ہفتہ‘ 6؍ رجب المرجب ‘ 1439 ھ ‘ 24 ؍ مارچ 2018ء
شیخ رشید نے کس کے ایما پر آئین توڑنے کی بات کی۔سپریم کورٹ نوٹس لے۔کیپٹن(ر)صفدر
شیخ صاحب کئی دنوں سے چپ تھے۔ بظاہر خاموشی، کوئی مرض نہیں لیکن بعض حکما نے بعض لوگوں کے لئے اسے جان لیوا مرض قرار دیا ہے۔ ان کے مقابلے میں فلسفیوں کی، جنہیں عام زبان میں دانا کہا جاتا ہے رائے یہ ہے کہ ’’ایک چُپ سو سُکھ‘‘۔ لیکن فرزند راولپنڈی کی ’’چُپ‘‘ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا کہ جسے نظرانداز کر دیا جاتا۔ پھر ان حضرت کے بارے میں مشہور ہے جو غلط بھی نہیں، کہ جب وہ بولتے ہیں، چھپر پھاڑ کر بولتے ہیں۔ خوش قسمتی (ہماری نہیں ان کی) ملاحظہ فرمائیے کہ انہیں، قائد تحریک انصاف عمران خان ایسا قدردان مل گیا۔ خان صاحب کو بھی ایسا ہی ساتھی مطلوب تھا‘ جو بولے تو حریف پر لرزہ طاری ہو جائے۔ خان صاحب کے جس جلسے میں شیخ رشید صاحب شرکت فرمائیں، اس کی رونق دوبالا ہو جاتی ہے۔ آمدم برسرمطلب، شیخ صاحب کئی دنوں کے بعد خاموشی کے بحر عمیق سے ابھرے تو یہ گوہر تابدار ہمراہ لائے، کہ ’’ملک میں جوڈیشل مارشل لا لگا دیا جائے‘‘۔ ہر کسی نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اس سے مطلب اخذ کئے‘ بعض لوگوں کے خیال میں، چونکہ قبلہ شیخ صاحب، خان صاحب کے نفس ناطقہ ہیں اور ہمارے ان دونوں محترم سیاسی رہنمائوں کے خیالات میں اس قدر توارد ہوتا ہے کہ پہنچے ہوئے لوگوں کے مطابق ’’انہیں یہ مضامین غیب سے آتے ہیں‘‘۔ شیخ صاحب کے اس بیان بارے سیاست دانوں کے تنقیدی بلکہ مذمتی بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔
ہمارے ایک دوست نے شیخ صاحب کے نادر افکار کی باقاعدہ تقطیع کر ڈالی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شیخ صاحب نے موجودہ صورتحال کی اصلاح کا جو نسخہ تجویز کیا ہے، اس کے دو بڑے جزو ہیں جوڈیشل (عدالتی) اور مارشل لا (فوجی قانون)۔ ہماری طرح ہمارے مذکورہ دوست کا پختہ یقین ہے کہ جوڈیشل مارشل لا کی ترکیب سے، ہمارے دونوں انتہائی محترم اداروں کو سخت کوفت ہوئی ہو گی۔ ایسے ہی تنقیدی بیانات میں کیپٹن (ر) صفدر کا ایک بیان بھی شامل ہے۔ ان کی رائے میں شیخ صاحب وہی آموختہ دہراتے ہیں جو انہیں ازبر کرایا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ کھوج لگانا ضروری ہے کہ ’’کس کے ایما پر‘‘ آئین توڑنے کی بات کی گئی۔ ہمارا عاجزانہ مشورہ ہے کہ کھوج لگانے کے چکروں میں نہ ہی پڑا جائے تو اچھا ہے اس لئے کہ بعض اوقات کُھرے نامی گرامی رسہ گیروں کے ڈیرے پر جا نکلتے ہیں اور پھر مسروقہ ڈھورڈنگر کی واپسی تو کیا جان چھڑانی مشکل ہو جاتی ہے۔
٭…٭…٭…٭
جوبائیڈن، حملے کی دھمکیاں دینا بند کریں، لڑائی ہوئی تو چلاتے ہوئے بھاگ جائیں گے۔ٹرمپ کا ٹویٹ
امریکی صدر ٹرمپ اور سابق صدر اوباما کے نائب صدر جوبائیڈن دونوں کی عمریں 70سال سے متجاوز ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ دونوں کے درمیان شدید دشمنی ہے، جو کبھی دب جاتی ہے اور کبھی کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ پھر لطف یہ ہے، کہ، ایک دوسرے کو مارنے پیٹنے کی دھمکیاں بھی دیتے رہتے ہیں۔ جوبائیڈن صدر اوباما کے نائب تھے، تب ان کے یہ جوہر کسی پہ نہیں کھلے تھے، کہ موصوف مخالفین کے ساتھ ’’گُھسن مکی‘‘ ہونے کا بھی شغف رکھتے ہیں۔ جہاں تک حضرت ٹرمپ کا تعلق ہے، ان کی آنکھوں میں ہر وقت خون اترا رہتا ہے۔ البتہ خوبروئوں اور مہوشوں کی صحبت میں خوب چہکتے ہیں۔ خاتون اول میلانیا ٹرمپ پہلے پہلے خاوند صاحب کی خوش فہمیوں سے بہت نالاں رہتی تھیں۔ کچھ عرصہ ناراض بھی رہیں، لیکن جب دیکھا، کہ ’’کٹی‘‘ کا الٹا اثر ہو رہا ہے اور کوئی بعید نہیں، کہ ان کے گھر سے روٹھ کر نکل جانے والا خلا، کسی دن پُر ہی نہ ہو جائے تو انہوں نے ’’صلح‘‘ میں ہی عافیت جانی اور مستقبل محفوظ کر لیا۔ جوبائیڈن صاحب سے گزارش ہے کہ وہ خود کو اب بھی نائب صدر سمجھنے سے پرہیز کریں۔ عمر بھی ستر سے اوپر ہو گئی ہے۔ اس عمر میں ہڈی پسلی ٹوٹ جائے تو بندہ تادم مرگ بستر کا ہی ہو کر رہ جاتا ہے۔ ٹرمپ صاحب کا کچھ نہیں بگڑے گا اگر کسی پٹخنی میں آ کر ’’کنڈ‘‘ لگوا بیٹھے تو کپڑے جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوں گے۔ نہ صرف اٹھ کھڑے ہوں گے بلکہ شکست کے بعد بھی وہ عہدہ صدارت پر ہی متمکن رہیں گے۔ ہم جوبائیڈن صاحب کو یہ مشورہ ازراہ خیرخواہی دے رہے ہیں اور ان سے خیرخواہی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک زمانے میں کچھ اقدام پاکستان کی خیرخواہی کے بھی کئے تھے۔ اگرچہ ہم خود پرلے درجے کے شریف النفس (یہ لفظ عموماً بزدل کے لئے بولا جاتا ہے) واقع ہوئے ہیں ورنہ یہ تماشا دیکھنے کو کس کا جی نہیں چاہتا کہ وائٹ ہائوس کی گرائونڈ میں، جوبائیڈن اور ٹرمپ کے درمیان کشتی ہو رہی ہو اور عالمی شہرت یافتہ پہلوانوں کے اس بے ٹکٹ دنگل کو دیکھنے کے لئے امریکہ اور یورپ سے خلق خدا امڈ آئی ہو۔
٭…٭…٭…٭
پی آئی اے کی آخری پرواز 86 مسافر لے کر کویت کو خیرباد کہہ گئی۔
خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کویت ائرپورٹ سے پی آئی اے کی آخری اُڑان نے پاکستانیوں کو افسردہ اور پریشان کر دیا۔ نامہ نگار نے اس پر کویت میں مقیم پاکستانیوں کے تاثرات ہی بیان کرنے پر اکتفا کیا ہے‘ البتہ ہم اس میں اتنا اضافہ اور کریں گے کہ پی آئی اے کی آخری ہچکی سے کویت میں مقیم ہی نہیں بلکہ تمام پاکستانی‘ وہ جہاں کہیں بھی ہیں افسردہ اور پریشان ہوئے ہیں۔ کیا دور تھا کہ پانچوں براعظموں کو اگر کسی ائرلائن نے ملا رکھا تھا تو وہ پی آئی اے ہی تھی۔ کسنجر کو چین جانے کی ضرورت پڑی تو اس نے بھی یہ سفر پی آئی اے کے ذریعے طے کیا۔ وہ عروج تھا، اب زوال یہ ہے کہ دنیا کے بیشتر فضائی روٹ دوسروں کے لئے چھوڑ دیئے گئے ہیں۔ اور اب ان روٹس پر ان ائرلائنوں نے قبضہ کر لیا ہے جنہیں پی آئی اے نے خود بنایا تھا۔ سعودیہ، اردن، کویت‘ امارات، ترکی‘ سلطنت مسقط وعمان، سنگاپور‘ چین اور ملائیشیا کی ائرلائنز بھی پی آئی اے نے بنائیں، انہیں چلایا اور ترقی دی۔ ان کمپنیوں کا بیشتر فضائی عملہ‘ پائلٹس اور زمینی اور فنی سٹاف بھی پی آئی اے کا تربیت یافتہ ہے۔ پی آئی اے کا یہ حال کسی دشمن نے نہیں، ہم نے خود کیا۔ اس تباہی کے ہم خود ذمہ دار ہیں۔ اس میں کس کس نے کیا کردار ادا کیا، کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ تفصیل میں جا کرقارئین کرام کو مزید افسردہ اور پریشان نہیں کرنا چاہتے۔