جمعة المبارک، 2 رمضان المبارک ، 1444ھ، 24 مارچ 2023ئ

رات گئے رمضان المبارک کا چاند نظر آنے کا اعلان
پہلے تو عیدالفطر یعنی میٹھی عید جسے عام لوگ چھوٹی عید کہتے ہیں کے چاند کے مسئلے پر اختلافات کی بدولت ہمارے ہاں چاند کے اعلان میں تاخیر ہوتی تھی۔اوردو یا تین عید ہوتی تھیں۔ کئی مرتبہ لوگوں نے رات گئے 11 بجے کے قریب چاند نظر نہ آنے کے اعلان پر مساجد کا رخ کیا اور تراویح ادا کی۔ اسی طرح کئی مرتبہ رات دیر سے اعلان کے بعد 12 بجے کے قریب مساجد میں جا کر اعتکاف کے لیے بیٹھے اپنے گھروالوں کو مبارک دیتے ہوئے گھر لائے۔ مگر اس بار شاید مولانا پوپلزئی کے خوف سے یا ملک بھر میں ایک ہی روز تاخیر سے سہی مگر ملک میں رمضان کا چاند نظر آنے کا اعلان کر دیا گیا۔ خدا کرے اس چاند کی طرح شوال کا چاند بھی باہمی حسن اتفاق سے نظر آئے اور پورے ملک میں عیدالفطر ایک ہی روز میں منا کر مسلمان اتحاد و اتفاق کا خوبصورت نظارہ پیش کریں۔ ویسے عرصہ دراز سے لوگ کہہ رہے ہیں سعودی عرب و دیگر مسلم ممالک کی طرح سالانہ قمری کیلنڈر جدید سائنسی بنیادوں پر جاری کر کے ہماری رویت ہلال کمیٹی کو اس بھاری ذمہ داری سے سبکدوش کیا جائے کیونکہ چاروں صوبوں میں ان کے اجلاس پر دروغ بر گردن راوی کروڑوں روپے کے اخراجات اٹھتے ہیں۔ اس سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔ جن بزرگوں کو سامنے والے شخص کی پہچان مشکل سے ہوتی ہے انہیں بھلا دوربین لگا کر دور آسمان پر باریک سا چاند کہاں نظر آئے گا۔ اب تو وہ دور بھی نہیں رہا جب گھر والے خاص طور پر نوجوان چھتوں پر چڑھ کر اپنا اپنا چاند تلاش کرتے تھے اور جھک کر اسے سلام پیش کرتے تھے۔ لوگوں کو بھی چھت پر جا کر چاند دیکھنے میں دلچسپی نہیں رہی۔ سرکاری طور پر چاند دیکھنے کا اعلان کر کے حکومت پورے ملک میں ایک ہی روز رمضان اور ایک ہی روز عید کا اعلان کر کے عوام کو پریشانی سے بچا سکتی ہے جو پہلے ہی حیران ہیں کہ پہلے پورے ملک میں چاند کہیں نظر آیا پھر اچانک 10 بجے پورے ملک سے شہادتیں ملیں کہ چاند نظر آ گیا۔ یہ کیسے ہوا خدا جانے۔
٭٭٭٭٭
اعجاز الحق بھی پی ٹی آئی میں شامل
ویسے یہ ہے بڑے کمال کی بات ایوب خان، اختر عبدالرحمن سے لے کر ضیاءالحق تک کئی دوسرے عسکری افسران کے بچے اس وقت پی ٹی آئی کی چھتری تلے کہہ لیں یا عمران خان کے پروں تلے جمع ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود خان صاحب اور ان کی پارٹی کے ادنیٰ سے اعلیٰ تک کیا عہدیدار کیا کارکن صرف یہی نہیں عام حمایتی بھی ان کے فوج کے حوالے سے متضاد پالیسیوں اور بیانات کی حمایت میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے اور پھیپھڑے پھاڑ پھاڑ اس ادارے کے خلاف پراپیگنڈہ کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر غور سے دیکھا جائے تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو نواز شریف کے علاوہ عمران خان کو بھی مقبولیت کے عروج پر لے جانے والے سابق صدر جنرل (ر) ضیاءالحق ہی تھے۔ دونوں کو انہوں نے نہایت چاہت کے ساتھ شو پیس بنا کر عوام کے سامنے لایا۔ حیرت کی بات دیکھیں دونوں نے فلاحی اور سیاسی میدان میں خود کو منوایا اور دونوں کا اپنے مربی ادارہ کے حوالے سے منفی بیانیہ ان کیلئے مشکلات کا باعث بنا۔ بہرحال اس وقت بڑے نامور ریٹائرڈ فوجی افسران کے نوجوان اور اڈھیڑ عمر بچے بڑے ہنسی خوشی پی ٹی آئی میں شامل ہو رہے ہیں۔ اعجاز الحق کے چہرے سے دیکھ لیں خوشی ٹپک رہی ہے لیکن بہت دیر کی مہرباں آتے آتے۔ ان کی یک رکنی جماعت سے پہلے ہی ق لیگ کی سائیکل نہیں تانگہ پارٹی اول تا آخر پی ٹی آئی میں ضم ہو گئی ہے۔ اب اعجاز الحق کی وہ آﺅ بھگت کہاں ہو گی جو پرویز الٰہی کی صدر پی ٹی آئی بنا کر ہو چکی ہے۔ اب لے دے کر شیخ رشید تنہا رہ گئے ہیں جو باہر تو عمران خان پر فدا ہوتے نظر آتے ہیں مگر اندر خانے جا کر لانے والوں سے کہتے پھرتے تھے کہ کچھ کرو خان سے حکومت نہیں سنبھالی جاتی۔ بہرحال وہ کب شامل ہوتے معلوم نہیں اس طرح کم از کم سیاسی میدان سے دو یا تین مسلم لیگی پخ لگانے والی جاعتیں ختم ہونے سے مسلم لیگ (نون) والوں کو سکون مل رہا ہو گا....
٭٭٭٭٭
زلمے خلیل زاد کو پاکستانی سیاست کے بعد معیشت کا غم ستانے لگا۔
آج کل افغانستان کے لیے سابق امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد کو پاکستان کے حوالے سے بہت تشویش ہے خدا جانے اس تشویش میں امریکہ کا بھی کچھ لینا دینا ہے یا نہیں۔ مگر جس طرح پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اور امریکہ میں پی ٹی آئی کے سرکردہ رہنما امریکی ایوان نمائندگان کے نمائندوں سے رابطے کر رہے ہیں اور وہ پاکستان کی سیاسی صورتحال اور عمران خان پر کیسز کے حوالے سے اپنی تشویش ظاہر کر رہے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔
زلمے خلیل زاد نے پہلے پاکستان میں سیاسی انتشار کے حوالے سے بیان دیا جس پر دفتر خارجہ نے شٹ اپ کی کال دی مگر لگتا ہے زلمے خلیل زاد کی تسلی نہیں ہوئی۔ اب اس نے عمران خان پر مقدمات ان کے گھر پر اور پیشی کے جلوس پر پولیس تشدد کی مذمت کی آڑ میں پاکستان کی معاشی بدحالی کا رونا رویا ہے وہ خاصہ تعجب خیز ہے۔ اول تو افغان ہونے کے ناطے انہیں پاکستان س ے زیادہ اپنے ملک کی فکر کرنی چاہیے جہاں کے معاشی حالات پاکستان سے کئی گنا زیادہ ابتر ہیں اور20 لاکھ سے زیادہ ان کے ہم وطن پاکستان کی معیشت پر مسلسل بوجھ ہیں۔ دوسری بات یہ کہ عمران خان پاکستان کے صف اول کے مقبول ترین رہنما ہیں۔ انہیں ایک تیسرے درجے کے غیر ملکی ایجنٹ کی حمایت کی کوئی ضرورت نہیں۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ ملکی مفادات کا تقاضہ ہے کہ عمران خان خود یا ان کی پارٹی زلمے خلیل زاد کے ا±لٹے سیدھے بیانات سے برات کا اظہار کریں۔ ورنہ مخالفین کا کیا وہ تو کہتے پھر رہے ہیں کہ عمران خان پہلے امریکہ پر الزام لگاتا تھا کہ اس نے ان کی حکومت کا تختہ ا±لٹا ہے اب امریکہ سے کہتا پھرتا ہے کہ میں آپ کا دوست ہوں مجھے دوبارہ حکومت میں لائیں۔
٭٭٭٭٭
پارلیمنٹ میں چاچا رحمتے کے خلاف ان کے پوسٹر اٹھائے احتجاج
ہماری پارلیمنٹ میں زندہ باد، مردہ باد کے نعرے لگانے کے ساتھ مخالفین کے خلاف پوسٹرز لہرانے کا ریکارڈ بھی خاصہ پرانا ہے۔ مخالفین کی تصاویر والے پوسٹر لہرا کر ان کے نعرے بازی بھی ہوتی رہی ہے۔ اسمبلی کے اسپیکرز نے ہمیشہ اس رویے کے خلاف آواز بلند کی مگر نقارخانے میں طوطے کی کون سنتا ہے۔ اسمبلی ہال میں اگر 30 یا 40 ارکان اسمبلی ہی بیک وقت شور مچائیں تو کارروائی اطمینان سے چلانی سپیکر اسمبلی کے لیے ممکن نہیں رہتی۔ گزشتہ روز بھی ہماری قومی اسمبلی میں ہمارے سابق قاضی القضا ثاقب نثار المعروف و المشہور چاچا رحمتے کی تصاویر اٹھا کر کئی ارکان اسمبلی نے ان کے خلاف احتجاج کیا یا یوں کہہ لیں شور مچا کر اسمبلی ہال کو سر پر اٹھا لیا۔ اس پر سپیکر بار بار پوسٹر لہرانے اور شور مچانے سے منع کرتے رہے۔ مگر یہ سلسلہ رکا نہیں۔ ثاقب نثار کے کئی فیصلوں اور باتوں سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ مگر جس طرح انہوں نے عدل کی کرسی پر بیٹھ کر دوسروں کو طرح طرح کے منفی ناموں سے پکارا ان کے خلاف محاذ بنایا اس پر آج تک انہیں باتیں سننا پڑ رہی ہیں۔
اوپر سے جابجا چاچا خوامخواہ بنتے ہوئے عدالتی کام کاج چھوڑ کر وہ جس طرح اِدھر ا±دھر چیکنگ یا معائنے کے لیے نکل پڑتے تھے اس پر بھی انگلیاں اٹھتی آئی ہیں۔ سب سے بڑھ کر دیامیر بھاشا ڈیم کے لیے جو چندہ یا فنڈ جمع ہوا اس کا کیا بنا اس بارے میں بھی ملک کے بڑے غم خوار سے پوچھا جاتا رہا ہے۔ پہلے وہ ملک سے باہر غالباً ریٹائرمنٹ کے بعد آرام کے لیے گئے تھے۔ اب واپس آئے ہیں مگر خاموش ہیں۔ اصل باتوں کا جواب دینے کی بجائے ال±ٹا اپنے مدوح کی صداقت اور دیانت پر بھی سوالیہ نشان چھوڑ گئے ہیں۔ پی ٹی آئی والے تو خاموش ہیں مگر مسلم لیگ (نون) والے ابھی تک کسی نہ کسی انداز میں شور مچاتے رہتے ہیں۔ یہی گزشتہ روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ہوا۔
٭٭٭٭٭