
اچانک ررمضان مبارک! سب طرف سے لوگوں نے فرض کر لیا تھا کہ پہلا روزہ جمعے کا ہو گا، سعودی عرب کے ایک دن بعد ہی ہمارے ہاں چاند نکلتا ہے لیکن دس بجے رویت ہلال کمیٹی نے چاند دیکھ لیا اور اعلان کر دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پورے ملک سے، کہیں اور سے کوئی شہادت نہیں آئی۔ کیا لاہور، کیا پنڈی،کوئٹہ اور پشاور یا کراچی لیکن بہاولپور کے کئی شہروں سے رات گئے چاند نظر آنے کی شہادتیں آ گئیں۔ اب آپ کی مرضی اسے رمضان کا چاند کہیں یا صحرا کا چاند۔ کسی زمانے میں ایسے ناموں کی فلمیں بنا کرتی تھیں، صحرا کی حور، صحرا کا چاند۔
پہلا روزہ سچ مچ کا ہوا یا زبردستی کا۔ اللہ جانے یا رویت ہلال والے بہرحال رکھنے والوں کو دونوں صورتوں میں پورا ثواب ملے گا۔ زبردستی کا روزہ ہے تو اضافی ثواب پکا۔ چنانچہ اچانک رمضان کی پھر مبارک۔
_____
پاکستان اسلام کا قلعہ ہے، دنیا میں واحد ملک، پچاس سے زیادہ اسلامی ملکوں میں اکیلا قلعہ۔ ویسے انصاف کی بات یہ ہے کہ چار پانچ درجن ملک اسلامی ہیں تو اسلام کے قلعے بھی چھ سات تو ہونے چاہئیں لیکن ایسا نہیں ہے تو اس کی وجہ بھی ہے اور وجہ یہ ہے کہ باقی ممالک میں سے کوئی بھی اس ’’معیار‘‘ کو نہیں پہنچ سکا جس پر ہم عرصہ دراز سے بلاشرکت غیرے فائز ہیں۔
ایک یہی بات ملاحظہ فرما لیجئے کہ پچاس باون ملکوں میں سے پاکستان واحد ملک ایسا ہے جہاں رمضان کا چاند نظر آتے ہی (یا اس کا اعلان ہوتے ہی) تمام چیزوں کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ وافر شے کم یاب، کم یاب نایاب ہو جاتی ہے اور تو اور، ڈیڑھ دو عشروں سے ہم آپ سب دیکھ رہے ہیں کہ ہمہ قسم جرائم میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ کسی ستم ظریف نے اس پر فقرہ کسا کہ رمضان آتے ہی دنیا بھر کے شیاطین قید کر کے پاکستان میں لا کر چھوڑ دئیے جاتے ہیں۔
مسلمان ملکوں کا ہی نہیں ، دنیا کے سبھی ان ملکوں کا یہی حال ہے جہاں قابل لحاظ تعداد میں مسلمان رہتے ہیں کہ رمضان آتے ہی دام گرا دئیے جاتے ہیں۔ کیا بھارت، کیا کینیڈا اور یو کے لیکن پاکستان چونکہ اسلام کا قلعہ ہے، یہاں کے گراں فروش، ذخیرہ اندوز اور ملاوٹ کرنیوالے رمضان کا انتظار کرتے ہیں۔ روزے داروں کو اتنا شدید انتظار نہیں ہوتا جتنا انہیں ہوتا ہے۔
اور پھر یہ لوگ جو مل ملا کر اشرافیہ کہلاتے ہیں (دکاندار تو مہنگے دام لینے پر مجبور ہوتا ہے، اصل معاملے تو اشرافیہ ہی کنٹرول کرتی ہے)روزے رکھیں نہ رکھیں، افطار پارٹی ضرور دیں گے اور ایسے ریستورنٹس میں دیں گے کہ فی روزہ دار (نام نہاد) کئی کئی ہزار کا خرچہ ہو۔ اگر ان میں سے کچھ ’’افطار خور‘‘ سچ مچ کے روزہ دار بھی ہوں تو بالیقین ان کے روزے روز قیامت ان کے منہ پر مار دئیے جائیں گے۔ یہ غریب کی مدد نہیں کریں گے لیکن کئی ہزار روپے کی افطاری خود کریں گے اور اپنے جیسے دوسروں کو کروائیں گے۔ اسلام کی ایسی’’ قلعہ بندیاں‘‘اور کہاں ملیں گی۔
_____
معینہ چاند رات سے ایک رات پہلے بھاری زلزلہ آیا، بہت زیادہ شدت کا لیکن مرکز کی گہرائی زیادہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تباہ کن نہ ہو سکا۔ پھر بھی آٹھ دس یا شاید اس سے بھی زیادہ لوگ جاں بحق ہو گئے۔ ایک جگہ سات آٹھ سال کی بچی زلزلے کے خوف سے دل کے دورے کی نذر ہو گئی۔ چند ہفتے پہلے اس کا والد حادثاتی طور پر چل بسا تھا، گویا دل پہلے ہی صدمے میں تھا، زلزلے کا جھٹکا برداشت نہ کر سکا۔ اللہ تعالیٰ اس بچی کی اور دوسرے شہدائے زلزلہ پر رحمت فرمائیں۔
زلزلہ کیا خوفناک اور دل کو ڈرا دینے والا ہوتا ہے کہ ہر ایماندار اور ہر بے ایمان دار بھی توبہ توبہ کر اٹھتا ہے اور کلمہ پڑھنے لگتا ہے لیکن جونہی زلزلہ ٹلتا ہے، وہ اپنی ’’فطرت‘‘ پر واپس آ جاتا ہے۔ کل کی ایک خبر یہ بھی تھی کہ ایک ریستورانٹ میں کھانا کھانے والے سبھی لوگ جھٹکے لگتے ہی باہر نکل گئے۔ جب زلزلہ تھم گیا تو جو کھانا ادھورا چھوڑ آئے تھے، وہ تو واپس آ گئے، جو پورا کھا چکے تھے، وہ ایسے گئے کہ لوٹے ہی نہیں۔ گویا قیامت کی اس گھڑی کو انہوں نے بل کی رقم بچانے کا بہانہ بنا لیا۔ اسے اب کیا نام دیں۔
ترکی کا زلزلہ بھی لوگوں کو یاد آ گیا جو تھوڑے ہی دن پہلے برپا ہوا تھا۔ وہاں تو سچ مچ زمین ہلا ماری گئی۔ 50 ہزار لوگ شہید، لاکھوں زخمی ہوئے لیکن ترکی کا آوا ہمارے آوے سے بالکل الگ ہے۔ حکومتی اور غیر حکومتی اداروں نے دنوں میں بحالی کا وہ کام مکمل کر لیا جو ہمارے ہاں دو عشروںمیں بھی نہیں ہو پاتا۔ شامیانے کھڑے کرنے اور عارضی گھر بنانے والوں نے دیکھتے ہی دیکھتے عارضی بستیاں کھڑی کر لیں۔ امدادی سامان کے تانتے بندھ گئے۔
ادھر خدا کی قدرت کے کرشمے بھی دیکھنے کو ملے۔ ایک کتا جو بیسویں روز ملبے سے زندہ ملا۔ ایک بلّی پچیس دن بعد، ایک گھوڑا چھبیس دن بعد اور ایک کتیا ستائیسویں روز اپنے چار پانچ نوزائیدہ پلّوں سمیت ملی۔ پلّے بھی فاقے سے تھے لیکن بظاہر ٹھیک نظر آ رہے تھے، کتیا بے چاری ہڈیوں کا نمونہ بنی ہوئی تھی۔ متاثرہ علاقوں اور ملبے سے ہزارہا جانور بچائے گئے۔ ان کی امداد کیلئے الگ سے ادارے کام کر رہے ہیں۔ الگ خیمہ بستیاں ہیں جہاں ان جانوروں کو رکھا گیا ہے، ڈاکٹروں کی پلٹنیں ان کی دیکھ بھال پر مامور ہیں اور خوراک کی الگ سے ’’سپلائی چین‘‘ ہے۔
ترک قوم جانوروں سے محبت کے لیے دنیا بھر میں ممتاز مقام اور نام رکھتی ہے۔ کئی امدادی کارکن تو ایسے تھے کہ ملبے سے نکلنے والے جانور شیلٹر لے جانے کے بجائے گھر لے گئے۔ ایک امدادی ٹیم کسی تباہ شدہ قصبے کی طرف جا رہی تھی کہ راستے میں ایک کتا آ گیا اور ان کا راستہ روک دیا۔ ٹیم والے سمجھ گئے کہ یہ کہیں اور لے جانا چاہتا ہے چنانچہ وہ اس کی رہنمائی میں ایک ایسے قصبے میں پہنچ گئے جس کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں تھا، وہاں کئی جانیں بچا لی گئیں۔ ایک جگہ ملبے کے ایک حصے سے ایک کتا، دوسرے سے بلّی نکالی گئی۔ دونوں کھلے میں آئے اور ایک دوسرے کو دیکھ کر، انسانوں کی طرح بغل گیر ہو گئے یعنی غمگساری کی۔ ہر جاندار انسانوں جیسا ہی جسم، انسانوں جیسا ہی دل رکھتا ہے لیکن ہم انسان جانوروں کو ’’ٹریش‘‘ سمجھ کر اسی حساب سے ان کے ساتھ برتائو کرتے ہیں۔
بہرحال زلزلہ ٹلا، شکر کا مقام ہے۔ اصل زلزلہ تو قیامت کے روز آئے گا جب زمین کا کچھ بھی نہیں بچے گا۔ سورۂ ابراہیم کی آخری آیات میں سے ایک آیت میں ہے کہ اس روز ارض، غیر ارض سے بدل جائے گی۔ یعنی کرہ ارض تو موجود رہے گا، اس کی ہئیت کی کایا ساری کی ساری ایسی کلپ ہوگی کہ کچھ بھی مشابہت اس زمین سے نہیں رہے گی، پھر حشر کا دن چلے گا اور بعضوں کا خیال ہے، جن میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی بھی شامل ہیں کہ اسی ’’غیر الارض‘‘ کی ماہیت ایسے بدل دی جائے گی کہ یہیں پر جنت بسے گی اور پھر یہ سیارہ ہمیشہ رہے گا۔ واللہ وعلم__ پرانے مفسرین میں سے بعض کا خیال ہے کہ آدم و حوّا کی پیدائش جس جنت میں ہوئی تھی،وہ اسی کرہ ارض کے علاقے ’’شمالی یمن‘‘ میں تھی۔ یہیں سے ہبوط آدم ہوا جس کے بعد یہ جنت نابود کر دی گئی اور حضرت آدم و حوّا حجاز میں داخل ہوئے جہاںانہوں نے خدا کا پہلا گھر بنایا جس کی تعمیر نو حضرت ابراہیم نے کی۔ بہرحال، اصل کا علم صرف خدا کو ہے۔
______________