلہ دیش رجیم چینج جس کے کے تحت بھارت کی بنگلہ دیش سے چھٹی اور جس کا سہرا وہ سراسر پاکستان پر لگاتا ہے دوسرا انٹرنیشنل پراکسی نمائندہ ماہ رنگ بلوچ کا امریکہ جاتے ہوئے ڈی پورٹ کرنا اور اس کا پاسپورٹ ضبط کرنا شامل ہیں لیکن تیسرا اور اہم عنصر اس سارے معاملے میں پاکستان تحریک انصاف کی روایتی ملک دشمنی ہے شہریوں کی بجائے دہشت گردوں کے حق میں کھڑی نظر آتی تحریک طالبان پاکستان کے بعد بلوچستان کے خوارج کے لیے کام کرنے والی ماہ رنگ بلوچ کے ساتھ کھڑا ہونا تحریک انصاف کے بطور پاکستانی سیاسی جماعت کی حب الوطنی پر ایک گہرا سوالیہ نشان ہے جو انہیں مشکوک بناتا ہے بلوچستان کا یہ سارا منظرنامہ اس بات کا متقاضی ہے کہ بلا تخصیص پاکستان کے خلاف کام کرنے والی ہر پراکسی کو کچل دیا جاے چاہے وہ ماہ رنگ بلوچ کی بلوچ یک جہتی کمیٹی ہی کیوں نہ ہو ۔

مزیدخبریں