مکرمی!یہ بیماری آج سے 18 سال پہلے یعنی 2002 میں چائنہ میں آئی تھی۔ آج جس طرح ہم سب کو معلوم ہے۔ کہ جنوری 2020 میں کوریا میں ایک شخص کرونا وائرس کا شکار ہوا تھا۔ جس کے بعد دن بہ دن دنیا کے بیشتر ممالک میں یہ بیماری پھیل گئی۔ بلکہ آج پوری دنیا اس عدم علاج بیماری کے لپیٹ میں ہے۔ اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں دنیا کی عظیم طاقتوں نے تقریباً دو 2 ماہ اس بیماری کے حل میں لگا لئے۔ اس بیماری کے احتیاطی تدابیر میں پہلے نمبر پر ایک انسان کو دوسرے انسان سے دور رہنا چاہیئے۔ اور اگر ضرورت کے مطابق ایک دوسرے سے ملنا ہو تو فیس ماسک ماسک اور گلوز کا استعمال ضرور کرنا ہے۔ اس کے علاوہ ہینڈ سینیٹائزر سے ہر دو تین گھنٹے بعد ہاتھ دھونا لازم سمجھا گیا۔ پاکستانی سرجیکل کاروباری لوگوں نے یہ سن کر اپنے اپنے گوداموں کو تالے لگا کر بند کردئے۔ اور ذخیرہ اندوزی کی چکر میں پڑ گئے۔ یکم جنوری کو فیس ماسک کا ایک ڈبہ 80 روپے کا تھا۔ جبکہ کچھ دنوں بعد فیس ماسک کا ایک ڈبہ 2600 روپے تک جا پہنچا ہے۔ اور اب یہی کھیل گلوز اور سینیٹائزر پر کھیلا جاتا ہے۔ حکومت وقت سے یہ شکایت کررہا ہوں۔ کہ کرونا وائرس سے بچنے کیلئے عملی اقدامات کر کے ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔ اور عوام کو اس بیماری سے نجات دلانے کیلئے سینی ٹائزرز ماسک اور دستانے وغیرہ جیسی سہولیات مہیا کرے۔( رشید انور …شہر قائد کراچی)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38