قیام پاکستان کے بعد شعراء نے جن شاندار الفاظ میں وطن سے محبت کا اظہار کیا ہے اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ ان جذبات کا کوئی نعم البدل نہیں، ان جذبات کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ یہ الفاظ آج بھی سننے والوں کے سیدھا دل پر اثر کرتے ہیں۔ ہر عمر کے پاکستانیوں کی وطن سے محبت میں اضافے کا باعث بنتے ہیں، وطن کی اہمیت کا احساس دلاتے ہیں، وطن کی قدر کا سبق دیتے ہیں، آزادی جیسی انمول نعمت کا شکر ادا کرنے کا درس دیتے ہیں۔ یقیناً شعرا نے اپنے اپنے انداز میں قوم کی خدمت کی ہے، قوم کی رہنمائی کی ہے، وطن سے محبت کے جذبے کو ابھارا ہے، وطن کی قدر پیغام دیا ہے۔ یوم پاکستان پر اپنے عظیم شعراء کو یاد نہ کرنا ناانصافی ہو گی۔ ویسے اس تاریخی دن کے موقع پر ہمیں یہ بھی سوچنا ہو گا کہ جن لوگوں نے تحریک پاکستان کے دوران قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے کیا وہ ہمارے ہیروز نہیں ہیں یا وہ جو نمایاں نہیں ہو سکے لیکن بہت کام کر گئے کیا وہ ہمارے ہیروز نہیں۔ درحقیقت آزادی کے اس سفر میں کام کرنے والا ہر شخص ہمارا ہیرو ہے۔ لندن سے کل کے سائرن کا جواب دیتے ہوئے چودھری اقبال الدین احمد لکھتے ہیں"جناب چودھری محمد اکرم صاحب ،حال ساکن لاہور چھاؤنی ،آباؤ اجداد سکنہ مکوڑی،روپڑ، مشرقی پنجاب،ایسے جو ‘‘بن کے رہیگا پاکستان ‘‘ کا صرف نعرہ لگانے والے ہی نہیں تھے بلکہ اس کے لئے اپنی جانوں کا اور جائیدادوں کانظرانہ پیش کرنے والوں کے فرزند ارجمند! محترم ، نہایت اعلیٰ مضمون اللہ آپ کو جزائے خیر عطاء کرے۔لیکن28’جنوری 1933، بروز عید الفطر، سے لیکر1940 تک ‘موہر’ گاؤں کے رہنے والے چودھری رحمت علی کی معیت میں طلباء نے مسلسل سات سال جو محنت کا ذکر بھی ہو جائے تو کیا ہی اچھا ہو۔ ذرا سوچیں28’جنوری1933’بروز عید الفطر کے بعد سے سات سال رحمت علی کی مسلسل کوششوں کے بعد لاہور کا یہ ریزولیوشن،اس کے سات سال بعد ‘پاکستان’ معرض وجود میں آیا، اس کے لئے سات لاکھ پنجابی مسلمانوں نے صرف ساڑھے تین ماہ میں اپنی جانوں کی قربانی دی،70000’پنجابی ماؤں بہنوں نے عصمتوں کہ قربانی دی۔ اللہ نے سات آسمان بنائے، عمرہ کرتے وقت خانہ کعبہ کے گرد سات چکر لگائے جاتے ہیں۔ اسلامی اعتبار سے بھی کتنی مناسبت ہے۔ اللہ اس ملک کو تاقیامت قائم و دائم رکھے"۔
اب سب سے پہلے عظیم شاعر احمد ندیم قاسمی کا کلام پیش خدمت ہے۔
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اْگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو
خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو
ہر ایک خود ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو
یہاں قاسمی صاحب کی وطن سے محبت، اس ملک میں رہنے والوں کے لیے جذبات ایسے ہیں کہ ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس کی بات ہو رہی ہے۔ اتنے پر اثر اشعار، اتنی لگن، اتنی محبت یہی ہمارا اثاثہ ہے۔ آج بھی یہ اشعار وطن سے محبت کو بڑھانے کا ذریعہ ہیں اللہ ہمیں اس ملک کی ترقی کے لیے کام کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
فیض احمد فیض کا اپنا منفرد انداز ہے، وہ آزادی کو محسوس کرتے ہوئے کیا لکھتے ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ وہ ہمارے ماتھے کا جھومر اور روشن چہرہ ہیں۔ پیش خدمت ہے فیض احمد فیض کا کلام
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہوگا شب سست موج کا ساحل
کہیں تو جا کے رکے گا سفینہء غم دل
جواں لہو کی پر اسرار شاہراہوں سے
چلے جو یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑے
دیار حسن کی بے صبر خواب گاہوں سے
پکارتی رہیں باہیں بدن بلاتے رہے
بہت عزیز تھی لیکن رخ سحر کی لگن
بہت قریں تھا حسینان نور کا دامن
سبک سبک تھی تمنا دبی دبی تھی تھکن
سنا ہے ہو بھی چکا ہے فراق ظلمت و نور
سنا ہے ہو بھی چکا ہے وصال منزل و گام
بدل چکا ہے بہت اہل درد کا دستور
نشاط وصل حلال و عذاب ہجر حرام
جگر کی آگ نظر کی امنگ دل کی جلن
کسی پہ چارئہ ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں
کہاں سے آئی نگار صبا کدھر کو گئی
ابھی چراغ سر رہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانی شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
پیش خدمت ہے نامور شاعر افتخار عارف کا کلام
یہ روشنی کے تعاقب میں بھاگتا ہوا دن
جو تھک گیا ہے تو اب اس کو مختصر کر دے
میں زندگی کی دعا مانگنے لگا ہوں بہت
جو ہو سکے تو دعاؤں کو بے اثر کر دے
ستارئہ سحری ڈوبنے کو آیا ہے
ذرا کوئی مرے سورج کو با خبر کر دے
قبیلہ وار کمانیں کڑکنے والی ہیں
مرے لہو کی گواہی مجھے نڈر کر دے
میں اپنے خواب سے کٹ کر جیوں تو میرا خدا
اجاڑ دے مری مٹی کو در بدر کر دے
مری زمین مرا آخری حوالہ ہے
سو میں رہوں نہ رہوں اس کو بارور کر دے
میری زمین میرا آخری حوالہ ہے یہ الفاظ ہر پاکستانی کے لیے ایک سبق اور پیغام ہے آج ہم دنیا میں جہاں بھی جائیں ہمارا پہلا اور آخری حوالہ ہمارا ملک ہے، سبز ہلالی پرچم ہے، گرین پاسپورٹ ہے۔ اللہ ہمیں اس پرچم کو سربلند رکھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ یہ پرچم کروڑوں مسلمانوں کی امنگوں کا ترجمان ہے، یہ پرچم بزرگوں کی خون اور ان کی قربانیوں کا امین ہے، یہ پرچم ہمیں بزرگوں کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔
شاعر عوام، شاعر انقلاب حبیب جالب کا اپنا ایک انداز ہے، وہ عمر بھر لوگوں کو جگاتے رہے، حکمرانوں کی نیندیں حرام کرتے رہے۔ ان کی انقلابی شاعری ہمارا سرمایہ ہے۔ پیش خدمت ہے شاعر عوام کا کلام۔
سلام اے دل فگار لوگو
سلام اے اشک بار لوگو
تمہی نے اپنا وطن بچایا
تمہی نے باطل کا سر جھکایا
بجھا کے شمع حیات اپنی
وفا کی راہوں کو جگمگایا
مگر یہ دل رو کے کہہ رہا ہے
لہو تمہارا نہ رنگ لایا
وہی ہے شب کا حصار لوگو
سلام اے اشک بار لوگو
گلوں کی وادی لہو لہو ہے
فغاں کی آواز چار سو ہے
ہیں اس قدر تشنہ کام میکش
ہر ایک لب پر سبو سبو ہے
نشان منزل ہے کھویا کھویا
لٹا لٹا شہر آرزو ہے
بجھے بجھے ہیں دیار لوگو
سلام اے اشک بار لوگو
تمہارے دم سے ہری زمینیں
خوشی سے دامن بھری مشینیں
ہیں اس کے با وصف بھیگی بھیگی
تمہاری اشکوں سے آستینیں
میں سوچتا ہوں رہیں گی کب تک
ستم کے آگے جھکی جبینیں
اٹھاؤ سر سوگوار لوگو
سلام اے اشک بار لوگو
حفیظ تائب کا کلام پیش خدمت ہے، بابا جی کمال شخصیت تھے۔
عدل و احساں سے مرتب ہو نظام ہستی
پیروی ختم رسل کی ہو ہمارا معمول
سارے افراد ہوں تزئین چمن میں شامل
سب پہ روشن ہو مساوات و محبت کے اصول
ایک آشوب ہے بس نصف صدی کا قصہ!
شہر افروزی کی جانب ہوں نگاہیں مبذول
دیکھیں صد بار یہاں لوگ بہار اسلام
اے خدا اب تو ہوں تائب کی دعائیں مقبول
23 مارچ ہمیں ایک مرتبہ پھر سبق دے گیا ہے کاش ہم اپنی بنیاد پر واپس آئیں اور ملک و قوم کی خدمت کے جذبے کو عام کریں۔