مہاراج ! آپ خلوص کے ساتھ ایک قدم بڑھائیں‘ ہم دو قدم آگے بڑھیں گے
یوم پاکستان پر مودی کا پرامن اور خوشحال جمہوری خطے کیلئے مل کر کام کرنے کا پیغام اور اصل حقائق
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے یوم پاکستان پر وزیراعظم عمران خان کو اپنا پیغام ٹویٹ کیا ہے جس میں انکی جانب سے پاکستان کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ پرامن جمہوری خطے کیلئے ہمیں مل کر کام کرنا چاہیے۔ پیغام میں کہا گیا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ برصغیر کے عوام ایک جمہوری‘ پرامن‘ ترقی پسند اور خوشحال ترقی یافتہ خطے کے قیام کیلئے مل کر کام کریں۔ اس سلسلہ میں ایسا ماحول بنایا جائے جو دہشت گردی اور تشدد سے پاک ہو۔ وزیراعظم عمران خان نے مودی کے نیک خواہشات کے پیغام کا اپنی اور پاکستان کے عوام کی جانب سے خیرمقدم کیا اور کہا کہ اس وقت ہم یوم پاکستان منا رہے ہیں‘ اب وقت آگیا ہے کہ مسئلہ کشمیر سمیت تمام تنازعات کے حل کیلئے جامع مذاکرات ہوں۔ انہوں نے اپنے جوابی پیغام میں کہا کہ بات چیت میں دونوں ممالک کے مابین نئے تعلقات کی بنیاد رکھنی چاہیے اور یہ بنیاد ہمارے عوام کی امن و خوشحالی پر استوار ہونی چاہیے۔ دریں اثناء وزیراعظم عمران خان نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے ماتحت قیادت اور قومی سلامتی کے معاملہ پر منعقدہ عالمی ورکشاپ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان خطے میں پائیدار امن چاہتا ہے جو علاقائی عوام کی سماجی اور معاشی ترقی کیلئے ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملکی ترقی کے وسیع امکانات ہیں۔ انکے بقول خطے میں اہم مسئلہ غربت ہے جس سے عہدہ برأ ہونے کیلئے مشترکہ کاوشوں کی ضرورت ہے۔ ہم خطے میں تجارتی و اقتصادی سرگرمیوں کا فروغ چاہتے ہیں۔
بلاشبہ امن‘ ترقی اور خوشحالی اس خطہ کے عوام کی ضرورت ہے جس کیلئے خطے کے تمام ممالک یکسو ہوں اور ہر فیلڈ میں باہمی تعاون کو فروغ دینے کے حالات سازگار بنائے رکھیں تو امن‘ ترقی اور خوشحالی کی منزل آج بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اگر نریندر مودی اور دوسری بھارتی لیڈر شپ خطے کی ترقی و خوشحالی کیلئے فی الواقع فکرمند اور مخلص ہو تو وہ شملہ معاہدہ کی روشنی میں پاکستان کے ساتھ کشمیر سمیت تمام تنازعات باہمی مذاکرات کے ذریعے خوش اسلوبی سے طے کرکے دونوں ممالک کے عوام کو خوشحالی اور امن و آشتی کی منزل سے ہمکنار کر سکتی ہے۔ پاکستان نے تو اس معاملہ میں بھارت کے ساتھ ہمیشہ نیک خواہشات کا ہی اظہار کیا ہے اور دوطرفہ مذاکرات سمیت کسی بھی علاقائی اور عالمی فورم پر باہمی تنازعات کے حل کیلئے ہمیشہ آمادہ رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ تقسیم ہند کے موقع پر بھارتی لیڈران نے ایک آزاد اور خودمختار مملکت کی حیثیت سے پاکستان کی تشکیل خوشدلی سے قبول کرلی ہوتی اور تقسیم ہند کے فارمولہ کے مطابق مسلم اکثریتی آبادی ہونے کے ناطے خودمختار ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی راہیں مسدود نہ کی ہوتیں تو پاکستان اور بھارت کے مابین کسی قسم کے اختلافات کی گنجائش نہ نکل پاتی اور انگریز سامراج سے آزادی کے بعد اس خطے کے عوام کی خوشحالی اور اقتصادی استحکام کی منزل حاصل کرکے یہ دونوں ممالک آج سے سات دہائی قبل ہی خود کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرچکے ہوتے مگر امن کے ساتھ رہنا اور اس ناطے سے پورے خطے کو امن و خوشحالی کی منزل سے ہمکنار ہوتے دیکھنا اکھنڈ بھارت کا ایجنڈا رکھنے والے ہندو لیڈران کی سرشت میں ہی شامل نہیں تھا چنانچہ انہوں نے پاکستان کو ایک آزاد اور خودمختار مملکت کی حیثیت سے خوشدلی سے قبول نہ کرکے اور اپنے توسیع پسندانہ مقاصد کی تکمیل کی خاطر کشمیر کا تنازعہ کھڑا کرکے علاقائی امن کو تاراج کرنے کیلئے خود ہی راستہ ہموار کیا اور پھر کشمیریوں کے استصواب کے حق کو تسلیم کرنیوالی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے برعکس کشمیر پر اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی اختیار کرکے پاکستان کے ساتھ دشمنی بڑھانے کا راستہ بھی نکال لیا۔
یہ افسوسناک صورتحال ہے کہ بھارت کی ہر حکومت پاکستان کے ساتھ دشمنی بڑھانے کی پالیسی پر ہی کاربند رہی ہے اور اس مقصد کے تحت ہی کانگرس آئی اور بی جے پی سمیت ہر بھارتی سیاسی جماعت اور اسکے لیڈران نے پاکستان کے ساتھ دشمنی بڑھانے کے منشور کو حصول اقتدار کی سیڑھی بنالیا جس میں پاکستان پر جنگیں مسلط کرنے سے بھی گریز نہ کیا گیا۔ اس ایجنڈے کے تحت ہی پاکستان کو 1971ء کی جنگ میں سانحۂ سقوط ڈھاکہ سے دوچار کیا گیا اور پھر باقیماندہ پاکستان کی سلامتی بھی تاراج کرنے کیلئے سازشیں شروع کر دی گئیں۔ ان بھارتی سازشوں کا سلسلہ مودی کی جانب سے گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان کو پاکستان کے عوام کیلئے نیک خواہشات کا پیغام پہنچانے تک جاری تھا اور انکے یہ پیغام ٹویٹ کرتے وقت بھی مقبوضہ کشمیر میں مظالم کی انتہاء کرنیوالی بھارتی فوجوں کی فائرنگ سے ایک معصوم بچے سمیت مزید چار کشمیری شہید ہوچکے تھے اور حریت لیڈر یٰسین ملک کی پارٹی پر پابندی عائد کرکے آل پارٹیز حریت کانفرنس کے سربراہ میرواعظ عمر فاروق کو دوبارہ نظربند کیا جاچکا تھا۔ اس ٹویٹر پیغام سے چند روز قبل تک مودی سرکار کی جانب سے بھڑکائے گئے جنگی جنون کے باعث صرف پاکستان ہی نہیں‘ اس پورے خطے اور اقوام عالم تک کے امن و سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہوچکے تھے جبکہ پاکستان کی سلامتی کو کھلم کھلا چیلنج کرتے ہوئے مودی سرکار ہذیانی کیفیت کا شکار نظر آتی تھی جس نے دو ممالک میں ایٹمی جنگ کے ممکنہ نتائج کی بھی پرواہ نہ کرتے ہوئے پاکستان کی فضا ئی حدود میں دراندازی کی اور اس پر پاکستان میں تباہی کے بلند بانگ دعوے کئے۔ پاک فضائیہ نے جو مودی سرکار کے جنگی عزائم کی بنیاد پر پہلے ہی دفاع وطن کیلئے مکمل تیار اور چوکس تھی‘ بھارت کی پہلے روز کی فضائی دراندازی پر اسکے جہاز واپس بھگا کر محض وارننگ دی اور جب بھارتی فضائیہ نے اگلے روز بھی پاکستان کی فضائی حدود میں دراندازی کی نیت سے اڑان بھری تو پاک فضائیہ کے مشاق دستے نے اسکے جہازوں کو فضا میں ہی اچک لیا جن میں سے دو جہاز مار گرائے گئے اور انکے پائلٹ زندہ حراست میں لے لئے گئے جبکہ امن کی خواہش ہی کا دامن تھامتے ہوئے پاکستان نے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو آزاد کرکے اسکے ملک واپس بھجوا دیا مگر بھارت کی جانب سے پاکستان کے اس جذبۂ خیرسگالی کا جواب بھی مزید گیدڑ بھبکیوں کی صورت میں دیا گیا۔
اگر قیام پاکستان سے اب تک کی پاکستان بھارت تعلقات کی تاریخ کھنگالی جائے تو وہ بھارتی گیدڑ بھبکیوں‘ بدعہدیوں اور یکطرفہ اشتعال انگیزیوں سے بھری نظر آئیگی۔ نریندر مودی چونکہ خود بھی پاکستان دشمنی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے جو سانحۂ سقوط ڈھاکہ کی نوبت لانے والی بھارتی پروردہ عسکری تنظیم مکتی باہنی کے سرگرم کارکن کی حیثیت سے باقیماندہ پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہیں اس لئے ان کا پورا عرصہ اقتدار پاکستان کے ساتھ جنگی جنون بڑھانے میں ہی گزرا ہے جبکہ اب وہ پاکستان دشمنی کا کارڈ آنیوالے بھارتی انتخابات میں کیش کرانے کیلئے ’’پاکستان کے اندر گھس کر ماریں گے‘‘ جیسی گیدڑ بھبکیاں بھی لگا چکے ہیں۔ ابھی تو وزیراعظم عمران خان کا وہ جذبہ بھی دنیا کی آنکھوں سے محو نہیں ہوا جب انہوں نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد مودی کے مبارکبادی پیغام کے جواب میں انہیں کشمیر سمیت تمام تنازعات کے حل کیلئے مذاکرات کی کھلی پیشکش کی اور پھر یواین جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر پاکستان بھارت وزراء خارجہ کی نیویارک میں باضابطہ ملاقات کی خواہش کا بھی اظہار کر دیا۔ یہ ممکنہ پاکستان بھارت مذاکرات کس نے سبوتاژ کئے‘ جنرل اسمبلی کے پلیٹ فارم پر جمع ہونیوالی عالمی قیادتیں بھی اس سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی بھارتی سکھوں کیلئے کرتارپور راہداری کھولنے کا عندیہ دے کر بھارت کے ساتھ خیرسگالی اور پرامن ماحول میں رہنے کا ہی عندیہ دیا۔ اس معاملہ میں بھی مودی سرکار کی جانب سے جو رعونت بھرا پاکستان مخالف طرز عمل اختیار کیا گیا‘ اسکی بھی پوری د نیا گواہ ہے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ جس بھارت کی جانب سے یوم پاکستان سے دو روز قبل سمجھوتہ ایکسپریس دہشت گردی کے کیس میں ایک قطعی متعصبانہ اور انتہاء پسند ہندو ریاست کی نمائندگی کرنیوالے عدالتی فیصلہ کے تحت مسلمانوں کے قاتل ہندوئوں کو بری کیا گیا‘ اسکے وزیراعظم مودی یوم پاکستان کے روز وزیراعظم پاکستان کو تشدد اور دہشت گردی سے پاک خوشحال اور پرامن‘ ترقی یافتہ خطے کے قیام کا پیغام ٹویٹ کررہے ہیں جو ریاکاری کا شاہکار ہے اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اس پر بھی مودی کو کشمیر سمیت تمام تنازعات کے حل کیلئے دوطرفہ مذاکرات کی میز پر ہی بیٹھنے کی پیشکش کی جو پاکستان کی امن کی خواہش میں اخلاص کا بین ثبوت ہے۔ اسی طرح صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی گزشتہ روز قومی پریڈ کی پروقار تقریب میں خطاب کرتے ہوئے بھارت کو امن کے ساتھ رہنے اور پاکستان کے پرامن قوم ہونے کا ہی پیغام دیا تاہم بھارتی عزائم کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ باور کرانا بھی ضروری سمجھا کہ پاکستان اپنے دفاع سے غافل ہرگز نہیں ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ قومی پریڈ کے موقع پر عساکر پاکستان کے زیراستعمال ہر قسم کے جدید‘ روایتی اور ایٹمی ہتھیاروں کی نمائش کرکے اور پاک فضائیہ کے لڑاکا طیاروں کی استعداد و مشاقی کا نظارہ کراکے بخوبی کردیا گیا ہے۔ بلاشبہ پاکستان ایک پرامن قوم ہے اور علاقائی امن و سلامتی اور ترقی و خوشحالی بھی اس کا مطمحٔ نظر ہے مگر دفاع وطن کے تقاضوں سے غافل ہرگز نہیں۔ مودی اپنے ٹویٹر پیغام کی روشنی میں جمہوری‘ پرامن‘ ترقی پسند اور خوشحال ترقی یافتہ خطے کے قیام کیلئے ایک قدم بڑھائیں گے تو اس مقصد کیلئے ہماری جانب سے انہیں بلاشبہ دو قدم بڑھتے نظر آئیں گے۔ اگر وہ اپنے روایتی ایجنڈے کے مطابق پاکستان کیخلاف جنون میں ہی مبتلا رہیں گے تو ہاتھ کنگن کو آرسی کیا‘ وہ مزید آزما کر دیکھ لیں‘ پھر ’’تمہارا نام تک بھی نہ ہوگا داستانوں میں‘‘۔