15 مارچ 2019ء کو نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مسجد النور میں وہاں کے مقیم دنیا کے مختلف ممالک کے مسلمان نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے جمع تھے جب ایک متعصب نسل پرست جنونی شخص برینٹن نے ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ مسجد پر مہلک آتشیں اسلحہ سے حملہ کر کے عبادت میں مصروف پچاس مسلمانوں جن میں عورتیں، بچے اور ضعیف لوگ شامل تھے، کو شہید کر دیا۔ جنونی قاتل کے اس اقدام سے پوری دنیا لرز کر رہ گئی۔ دنیا بھر کے دانشوروں، مذہبی اور سیاسی رہنمائوں نے اس گھنائونے اقدام کی شدید مذمت کی اور اسے انسانیت کے خلاف ایک انتہائی شرمسار اقدام قرار دیا۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسینڈا آرڈرن نے اعلیٰ ترین قیادت اور اخلاقی اقدار کا مظاہرہ اس سانحہ کے شہداء کے ساتھ مکمل یکجہتی اور ہمدردی کا اظہار کرکے کیا۔ جیسینڈا آرڈرن متاثرہ خاندانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی و یکجہتی کیلئے مکمل سیاہ لباس اور سیاہ دوپٹہ اوڑھ کر آئیں۔ انہوں نے مسلمانوں کو اپنی بھرپور حمایت کا یقین دلایا۔ وزیراعظم جیسینڈا آرڈرن کے اس اقدام کو دنیا بھر میں سراہا گیا اور نیوزی لینڈ میں موجود تمام مذاہب کے لوگوں نے ان کے اس اقدام کی پیروی کرتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ بے مثال یکجہتی اور ہمدردی کا مظاہرہ کیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب مسجد کے نمازیوں پر فائرنگ ہو رہی تھی تو وہاں کے قرب و جوار کے غیر مسلم رہائشیوں نے مسلمانوں کو فائرنگ سے بچانے کیلئے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیئے۔ اگلے روز مسجد النور کے باہر وہاں کی غیر مسلم کمیونٹی نے اظہار ہمدردی اور خراجِ عقیدت پیش کرنے کیلئے گلدستے رکھنا شروع کر دیئے اور پھر وہاں گلدستے کو رکھنے کی جگہ نہ رہی۔
نیوزی لینڈ کرائسٹ چرچ کا واقعہ اور اس پر وزیراعظم جیسینڈا آرڈرن اور غیر مسلم کمیونٹی کا ردعمل Samuel Huntington کی Clash of Civilizations The کی تھیوری کو زیربحث لانے کا متقاضی ہے۔ یہ ردعمل ایک اشتراک کی دعوت دے رہا ہے۔ دنیا اور ہمارا معاشرہ جو اب ایک گلوبل ویلیج کی شکل اختیار کر چکا ہے اس نفرت کا متحمل نہیں ہو سکتا جہاں ایک جنونی شخص محض اس بات پر پچاسوں لوگوں کو اپنی پرامن زندگی گزارنے کے حق سے محروم کر دے کہ ان کے عقائد، رنگ، نسل اور قومیت اس کے عقیدے ، رنگ، نسل اور قومیت سے مختلف ہیں۔ انسانیت کو ہر دوسرے شخص کے عقیدے، رنگ، نسل اور قومیت کا احترام کرنا ہوگا تبھی یہ دنیا امن کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ دنیا کے تین بڑے مذاہب عیسائیت، اسلام اور یہودیت کا مآخذ ایک ہے۔ یہ تینوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پیروکار ہیں۔ ان کے مذاہب کی بیشمار اقدار مشترک ہیں۔ ان کی بیشمار مذہبی روایات اور عقائد میں اشتراک ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کلیسا اور کعبہ کے پیروکاروں میں دانشوروں کی ایک جماعت اس ضرورت کا ادراک کرے اور ان مشترک اقدار کی نشاندہی کرنے کے بعد تینوں مذاہب کے پیروکاروں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے اقدامات تجویز کرے تاکہ یہ دنیا ایک پرامن دنیا بن سکے اور کوئی جنونی محض مذہبی اختلافات کی بنیاد پر لوگوں کی زندگیوں کے چراغ گل نہ کر سکے، لیکن اس سے قبل مسلمانوں کو اپنی صفوں کے انتشار کو ختم کرنا ہوگا اور اپنے فروعی اختلافات کے باوجود دوسروں کے عقائد کو بھرپور احترام دینا ہوگا۔ ہم سب کو مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنا ہوگا۔ ہمیں دنیا کو بتانا ہوگا کہ ساری خدائی ایک خدا کا کنبہ اور جسد واحد ہے تبھی ہم دوسرے مذاہب کے ساتھ مضبوط بنیادوں پر مکالمہ کر سکیں گے۔
وزیراعظم جیسینڈا آرڈرن نے جن بے مثال قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے اس پر وہ عظیم الشان خراج تحسین کی مستحق ہیں۔ ان کا ردعمل دنیا بھر کے رہنمائوں کیلئے قابل تقلید، روشن مثال اور مینارۂ نور ہے۔ جیسینڈا آرڈرن نے اپنے طرز عمل سے عالم اسلام کے دل جیت لئے ہیں۔ جیسینڈا آرڈرن آج پورے عالم اسلام کے ہر فرد کے دل کی مکین ہیں۔ یہ اعزاز اس سے پہلے شاید ہی کسی کو نصیب ہوا ہو۔ اقوام عالم کو Nobel Prize for Peace کے ایوارڈ سے نواز کر "امن کی فاختہ" جیسینڈا آرڈرن کے مدبرانہ اور قائدانہ کردار کو خراج تحسین پیش کرنا چاہئے۔ میری رائے میں وہ بین المذاہب ہم آہنگی کے مکالمے کی داعی بن کر دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کا آغاز کر چکی ہیں اب کرہ ارض پر امن کے فروغ کے لیے اقوام عالم کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024