اتوار ‘ 16 ؍ رجب المرجب ‘ 1440ھ‘ 24؍ مارچ 2019ء
ڈالر مہنگا۔ قیمت 140.20 روپے تک پہنچ گئی
تحریک انصاف والے بڑے ذوق و شوق سے عمران تیری پرواز سے جلتا ہے زمانہ نعرے لگاتے ہیں۔ اب آج ڈالر کی اونچی اڑان دیکھ کر جیب میں روپے لے کر پھرنے والے ’’ڈالر بڑی پرواز سے جلتا ہے زمانہ،، کی دہائی دیتے نظر آتے ہیں۔ اب کوئی جا کر اسد عمر صاحب یعنی ہمارے وزیر خزانہ کو ڈھونڈ کر لائے جو ڈالر کو شرعی حدود و قیود میں رکھنے کے دعوے کرتے تھے۔ یہاں تو ڈالر مادر پدر آزادی کی راہ پر چل رہے۔ کوئی پابندی اسے قبول نہیں۔ الٹا روپے کو تیزی سے پاتال کی طرف سفرکرتا اور گرتا دیکھ کر بھی وزیر خزانہ ٹک ٹک دید م دم نہ کشیدم والی حالت میں نظر آتے ہیں۔
کوئی ایسا نظر نہیں آ رہا جو آگے بڑھ کر اس گرتے ہوئے روپے کا ہاتھ تھامے۔ وعدے تو سب نے یہی کئے تھے۔ مگر افسوس عمل کوئی نہیں کر رہا۔ اب ڈالر کی اس اونچی اڑان سے گرانی کی جو لہر اٹھے گی وہ مہنگائی کے ہاتھوں آدھ مو ئے عوام کی مزید حالت خراب کرے گی۔ یاران خرابات نے تو بہت پہلے ہی ترنگ میں آ کر کہہ دیا تھا کہ ڈالر 150 تک جائے گا۔شرط لگا لو یا ڈالر خرید لو۔ عقل مند کے لئے اشارہ ہی کافی ہے۔ حکومت آئی ایم ایف کے قرضہ سے قبل ہی اس کی تمام شرائط تسلیم کرتی جا رہی ہے۔ جن میں شاید ڈالر کی قیمت میں اضافہ بھی شامل ہے…
٭…٭…٭
حکومت پنجاب نے سرکاری سکولوں میں گرائونڈ بنانے کے احکامات جاری کر دئیے
ایک وقت تھا جب نجی سکولوں کے نام پر مال بنانے کا دھندا شروع نہیں ہوا تھا۔ تمام سرکاری سکولوں میں اپنے گرائونڈ ہوتے تھے۔ باغ ہوتے تھے۔ ان کی عمارتیں دورسے ہی دیکھنے والوں پر سکول کا تاثر پختہ کر دیتی تھیں۔ پھروقت نے ایسی چال چلی کہ سرکاری سکولوں کو بدنام کر کے وہاں اساتذہ میں سیاست بازی کو فروغ دے کر نجی سکولوں کے نام پر ایک ایسا مافیا سامنے آیا۔ جس نے تعلیم کو کاروبار بنا لیا۔ یہ معمولی تعلیم یافتہ لوگ پیسے کے بل بوتے پر نئی نسل کے ساتھ کھلواڑ کرنے لگے۔ ان نجی سکولوں میں وہ لوازمات سرے سے ہی موجود نہیں جو کسی عمارت کو سکول کا درجہ عطا کر سکیں۔ صرف بورڈ لگانے سے کوئی عمارت سکول نہیں بنتی۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں تو گھروں کو سکول بنا دیا گیا ہے اور کسی نے پوچھا تک نہیں۔
اب پھر خوشی کی بات ہے کہ حکومت پنجاب کو سرکاری سکولوں کی گرائونڈز کا خیال آ گیا اور جن سکولوں میں گرائونڈ نہیں وہاں بنانے کا حکم بھی جاری کر دیا ہے۔ سرکاری سکولوں میں گرائونڈز جب تک آباد تھیں۔ ہمیں کھیلوںکیلئے اچھے کھلاڑی اور کام کے لئے صحت مند دماغ رکھنے والے بندے ملے تھے۔ اب یہ گرائونڈ آباد پھر سے آباد ہونے سے سکولوں میں غیر نصابی سرگرمیاں بڑھیں گی۔ صحت مند دماغ اور جسم والی نئی نسل سامنے آئے گی جو ہر قسم کی بری سوسائٹی سے دور ہو گی۔ کیا مزہ ہے اگر حکومت نجی سکولوں پر بھی یہ حکم نافذ کرے تاکہ بچوں کو غلط ماحول سے نجات ملے اور وہ کھیل کود کی مثبت سرگرمیوں میں شامل ہوں
٭…٭…٭
بھاڑ میں جائیں آپ اور آپ کا بیانیہ۔ میرا نظریہ نہیں بدلے گا: بلاول
ارے بابا سیاست میں اتنی کڑواہٹ اچھی نہیں ہوتی۔ یہاں تو میٹھا میٹھا بولا جاتا ہے۔ بلاول جی کو غصہ میں دیکھا تو پہلے بھی ہے۔ مگر اتنا غصے میں نہیں کہ زبان و بیان اور لب و لہجہ ہی ان کے قابو میں نہیں رہا۔ بھٹو یا بے نظیر بننے کے لئے ابھی تو انہیں کئی اور گرم صحرا عبور کرنے ہوںگے۔ آپ تو پہلے ہی سفر میں ہوش و حواس سے بیگانہ ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اس وقت بات کسی کے بیانیئے سے متفق ہونے کی نہیں۔ ملکی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے بیان دینے کی ہے۔ دنیا بھر کے کان ہماری طرف لگے ہیں اور نظریں ہمارا تعاقب کر رہی ہیں۔ دہشت گردی کی مخالفت سب کر رہے ہیں۔
آپ بھی کریں بلکہ دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے جدوجہد بھی کریں۔ مگر ملک کو ہی دہشت گردوں کی پناہ گاہ تو نہ ظاہر کریں۔ لگتا ہے آپ کا سارا غصہ نیب کی طرف سے کرپشن کیسوں کی سماعت میں طلبی پر ہے۔ مگر خود ہی بتائیں سندھ کے کچے اور دیہی علاقے چوروں اور ڈاکوئوں کے سب سے بڑے مرکز ہیں یا نہیں ۔بڑے بڑے سیاستدان، جاگیردار، وڈیرے اور پیر ان کی سرپرستی کرتے ہیں یا نہیں‘ اب اگر کوئی کہے کہ حکومت سندھ ان کی سرپرستی کرتی ہے۔ ان کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ تو آپ کے دل ناتواں پر کیا گزرے گی۔ سب جانتے ہیں کہ سندھ میں کیا ہو رہا ہے۔ کہاں کہاں کرپشن ہے اور کن کن علاقوں میں ڈاکو اور چور پرورش پاتے ہیں اور ان کے سرپرست کون ہیں ذرا انہیں بھی تو بھاڑ میں جھونکیں۔ وہاں تو ایکشن لینے پر لوگوں کو صوبائی خود مختاری یاد آنے لگتی ہے۔
٭…٭…٭
مودی بنارس سے الیکشن لڑیں گے
لگتا ہے مودی جی کو احساس ہو گیا ہے کہ یہ ان کا آخری الیکشن ہے۔ اس لئے انہوں نے بنارس سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ بنارس ہندوئوں کا مقدس شہر ہے۔ ہندو مذہب کے ماننے والوں کی سب سے بڑی خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ بنارس میں اپنی آخری سانسیں لے۔ کیونکہ وہاں مرنے والے کو آگوان یعنی بار بار جنم لینے کے چکر سے مکتی (نجات) مل جاتی ہے اوروہ دوبارہ دنیا میں کشٹ (دکھ) اٹھانے اٹھانے کے لئے پیدا نہیں ہوتے۔ اس لئے بنارس کے شمشان گھاٹ جدید ہوں یا قدیم ہر وقت چتائوں کی آگ سے روشن رہتے ہیں۔ اب مودی کی انتہا پسند انسانیت کی چتا بھی یہاں سے جلے گی اور اس کی سیاست کا ’’انتم سمسکار‘‘ بھی یہاں ہی ہوگا۔ اگرمودی دوبارہ کامیاب ہوتے ہیں تو کچھ بعید نہیں وہ بنارس سے چتا کی آگ لے کر سارے ہندوستان کو ہی شمشان گھاٹ نہ بنا دیں۔ اب یہ بھارت واسیوں کے فیصلے پر منحصر ہے کہ وہ کیاکرتے ہیں مودی جی نے تو اپنی آخری خواہش پوری کر دی ہے اور بنارس کو چن لیا ہے۔ جو لگتا ہے ان کے آخری الیکشن ہوں گے۔اس کے بعد ان کا ’’رام نام ستے،، ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی وہ عمر کے جس حصے میں ہیں انہیں بنارس ہی میں آ کر باقی وقت رام نام کی مالا جپتے گزارنی چاہئے تاکہ ان کی موذی سیاست سے ملک کو اور عوام کو نجات ملے۔ کہتے ہیں بعض اوقات انسان خود کچھ ایسے فیصلے کرتاہے جو اس کے آنے والے کل کی دھندلی دھندلی عکاسی کرتے ہیں بنارس سے مودی کا الیکشن لڑنے کا اعلان بھی ان کی سیاست کی چتا کو نذرآتش کرنے کے وقت کا اشارہ تو نہیں ہے یا پھر کہیں یہ فیصلہ آنے والے وقت میں پورے بھارت کو شمشان گھاٹ بنانے کی طرف مودی کے عزائم کی طرف اشارہ تو نہیں جس کے بعد ہندوستان میں ہرطرف راکھ ہی راکھ اڑتی نظر آئے گی۔