نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انصار کے خاندانِ بنونجار سے بہت محبت فرماتے تھے،آپ کے داداحضرت عبدالمطلب کی والدہ ماجدہ کا تعلق اسی خاندان سے تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمرِ عزیز جب چھ سال کی تھی توآپ کی والدہ ماجدہ ، آپ کو اوراپنی خادمہ حضرت اُمِ ایمن کو ساتھ لے کر مدینہ منورہ تشریف لائی تھیںاورکم وبیش ایک ماہ تک بنونجار کے ہاں مقیم رہی تھیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بچپن کا یہ سارا سفر ہمیشہ یاد رہا،ہجرت فرمانے کے بعد آپ نے اپنی میزبانی کا شرف بھی حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو مرحمت فرمایاجو خاندانِ بنو نجار کے رئیس تھے،اس پر بنو نجار مسرت وشادمانی سے نہال ہوگئے۔ان کی معصوم بچیاں دف بچا بچا کر یہ نغمہ الاپ رہیں تھیں،نحن جوارمن بنی النجارٍ، یاحبذا محمدمن جارٍہم بنونجار کی بچیاں ہیں،محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کیا ہی اچھے ہمسایے ہیں۔حضور ان بچیوں کے پاس سے گزرے تو مسکرا کر ان سے پوچھا:’’(اے پیاری) بچیو!کیا تم مجھ سے انسیت رکھتی ہو،سب نے مل کر جواب دیا ،جی ہاں! یارسول اللہ ، آپ نے فرمایا :تم بھی مجھے بہت پیاری ہو‘‘۔
بیعت عقبہ ثانیہ کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادکے مطابق اہل مدینہ نے دینی امور کی بجاآوری کے لیے بارہ نقیب منتخب کیے تھے۔حضرت اسعد بن زرارہ بنو نجار کے نقیب تھے ،ہجرت کے تھوڑا عرصہ بعد ہی ان کا وصال ہوگیا۔ بنو نجار کے نمائندہ افراد حضور کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے اور گزارش کی کہ یا رسول اللہ !اسعد کی جگہ اب کسی اور کو بنونجار کا نقیب فرمادیجئے ،صلہ رحمی کے مبلغ ،پیغمبر کریم نے ارشادفرمایا : ’’بنونجار میرے ماموں ہیں ،اس لیے اب میں خود ان کا نقیب ہوں‘‘۔آپ کا یہ ارشادسن کر بنونجار کی خوشی اورمسرت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا، یہ ایک نہایت ہی عظیم سعادت تھی جو بنونجار کو حاصل ہوئی اور وہ حقیقی معنوں میں انصار کا بہترین خاندان گردانے گئے۔
حضرت نسیبہ رضی اللہ عنہ کا تعلق اسی خاندانِ بنونجار سے تھا ،لیکن انھوںنے اپنی کنیت ’’اُم عمارہ‘‘اور اپنے لقب ’’خاتون اُحد‘‘سے زیادہ شہرت پائی۔ان کا پہلا نکاح اپنے چچا زاد بھائی زید بن عاصم سے ہوا،ان سے دواولادیں ہوئیں، حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ اور حضرت حبیب رضی اللہ عنہ ان دونوں بھائیوںنے شرف صحابیت حاصل کیا اوراپنی جرأت وشجاعت کی وجہ سے تاریخ میں بڑی شہرت پائی۔زید کی وفات کے بعد آپ عربہ بن عمر و نے نکاح میں آئیں،ان سے دو بچے تمیم اورخولہ پیدا ہوئے ۔حضور نے ہجرت سے قبل ہی حضرت معصب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ میں مبلغ اسلام بناکر بھیجا ،حضرت اُم عمارہ نے اپنے خاندان سمیت ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا۔ ۳۱ نبوت میں یہ اُن ۵۷ خو ش نصیب افراد میں شامل تھیں، جنہوں نے عقبہ کے مقام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کا شرف حاصل کیااوریہ عہد کیا کہ حضور یثرب تشریف لائیں ،تو وہ اپنی مال، اولاد اورجان کے ساتھ آپ کی تائید ونصرت کریں گے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024