پنجاب اسمبلی کے انتخابات کا التواءاور آئینی بحران کا خدشہ
پاکستان الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کیلئے آئندہ ماہ 30 اپریل کی متعینہ تاریخ میں تبدیلی عمل میں لاتے ہوئے یہ انتخابات اب 8 اکتوبر کو کرانے کا اعلان کیا ہے جس کا شیڈول بھی ازسرنو جاری کیا جائیگا۔ اس سلسلہ میں الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ 30 اپریل کے انتخاب کیلئے جاری کردہ شیڈول واپس لے لیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے صدر مملکت کو بھی پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی نئی تاریخ سے آگاہ کر دیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے اپنے حکمنامہ میں کہا کہ آئین کے تحت حاصل اختیارات کو بروئے کار لاکر انتخابی شیڈول واپس لیا گیا ہے کیونکہ اس وقت فی پولنگ سٹیشن‘ الیکشن کمیشن کو اوسطاً صرف ایک سکیورٹی اہلکار دسیتاب ہے جبکہ پولیس اہلکاروں کی بڑے پیمانے پر کمی اور ”اسٹیک فورس“ کے طور پر فوجی اہلکاروں کی عدم فراہمی کی وجہ سے الیکشن ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ موجودہ صورتحال میں الیکشن کمیشن انتخابی مواد‘ پولنگ کے عملے‘ ووٹرز اور امیدواروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے متبادل انتظام کرنے سے قاصر ہے۔ صرف فوج اور رینجرز کی تعیناتی سے ہی یہ کمی پوری ہو سکتی ہے جس کیلئے وفاقی وزارت داخلہ نے معذرت کرلی ہے جس کے بقول فوج سرحدوں اور اندرونی سکیورٹی‘ اہم تنصیبات کے تحفظ اور غیرملکی باشندوں کی سکیورٹی پر مامور ہے اور وفاقی وزارت داخلہ کے بقول سیاسی رہنماءدہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر ہیں جنہیں الیکشن مہم کے دوران نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ ملک میں مالی اور معاشی بحران ہے اور آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کا ایشو بھی درپیش ہے۔ اس لئے حکومت کیلئے خیبر پی کے اور پنجاب اسمبلی کے انتخابات کیلئے فنڈز جاری کرنا مشکل ہوگا۔ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ حکمنامہ میں باور کرایا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی کوششوں کے باوجود ایگزیکٹو اتھارٹیز اور وفاقی اور صوبائی حکومتیں پنجاب میں آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد میں انتخابی ادارے کے ساتھ تعاون کرنے کے قابل نہیں تھیں۔ اسی طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں اور وفاقی وزارتوں کی بریفنگ میں انتخابی مہم کے دوران امن و امان قائم نہ ہو پانے کا خدشہ ظاہر کیا گیا اس لئے الیکشن کمیشن تین روز تک جاری رہنے والے اپنے اجلاس میں اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اس تمام صورتحال میں انتخابات کا شفاف‘ منصفانہ اور آئین و قانون کے مطابق انعقاد ممکن نہیں۔
گورنر خیبر پی کے کی جانب سے بھی الیکشن کمیشن کو بھجوائے گئے ایک مراسلے کے ذریعے اس صوبے میں بالخصوص امن و امان کی خراب صورتحال اور دہشت گردی کی جاری وارداتوں کے تناظر میں شیڈول کے مطابق انتخابات کے انعقاد سے معذوری ظاہر کی جاچکی ہے جبکہ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کے بقول باربار کے انتخابی اخراجات اور امن و امان کی خراب صورتحال سے بچنے کیلئے تمام اسمبلیوں کے ایک ہی دن انتخابات ہونے چاہئیں۔ یقیناً اسی سوچ کے ماتحت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس اور حکمران اتحادی جماعتوں کے قائدین کی باہمی مشاورت کے نتیجہ میں پنجاب اور خیبر پی کے اسمبلیوں کے انتخابات مو¿خر کرنے اور ایک ہی دن عام انتخابات کرانے کی سوچ پر اتفاق کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو اس سے آگاہ کیا گیا۔ اب غالب امکان یہی ہے کہ آٹھ اکتوبر کو ہی قومی اور تمام صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہونگے۔ الیکشن کمیشن نے بھی اسی تناظر میں پنجاب کی موجودہ نگران حکومت کے 8 اکتوبر تک برقرار رہنے کا عندیہ دیا ہے اور یقیناً یہی فیصلہ خیبر پی کے کی نگران حکومت کے بارے میں بھی کیا جائیگا۔
پنجاب اور خیبر پی کے اسمبلیوں کے انتخابات ملتوی کرانے کیلئے وفاقی حکومت اور متعلقہ انتظامی اداروں کی جانب سے الیکشن کمیشن کے سامنے جو جواز پیش کیا گیا وہ ملک کے معروضی حالات کے تناظر میں بادی النظر میں درست بھی ہوگا تاہم آئین کا تقاضا یہی ہے کہ کسی صوبائی اسمبلی کے وزیراعلیٰ کی ایڈوائس اور گورنر کے ہاتھوں تحلیل ہونے کے بعد 90 روز کے اندر اندر اس اسمبلی کے انتخابات کرائے جائیں گے۔ اس معاملہ میں پہلے بھی چیف جسٹس سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کیس اور فریقین کی درخواستوں پر عدالت عظمیٰ کے 9 اور پھر پانچ رکنی بنچ کے روبرو مفصل سماعت ہو چکی ہے اور فاضل بنچ تین دو کی اکثریت کے ساتھ 90 دن کے اندر اندر متعلقہ اسمبلیوں کے انتخابات کرانے کا حکم صادر کر چکا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلہ میں صرف یہ گنجائش رکھی گئی کہ اگر مقررہ تاریخ پر انتخابات کا انعقاد ممکن نہ ہو تو باہمی مشاورت سے 90 دن کے دوران ہی کوئی نئی تاریخ مقرر کی جاسکتی ہے۔ اب حکومت کی سفارشات کی بنیاد پر الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کیلئے 8 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی ہے تو اس سے آئین کی پاسداری کا سوال تو لازمی اٹھے گا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اس پر فوری ردعمل ظاہر کرتے ہوئے یہ اعلان بھی کر دیا ہے کہ انتخابات کے التواءکیلئے دہشت گردوں کو ڈھال بنانے کی اجازت نہیں دی جائیگی تاہم انہوں نے جس یقین کے ساتھ اپنے قتل کی مبینہ سازش کو آشکار کیا وہ ملک میں دہشت گردی کی بنیاد پر امن و امان کی خراب ہونیوالی صورتحال کی ہی عکاسی کرتی ہے۔
اس وقت سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ 90 دن کے اندر انتخابات کے دوٹوک آئینی تقاضے کے برعکس حکومت ایک ہی دن تمام اسمبلیوں کے عام انتخابات کی جانب جانا چاہتی ہے تو اس پر آئین کی شارح سپریم کورٹ کو کیسے مطمئن کیا جائیگا۔ اس معاملہ میں بیرسٹر اعتزاز احسن نے سپریم کورٹ سے ہی یہ توقع وابستہ کی ہے کہ وہ آئینی تقاضے سے کسی صورت انحراف نہیں ہونے دیگی جبکہ چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطاءبندیال نے سابق سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کے تبادلے کے حوالے سے دائر درخواست کی سماعت کے دوران گزشتہ روز یہ باور کرایا کہ عدالت انتخابات کی شفافیت میں بدنیتی پر مداخلت کریگی۔ فاضل چیف جسٹس کے ان ریمارکس پر وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ خان کی جانب سے جو فوری ردعمل سامنے آیا ہے وہ بھی خاصا معنی خیز ہے۔ انہوں نے فاضل چیف جسٹس کے ریمارکس پر بعض سوالات بھی اٹھائے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ انتخابات کیلئے سپریم کورٹ کا فیصلہ حرف آخر نہیں جبکہ انتخابات کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کی الیکشن کمیشن ہی مجاز اتھارٹی ہے۔ اب یہ معاملہ یقیناً دوبارہ سپریم کورٹ کے روبرو پیش ہوگا۔ فاضل عدالت عظمیٰ اس پر کیا حکم اور فیصلہ صادر کرتی ہے‘ اس پر قبل ازوقت تو کسی رائے کا ہرگز اظہار نہیں کیا جا سکتا تاہم اس نئی صورتحال میں ملک میں کوئی بڑا آئینی بحران پیدا ہونے اور ادارہ جاتی ٹکراﺅ کے امکانات ضرور نظر آرہے ہیں جو بالآخر سسٹم کی بساط لپیٹنے کے حالات سازگار بنائیں گے۔ آج ملک میں سیاسی انتشار جس انتہاءدرجے تک پہنچا دیا گیا ہے اس سے سسٹم کے علاوہ ملک کی سالمیت پر بھی زد پڑ سکتی ہے کیونکہ اس وطن عزیز کے بدخواہ اندرونی اور بیرونی عناصر تو موقع کی تاک میں بیٹھے ہیں۔ اس تناظر میں فریقین اور اسٹیک ہولڈرز کو اپنی اپنی انا کا مسئلہ بنانے کے بجائے ملک و قوم کے بہترین مفاد میں قومی افہام و تفہیم کی راہ پر آنا ہوگا۔ آئین پاکستان میں کسی مخصوص معاملہ میں کسی قسم کا ابہام نظر آئے تو پارلیمنٹ متعلقہ آئینی شق میں ترمیم کی مجاز ہے جبکہ آئین کے شارح کی حیثیت سے سپریم کورٹ کوئی قابل عمل حل نکال سکتی ہے جیسا کہ فاضل عدالت عظمیٰ ماضی قریب میں بعض آئینی گتھیاں سلجھا بھی چکی ہے۔ اگر حکومت اور الیکشن کمیشن آٹھ اکتوبر کو عام انتخابات پر متفق اور اس کیلئے امن و امان کی صورتحال پر مطمئن ہوں تو سسٹم کے تسلسل و استحکام کی خاطر ادارہ جاتی افہام و تفہیم کیساتھ اس پر قومی اتفاق کیا جاسکتا ہے۔ اگر موجودہ صورتحال میں کسی مفاداتی سیاست کے تابع ملک میں سیاسی عدم استحکام مزید بڑھانے کی کوشش کی گئی تو پھر ہمیں آئین کے تحت قائم سسٹم پر فاتحہ پڑھ لینی چاہیے۔