عدا لتوں میں 18 لاکھ سے زائد مقدمات زیر سماعت‘ فیصلوں میں 20 سال لگ جاتے ہیں: سیکرٹری لاء کمشن
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) لا اینڈ جسٹس کمشن کے سیکرٹری ڈاکٹر رحیم اعوان نے کہا ہے کہ عدالتوں میں 18لاکھ سے زائد مقدمات زیر سماعت ہیںنظام انصاف کے حوالے سے شہریوں کی سب سے بڑی شکایت تاخیر ہے جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک مقدمہ کے فیصلہ میں اوسطاً15سے 20 سال لگ جاتے ہیں، 10لاکھ کی آبادی کے لیئے ججز کی تعداد 12 ہے اسی طرح 10 لاکھ کی آبادی کے لئے بھارت میں 18ججز، برطانیہ میں 51ججز، کینیڈا میں 75ججزکی تعداد مختص ہوتی ہے ،2017ء کے اختتام تک پنجاب میں 10سے زائد سول اور فیملی مقدمات التواء کا شکار تھے ،سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں ججز کی تعداد167مختص ہے جبکہ اس وقت 146ججز کام کررہے اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی21 آسامیاں خالی ہیں ۔ وکلاء برادری کو تعلیمی قابلیت کی تصدیق اور جانچے بغیر انھیں لائسنس دینا ، وکلاء کا مقدمات میں غیر سنجیدہ رویہ بھی مقدمات کے ڈیڈ لاک کی ایک بڑی وجہ ہے۔ انصاف کی فراہمی کا عمل تیز کرنے کے لئے لازمی ہے کہ ججز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ واضح رہے اس وقت کمشن کے چیئرمین چیف جسٹس ثاقب نثار ہیں، لا اینڈ جسٹس کمشن کے سیکرٹری ڈاکٹر رحیم اعوان کا کہنا ہے کہ سول کورٹ کے ایک جج کو ایک دن میں 150 سے 200 مقدمات کی سماعت کرنا ہوتی ہے او رصرف ایک جج کا انہیں جلد نمٹانا عملی طور پر ناممکن ہے، ایک سول جج کو مذکورہ تعداد میں کیس سننے کے دوران ایک کیس میں ڈیڑھ سے دو منٹ لگتے ہیں۔ جنوری 2018 ء تک کے اعداد و شمار کے مطابق سپریم کورٹ میں اس وقت 38 ہزارکیسز کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ میں موجود کیسز کی تعداد ملک میں سب سے زیادہ ہے جو کہ ایک لاکھ 50ہزارسے اوپر ہے۔ دوسرے نمبر پر سندھ ہائی کورٹ ہے جہاں 94 ہزارکیسز ہیں۔پشاور ہائی کورٹ میں اس وقت 30 ہزارکیسز جبکہ بلوچستان ہائی کورٹ میں صرف 6 ہزارکیسز کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں البتہ 16 ہزارکیسز کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ ڈسٹرکٹ عدلیہ کا معاملہ دیکھا جائے تو وہاں بھی پنجاب میں دوسرے صوبوں کے مقابلے میں واضح طور پر مقدماعت کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔اس وقت پنجاب میں 11 لاکھ کیسز کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ججوں کی تعداد کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ سب سے زیادہ متاثر ہے جہاں کل 60 اسامیاں ہیں لیکن وہاں اس وقت 49 جج کام کر رہے ہیں۔ پنجاب میں دسمبر 2017 ء کے اختتام پر تقریبا دس لاکھ سول اور فیملی کیسز کا فیصلہ ہونا باقی تھا اور انھیں نمٹانے کے لیے صرف 938 ججز موجود ہیں جس کے مطلب ہے کہ ایک جج 1000 سے زیادہ کیسز کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے سول اور فیملی کیسز کے لیے ججوں کی تعداد کو بڑھا کر تقریبا 2000 کرنا ہوگا تاکہ ایک جج پر 500 مقدماعت کی ذمہ داری ہوگی۔آئینی ماہر رضا علی کا کہنا ہے کہ ججوں کی کم تعداد مقدماعت کے التوا کی وجہ تو ہیں لیکن ان کے مطابق مقدماعت کی تکمیل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وکلا برادری خود ہیں۔