یوم پاکستان 23 مارچ 1940 کی مسلم لیگ کے اجلاس میں منظور

Mar 24, 2025

سید مجتبیٰ رضوان

 یوم پاکستان 23 مارچ 1940 کو آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں منظور کی گئی قرارداد کی یاد میں منایا جاتا ہے جس کی روشنی میں برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے لیے ایک علیحدہ وطن کا خواب دیکھا تھا۔ یہ قرارداد لاہور کے منٹو پارک میں پیش کی گئی تھی جہاں اس کی یادگار کے طور پر مینار پاکستان تعمیر کیا گیا۔23 مارچ 1940ء  کا دن ہندوستان کے مسلمانوں کی جدّوجہد آزادی میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اْس دن انہوں نے اپنے نجات دھندہ قائداعظم محمد علی جناح? کی زیر قیادت اپنی جدّوجہد کی ایک سمت اور منزل کا تعیّن اور یہ عہد کر لیا تھا کہ وہ اپنے لئے ایک الگ مملکت کے قیام سے کم کچھ بھی قبول نہ کریں گے۔ انگریزوں‘ ہندوئوں‘ سکھوں اور کور چشم وطن پرست مسلمانوں کے ایک مٹھی بھر گروہ کی ستیزہ کاریوں کے باوجود 23 مارچ 1940ء   تا 14 اگست 1947ء  مسلمان اس بات پر ثابت قدم رہے کہ وہ اپنے لئے ایک جہانِ نو کی تعمیر کر کے ہی دم لیں گے۔ بانیانِ پاکستان اور کارکنان جدوجہد آزادی کے دل و دماغ میں قراردادِ پاکستان کی غرض و غایت یہ تھی کہ ایک ایسا خطہ زمین حاصل کیا جائے جسے دینِ اسلام کی عالمی تمدّنی تحریک کا پہلا پڑائو بنایا جا سکے اور جو عہد حاضر میں دینِ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا نکتہ آغاز بن سکے۔ قراردادِ پاکستان کی منظوری سے برسوں قبل علّامہ محمد اقبالکی دْوربین نگاہیں آنے والے حالات کو دیکھ رہی تھیںعلامہ محمد اقبال  نے ایک خواب دیکھا تھا جسے قائداعظم محمد علی جناح نے تعبیر عطا کی۔ یہی وجہ ہے کہ قراردادِ پاکستان کی منظوری کے بعد بابائے قوم نے علامہ محمد اقبال  کی تربت پر حاضر ہو کر ان کے بلندی درجات کے لئے دعا کی اور اپنے سیکرٹری مطلوب الحسن سید سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھاکہ آج اگر علامہ محمد اقبال  زندہ ہوتے تو یہ دیکھ کر بہت خوش ہوتے کہ ہم نے ویسا ہی کر دیا ہے جیسا وہ چاہتے تھے۔ 23 مارچ 1940ء کا دن ہندوستان کے مسلمانوں کی جدّوجہد آزادی میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اْس دن انہوں نے اپنے نجات دھندہ قائداعظم محمد علی جناح کی زیر قیادت اپنی جدّوجہد کی ایک سمت اور منزل کا تعیّن اور یہ عہد کر لیا تھا کہ وہ اپنے لئے ایک الگ مملکت کے قیام سے کم کچھ بھی قبول نہ کریں گے۔ انگریزوں‘ ہندوئوں‘ سکھوں اور کور چشم وطن پرست مسلمانوں کے ایک مٹھی بھر گروہ کی ستیزہ کاریوں کے باوجود 23 مارچ 1940ء  تا 14 اگست 1947ء مسلمان اس بات پر ثابت قدم رہے کہ وہ اپنے لئے ایک جہانِ نو کی تعمیر کر کے ہی دم لیں گے۔ بانیانِ پاکستان اور کارکنان جدوجہد آزادی کے دل و دماغ میں قراردادِ پاکستان کی غرض و غایت یہ تھی کہ ایک ایسا خطہ  زمین حاصل کیا جائے جسے دینِ اسلام کی عالمی تمدّنی تحریک کا پہلا پڑا و بنایا جا سکے اور جو عہد حاضر میں دینِ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا نکتہ  آغاز بن سکے۔ قراردادِ پاکستان کی منظوری سے برسوں قبل علّامہ محمد اقبال کی دْوربین نگاہیں آنے والے حالات کو دیکھ رہی تھیں۔
پاکستان کے متعلق علامہ محمد اقبال  نے ایک خواب دیکھا تھا جسے قائداعظم محمد علی جناح  نے تعبیر عطا کی۔ یہی وجہ ہے کہ قراردادِ پاکستان کی منظوری کے بعد بابائے قوم نے علامہ محمد اقبال کی تربت پر حاضر ہو کر ان کے بلندی  درجات کے لئے دعا کی اور اپنے سیکرٹری مطلوب الحسن سید سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آج اگر علامہ محمد اقبال  زندہ ہوتے تو یہ دیکھ کر بہت خوش ہوتے کہ ہم نے ویسا ہی کر دیا ہے جیسا وہ چاہتے تھیتاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں اور ہندوئوں کے راستے اس وقت جدا ہوئے جب مسلمانوں کی جانب سے نہرو رپورٹ میں تجویز کردہ 3ترامیم کو کانگریس کی جانب سے مسترد کرتے ہوئے اسے من و عن منظور کرلیا گیا۔ 1929ء   میں نہرو رپورٹ کے ردِعمل میں مسلمانوں کی آل پارٹیز کانفرنس کلکتہ میں منعقد کی گئی، جہاں قائداعظم نے 14نکات پیش کیے، جن کو انتہا پسند ہندوئوں نے رَد کردیا۔ قراردادِ لاہور سے قبل جداگانہ قوم کا تصور، شاعر مشرق علامہ اقبال  نے 30دسمبر1930ء کو الٰہ آباد میں منعقدہ جلسہ میں پیش کیا۔ علامہ اقبال  کی خواہش مسلمانوں کے لیے روشنی کی ایسی کرن ثابت ہوئی، جس نے آئندہ برسوں میں ایک علیحدہ اور خودمختار ریاست کے قیام کی جدوجہد کے لیے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیا۔  پھر اپریل 1934ء  میں قائداعظم  کی وطن واپسی کے بعد مسلمان لیڈروں نیباہمی اختلافات ختم کرتے ہوئے مسلمانوں کے لیے ایک خود مختار ریاست کی تکمیل کابیڑہ اٹھالیا۔ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تاجِ برطانیہ کی جانب سے1936ء تا 1937ء   میں عوام کو اقتدار سونپنے کے پہلے مرحلے میں 11صوبوں میں الیکشن منعقد کروائے گئے، جس میں مسلم لیگ کو بنگال کے علاوہ کسی بھی صوبے میں نمایاں کامیابی حاصل نہ ہوسکی جبکہ کانگریس برصغیر کی نمایاں جماعت بن کر اْبھری۔ 1938ء   میں کراچی کے عیدگاہ میدان میں پہلی بار سندھ مسلم لیگ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس کانفرنس میں ایک قرارداد منظور کی گئی، جس میں برصغیر کی دونوں نمایاں جماعتوں سے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا گیا۔ عبد المجید شیخ سندھی کی پیش کی گئی قرارداد میں واضح کیاگیا کہ ’’ہندوستان میں ایک کے بجائے دو قومیں آباد ہیں، مسلمان ہندوئوں سے علیحدہ قوم ہیں۔ 
لہٰذا مسلم لیگ کو ایسی حکمت عملی تیار کرنی چاہیے جوہندوستان کے مسلمانوں کو آزادی و خود مختاری دلوا سکے‘‘۔ اس حکمت عملی کی تیاری کے لیے 1939ء  میں مسلمانوں کی نمائندہ جماعت مسلم لیگ کی جانب سے دو کمیٹیاں مجلس امورخارجہ اورمجلس آئینی تشکیل دی گئیں، جس کے بعد اگلے سال اس خواب کی پہلی صورت قراردادِ لاہور کی شکل میں سامنے آئی۔ 
1940ء  میں قرارداد پیش کرنے کیلئے لاہور کے منٹو پارک (موجودہ اقبال پارک) میں آل انڈیا مسلم لیگ کی جنرل باڈی کونسل کا تین روزہ سالانہ اجلاس منعقد کیا گیا۔ نواب ممدوٹ نے استقبالیہ کمیٹی کے سربراہ کے طور پر افتتاحی خطاب کیا، جس کے بعد بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنیتاریخی خطاب میں ہندوستان کوتقسیم کرکے’’مسلم انڈیا‘‘ کی تشکیل کا مطالبہ کیا۔ 
مسلمانانِ ہند کی ایک بڑی تعداد نئے ملک کیحصول کی خاطر جمع ہوئی، وہاں ان کیلئے سب سے بڑی بات یہ تھی کہ وہ پہلی بار قائد اعظم  کو دیکھنے اور سننے آئے تھے۔ عظیم قائد کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب لوگوں کا جم غفیر قائد اعظم  کی انگریزی میں کی گئی تقریر کو سمجھنے سے قاصر تھا لیکن ہر کوئی ان کے لفظو ں کی تاثیراور معنوں کو دل کی شرح سے سمجھ رہا تھا اور ایک ایک لفظ اپنی سماعتوں میں اْتار رہا تھا۔ اس روز پہلی مرتبہ ایک الگ اور خودمختار ریاست کی تحریک آئینی اور قانونی خدوخال میں پیش کی گئی۔ اس میں ان علاقوں، صوبوں اورخطوں کی نشاندہی کی گئی جو مجوزہ پاکستان میں شامل کیے جانے تھے۔ دوسرے روز23مارچ کو سہ پہر 3بجے متحدہ بنگال کے وزیراعلیٰ اے کے فضل الحق (شیرِ بنگال) نے قراردادِ ِپاکستان پیش کی جبکہ بیگم محمد علی جوہر نے تقریر میں قرارداد کو پہلی بارقراردادِ لاہور کہہ کر پکارا (آگے چل کر یہ قراردادِ پاکستان کہلائی)۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا تھاکہ، ’’کوئی بھی دستوری خاکہ مسلمانوں کے لیے اس وقت تک قابل قبول نہیں ہوگا، جب تک ہندوستان کے جغرافیائی اعتبار سے متصل وملحق یونٹوں پر مشتمل علاقوں کی حد بندی اور ضروری علاقائی ردوبدل نہ کیا جائے‘‘۔ قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، انھیں خودمختار ریاستیں قرار دیا جائے، جس میں ملحقہ یونٹ خودمختار اور مقتدر ہوں۔ قرارداد میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کا بھی کہا گیا، ’’ان یونٹوں کی اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق و مفادات کے تحفظ کے لیے ان کے صلاح مشورے سے دستور میں مناسب و موثر اور واضح انتظامات رکھے جائیں اور ہندوستان کے جن علاقوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں ان کے اور دیگر اقلیتوں کے صلاح مشورے سے ان کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق و مفادات کے تحفظ کی ضمانت دی جائے‘‘۔ قرارداد میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ آل انڈیا مسلم لیگ ہندوستان کی تقسیم کے علاوہ کسی اور منصوبے کو قبول نہیں کرے گی۔ 
اجلاس میں موجود تمام شرکاء نے ہاتھ اْٹھاکر قرارداد کی حمایت کی۔ اجلاس کی صدارت قائداعظم نے کی جبکہ اس قرارداد کی تائید میں تقاریر کرنے والے مسلم اکابرین میں خان اورنگزیب خان، حاجی عبداللہ ہارون، بیگم مولانا محمد علی جوہر، آئی آئی چندریگر، مولانا عبدالحامد بدایونی اور دیگر مسلم اکابرین شامل تھے۔آئین کی تبدیلی کے سلسلے میں بھی دو قراردادیں پیش کی گئیں ، جنہیں فوراً منظور کرلیا گیا۔ اس کے بعد آئندہ سال کیلئے مسلم لیگ کے عہدیداران کا انتخاب عمل میں لایا گیا۔ آخر میں جب قائد اعظم نیاپنا مختصر خطاب ختم کیاتو رات کے ساڑھے گیارہ بج رہے تھے۔ جس مقام پر قرار دادِ لاہور پیش کی گئی آج وہاں مینارِ پاکستان قائم ہے جو ہمیں اْس تاریخی دن کی یاد دلاتا ہے گا،

مزیدخبریں