میاں نواز شریف نے 1997ء کے انتخابات میں ہیوی مینڈیٹ حاصل کرنے کے بعد قوم سے پُرجوش اور ولولہ انگیز خطاب کیا اور قوم کو ’’قرض اُتارو ملک سنوارو‘‘ کا سحر انگیز نعرہ دیا۔ اس انقلابی نعرے نے خیبر سے کیماڑی تک پاکستان سے محبت کرنیوالوں کے دلوں میں بے مثال جذبہ پیدا کر دیا۔ عورتوں نے قرض کی لعنت سے نجات حاصل کرنے کیلئے اپنے زیور قربان کردئیے۔ صاحب استطاعت افراد نے اربوں روپے وزیراعظم کے خصوصی فنڈ میں جمع کرا دئیے۔ ریاست کے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں نے بھی دل کھول کر حصہ ڈالا۔ راقم نے بھی دس ہزار روپے قرض اُتارو خصوصی فنڈ میں جمع کرائے۔ وطن دوستوں کا خیال تھا کہ اگر بیرونی قرضے ادا کردئیے جائیں تو پاکستان معاشی طور پر اپنے پائوں پر کھڑا ہوسکتا ہے اور ایٹمی ریاست کی کھوئی ہوئی خودمختاری بازیاب کرائی جا سکتی ہے۔ افسوس میاں نواز شریف اپنی اس بروقت سکیم کو نتیجہ خیز نہ بنا سکے کیوں کہ یہ ایک سیاسی نعرہ تھا جس میں نیت اور جذبہ شامل نہیں تھا۔ قرض اُتارو فنڈ میں جو اربوں روپے جمع ہوئے انکا ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ میاں نواز شریف پر قوم کا یہ قرض ہنوز باقی ہے جس کا تسلی بخش جواب نہیں دیاگیا۔ البتہ اللہ کی عدالت میں ان کو قوم کی اس امانت کا بھی حساب دینا ہوگا۔ پاکستانی قوم نے میاں نواز شریف سے بے مثال محبت کی ہے وہ پاکستان کے واحد لیڈر ہیں جن کو تین بار پاکستان کا وزیراعظم منتخب کیا گیا مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ میاں صاحب نے اندرونی اور بیرونی قرضوں کے سلسلے میں عوام سے بے وفائی کی۔
2013ء میں بیرونی قرضے 60 بلین ڈالر تھے جو 2018ء میں 90 بلین ڈالر تک پہنچ چکے ہیں جبکہ 2013ء میں اندرونی قرضے 13ہزار ارب روپے تھے جو 2018ء میں 16ہزار ارب روپے ہو چکے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے 2013ء میں پراسرار طور پر بجلی پیدا کرنیوالی کمپنیوں کو سرکلر ڈیٹ کی مدد میں پانچ سو ارب روپے ادا کئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سرکلر ڈیٹ 2018ء کے آخر تک ایک بار پھر نو سو ارب روپے تک پہنچ جائے گا۔ تاریخ میں پہلی بار ریاست کے ائیر پورٹس اور موٹرویز کو قرضے لینے کیلئے گروی رکھ دیا گیا ہے۔ حکومتی نااہلی، بدانتظامی اور بدنیتی کی بناء پر ایکسپورٹ گرچکی ہیں جسکی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر تشویشناک حد تک کم ہوگئے ہیں۔ ڈالر کی قیمت 115.5تک بڑھنے سے ملکی معیشت مزید زبوں حالی کا شکار ہوگئی ہے۔ ریاست کے ادارے سٹیل ملز، پی آئی اے، ریلوے معیشت کیلئے مستقل بوجھ بن چکے ہیں۔ کرپٹ مافیا پہلے قومی اداروں کو لوٹ کر کمزور کرتا ہے اور بعد میں انکی اونے پونے نجکاری کرکے مزید لوٹ مار کرتا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے اور غیر جانبدار معاشی ماہرین پاکستان کے معاشی مستقبل کے بارے میں گہری تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔ ہمیں قرضوں کی ادائیگی کیلئے مزید قرضے لینے پڑینگے اور قرضوں کا شیطانی چکر یوں ہی چلتا رہے گا جو پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کیلئے سنگین اور مہلک خطرہ بن چکا ہے۔
یہ ایک افسوسناک رویہ ہوگا کہ قوم بے حسی میں مُبتلا رہ کر اجتماعی خودکشی کی جانب بڑھتی رہے۔ مگر ہماری آنے والی نسلوں سے محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم بیدار ہوں اور پاکستان کے معاشی استحکام کیلئے ہر قسم کے تعصبات سے اوپر اُٹھ کر احتساب اور انصاف کے اداروں کے ساتھ کھڑے ہوجائیں جو یکساں اور شفاف احتساب کے ذریعے موجودہ اور آنے والی نسلوں کو قرضوں سے نجات دلانے کا تہیہ کرچکے ہیں۔ احتساب کا بند دروازہ کھل چکا ہے۔ احتساب کا دائرہ روز بروز وسیع ہوتا جارہا ہے۔ نیب کے چیئرمین محترم جسٹس(ر) جاوید اقبال نے اپنے تازہ حوصلہ افزاء بیان میں پاکستانی قوم کو یقین دلایا ہے کہ کسی کو قومی دولت لوٹنے نہیں دینگے اور نہ ہی کرپٹ عناصر کو رعایت ملے گی۔ ان سے قومی دولت کی لوٹی ہوئی پائی پائی وصول کی جائیگی۔ کرپشن ملک کو دیمک کی طرح کھارہی ہے۔ مجھے جو کچھ کرنا ہے کروں گا کسی کی پرواہ نہیں ہے۔ میرا ہر عمل قانون کے مطابق ہوگا پاکستان ہے تو ہم ہیں پاکستان نہیں تو ہم بھی نہیں۔ چیئرمین نیب کا عزم اور جذبہ قابل ستائش ہے۔ اللہ ان کا حامی و ناصر ہو۔ ارشادربانی ہے ’’اے پیغمبر جب آپ پختہ ارادہ کرلیں تو پھر اللہ پر بھروسہ کیجئے۔ بے شک اللہ بھروسہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے‘‘۔[159:3] بیرونی ممالک میں غیر قانونی اثاثوں کے بارے میں مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ ایف بی آر نے ایک رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی ہے جس میں ان پاکستانیوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن کے اثاثے پانامہ لیکس، پیراڈائیز لیکس، بہاماز لیکس اور دوبئی لیکس کے مطابق غیر ممالک میں ہیں۔ ایک اندازے کیمطابق چارسو سے پانچ سو پاکستانیوں نے غیر ممالک میں اربوں ڈالر کے اثاثے رکھے ہوئے ہیں جن کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر منی لانڈرنگ کے ذریعے پاکستان سے باہر منتقل کیے گئے۔
ایف بی آر کی رپورٹ کیمطابق بشیر دائود اور مریم دائود سے 6ارب بیس کروڑ روپے کی ریکوری کی گئی ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ منی لانڈرنگ میں ملوث افراد سے قومی دولت واپس وصول کرکے بیرونی اور اندرونی قرضے واپس کیے جاسکتے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان محترم ثاقب نثار نے ایک سو بڑے ارب پتی افراد کو عدالت میں طلب کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اقربا پروری اور رشوت خوری کی بناء پر ریاستی ادارے کرپشن اور منی لانڈرنگ میں ملوث ہوچکے ہیں لہٰذا ان سے تعاون کی تمنا بے سود ہے وہ ’’سہولت کار‘‘ ہیں لہذا تاخیری حربے استعمال کرینگے۔ ان حالات میں ’’سعودی فارمولا‘‘ ہی کارگر ہوسکتا ہے۔ کرپشن اور منی لانڈرنگ میں ملوث پانچ سو افراد کو حراست میں لیکر ان سے لوٹی ہوئی دولت واپس وصول کی جاسکتی ہے۔ غریب عوام کو روٹی روزگار سے محروم کردینے والے ’’معاشی دہشت گرد‘‘ کسی نرمی کے مستحق نہیں ہو سکتے۔
پاکستان کے مظلوم عوام بے بس اور مجبور ہوچکے ہیں۔ کرپٹ مافیا نے ان کو روٹی کے چکر میں ڈال رکھا ہے۔ ان کا جینا محال ہوچکا ہے۔ ریاست کا ڈیلیوری سسٹم تباہ ہوچکا ہے۔ عدلیہ جس محکمے پر ہاتھ ڈالتی ہے اس کا گند بے نقاب ہوجاتا ہے۔ احد چیمہ نیٹ ورک کی ہوشربا داستانیں سامنے آرہی ہیں۔ اسکے باوجود اشرافیہ اپنی پاک دامنی کے دعوے کرتی نظر آتی ہے۔ انکے پاس کوئی جواب نہیں ہے کہ اربوں ڈالر کے قرضے کہاں گئے۔ بیرونی ممالک میں غیر قانونی اثاثے کیسے بنائے گئے۔ پاکستان کے مقتدر اداروں کے سربراہ اور افسر اگر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر نیک نیتی سے عمل کرنے پر آمادہ ہوجائیں تو قرضے بھی اُتر جائینگے ملک بھی سنور جائیگا اور اداروں کے سربراہوں اور افسروں کو اللہ قیامت کے روز بہترین اجر سے نوازے گا۔ ارشاد ربانی ہے ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو عدل و انصاف پر مضبوطی سے ڈٹ جانیوالے اور اللہ کی خوشنودی کیلئے سچی گواہی دینے والے بن جائو گو وہ تمہارے اپنے خلاف ہویا اپنے ماں باپ کے یا رشتے دار عزیزوں کے۔ وہ شخص اگر امیر ہو یا غریب اللہ تم سے زیادہ ان کا خیرخواہ ہے۔ سو تم خواہش نفس کے پیچھے پڑ کر انصاف کو نہ چھوڑ دینا۔ اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے گریز کیا تو جان رکھو جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے‘‘۔ [135:4] اللہ تعالیٰ اگر کسی شخص کو منصب عطا کرکے بااختیار بنائے اور وہ اپنا اختیار دیانتداری سے استعمال کرکے اپنے وطن کو قرضوں کے شکنجے سے باہر نکال سکتا ہو اور عوام کو انکے بنیادی حقوق فراہم کرنے کیلئے کردار ادا کرسکتا ہو تو اسے اپنی عاقبت اور ملک کا مقدر سنوارنے اور عوام کی دادرسی کیلئے ہر ممکن کام کر گزرنا چاہیئے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38