بہا ولپور میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے، سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے ملک میں جاری 70سالہ جاری پالیسوں کا ذکرکرتے ہوئے ان سے بغاوت کا اعلان کیا۔ میرے جیسے تاریخ کے طالب علم کے لئے اس میںحیرت کے ساتھ ساتھ تجسس کا بھی پہلو تھاکہ میاں نواز شریف نے اس سے پہلے بھی کئی ایک بار 70سالہ پالیسیوں کا ذکر کیا تھا تو اس سے ان کا دراصل مطلب کیا تھا۔ بھولی بسری یادوں کو تازہ کرنے کے لئے ماضی کے جھروکوں میں جھانکنے کی کوشش کی، ماضی کے دھندلکے آہستہ آہستہ چھٹنے لگے۔ یوں جو تصویر ذہن کے کینوس پر بنتی محسوس ہوئی ( گو اس کے رنگ آج اُتنے واضح تو نہیں لیکن پہچان میں کوئی دقت نہیں ہوئی) اس سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ماضی میں ہماری سیاست کن ’خارزاروں‘ سے گزری؟ اس پر ہر ذی شعور کا اپنا نکتہ نظرالگ ہو سکتا ہے اور اس بحث بھی ہو سکتی ہے، لیکن یہ بات ماننا پڑے گی کہ یہ کم ازکم قابلِ رشک نہیں کہی جا سکتی۔ دراصل قوموں کی زندگی میں کچھ ایسے موڑ (ٹرننگ پوائنٹ ) آتے ہیں جس کے ساتھ ہی بہت کچھ بدل جاتا ہے حتیٰ کہ انسانی رویے بھی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اب اس قوم پر منحصر ہے کہ وہ اس سے کوئی مثبت تبدیلی کی طرف بڑھتی ہے یا ’یو ٹرن‘ لے کر قعرِ ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق ہوتی چلی جاتی ہے، جس سے نکلنے کے لئے اُسے پھر سالوں بلکہ صدیوں انتظار کی سولی پے لٹکنا پڑتا ہے۔ہم 1947ء میں ( کہنے کو) آزاد تو ہوئے لیکن ابھی قوم کی حیثیت سے ہمارے سفر کا آغاز بھی نہ ہو پایا کہ 1948ء میں قائداعظم کی وفات ہماری زندگی کا پہلا ٹرننگ پوائنٹ بنا جس سے اگلے آنے والے دس سالوں میں سیاست دانوں کی ریشہ دوانیاں اپنے عروج پر پہنچ گئیںجو آخر کارملک میں پہلے مارشل لا پر منتج ہوئیں یہ وہی دور ہے جب متعدد حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہیں۔ پنڈت جواہر لال نہرو کا اشارا اسی طرف تھا کہ ’ میں نے اتنے پاجامے نہیں بدلے جتنی پاکستان میں حکومتیں بدل گئی ہیں۔ سب سے بڑی بات کہ ہم اپنے لئے کوئی ڈھنگ سے’ آئین‘ بھی تخلیق نہ کر پائے، نو آبادیاتی نظام کے تحت 1935ء کے ایکٹ میں ترمیم کر کے کام چلایا گیا۔ یہاں سے سیاست دانوں کی اہلیت و قابلیت اور ملک سے وفاداری میں سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہی وہ موقعہ تھا جب مفاد پرست اور مصلحت پسند، نا عاقبت اندیش سیاست دانوں کو من مانیاں کرنے کی کھلی چھوٹ مل گئی،آئین سازی کی کوئی سنجیدہ کوشش ہمیں دکھائی نہیں دیتی۔
اس سے بھی اہم بات جسے ہمارے آج کے تجزیہ نگار نظر انداز کر دیتے ہیں یا غالب امکان ہے کہ ان کے علم میں ہی نہیں ، مسائل میں گھرے بلکہ گھٹی میں مسائل لے کے پیدا ہونے والے ملک ِ خداداد میں سول ملٹری تعلقات کی پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھی گئی، پاکستان کے حصے میں آنے والے مسائل میں’ کشمیر ایشو‘ بہت سنجیدہ اور دور رس اثرات کا حامل تھا۔ جب قائداعظم نے فوج کو کشمیر کے حق میں کھڑا کرنا چاہا تو جنرل گریسی نے قائد کا حکم ماننے سے ، یہ کہہ کر انکار کر دی کہ اگر مجھے مجبور کیا گیا تو میں ملازمت چھوڑ دوں گا۔ اس کا پس منظر یہ تھا کہ تقسیم ملک کے ساتھ فوج بھی تقسیم ہوئی ، کچھ برٹش فوج پاکستان کے حصے میں آئی اور کچھ ہندوستانی فوج کا حصہ بنی،جنرل گریسی کا موقف تھا کہ برٹش فوج ایک دوسرے کے خلاف نہیں لڑے گی۔ یوں یہ ایسا ’’ٹرننگ پوائنٹ‘‘ ثابت ہوا جس نے سول ملڑی تعلق میں ہمیشہ کے لئے خلیج حائل کر دی، جسے وقت کے ساتھ ساتھ پُر کرنے کی بجائے ، گہرا کرنے کی سازشیں جنم لیتی رہیں۔یہاں یہ ماننا پڑے گا کہ جنرل گریسی کے اعلان نے سول ملٹری نافرمانی کی ایسی بنیاد فراہم کی جس نے آگے چل کرفوجی اقتدار کی راہیں کھولیں۔اس خطے میں شروع دن سے ہی دنیا کے ’انٹرسٹ‘تھے جو آج بھی ہیں۔1950میں، کراچی میں امریکی سفارت خانے اور لاہور میں واقع امریکی قونصلیٹ آفس سے واشنگٹن بھیجے گئے خفیہ پیغامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ گورنر جنرل غلام محمد، اسکندر مرزا اور ایوب خان کے واشنگٹن سے رابطے تھے، امریکا یہ سمجھتا تھا کہ پاکستان جیسے ملک میں ملٹری اسٹبلشمنٹ ہی بہتر رہے گی۔ ان دستاویز سے اس بیانیے کو تقویت ملتی ہے کہ پاکستان میں حکومتیں بیرونی مداخلت سے بنتیں اور ٹوٹتی ہیں۔ یہ سب اپنی جگہ درست سہی، لیکن یہ بھی حقیقت نظر انداز کرنے کے لائق نہیں کہ پہلے دن سے مفاد پرست سیاست دانوں کی نالائقیاں بھی پاکستان کے مقدر میں لکھی جا چکی تھیں، جنہوں نے پاکستان اور پاکستانی عوام کے لئے سوچنے کی بجائے، حصول اقتدار کو متمع نظر بنا لیا۔اس کی گواہی پاکستان کے آئین کی کہانی سے مشترع ہے ۔ بدقسمتی سے آئین کے ساتھ اس کھلواڑ میں اپنے پرائے سب برابر کے شریک ٹھہرے۔ پہلا کھلواڑ 1956ء کے آئین کے ساتھ اسکندر مرزانے1958میں کھیلا۔1962ء کے آئین کو 1969ء میں جنرل یحیٰ خان کے ہاتھوں ’ہزیمت‘ اُٹھانا پڑی۔ 1973ء کا آئین جنرل ضیا نے1977 میں یہ کہہ کر پس ِ پشت ڈال دیا کہ’ آئین کے اس کتابچے کی کیا اہمیت ہے، یوں وہ آئین جو پاکستان کی تاریخ کا سب سے اچھا اور متفقہ آئین قرار پایا تھا اسے صرف چار سال بعد ہی اپنے انجام سے دو چار ہونا پڑا۔1979میں جب روس کی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو ہم نے، سات سمندر پار بیٹھے، ’سو کالڈ‘ اپنے دوست ’امریکا‘ کے ایماپر، مدرسوں کے طلباء کے ہاتھوں میں کلاشنکوف دے کر ’طالبان‘ تخلیق کیے ۔ یہ وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جس نے اس ملک کو اندھروں میں دھکیلا، ناجائز اسلحہ کے انبار لگائے، ہیروین جیسی لعنت خریدی اور ملک میں ’دھماکوں‘ کو رواج دیا۔ سیاست دان نہ تو پاکستانی عوام کو قوم میں بدلنے کی کسی سعی میں شریک ہوئے اور نہ ہی کسی سیاسی پارٹی نے اپنے منشور میں غریب عوام کو کوئی اہمیت ہی دی۔ ابتداً پیپلز پارٹی نے ’روٹی، کپڑا اور مکان‘ کا نعرہ لگایا جسے عوم کی طرف سے حد سے زیادہ پذیرائی ملی۔ پیپلز پارٹی کے پہلے دور میں ’نیشنلائزیشن‘ کی پالیسی اسی سمت اُٹھائے جانے والے اقدام میں سے ایک تھا۔ اس کے بعد ہر پارٹی بلند و بانگ دعوے ضرور کرتی رہی لیکن حقیقت میں سیاست، ’خدمت‘ کی بجائے ’مفادات‘ کی اسیر ہو کر رہ گئی، بالخصوص ملکی سیاست میںایک’ ٹرننگ پوائنٹ‘ اُس وقت آیا جب جنرل ضیاء نے1985میں ’نان پارٹی‘ انتخابات کا ڈول ڈالا۔ان انتخابات نے ’ کرپٹ پر یکٹس‘ کی بنیاد ر کھی اور سیاست کو’ خدمت‘ کی بجائے کاروبار بنا دیا۔آج کرپشن کا مفہوم ہی بدل چکا ہے یہ وباء معاشرے میںاس قدر جڑھ پکڑ چکی ہے کہ آج کرپشن پرندامت کی بجائے اس کے دفاع پرتوانائیاں صرف کی جاتی ہیں۔ کبھی سرکاری ٹھیکوں میں’پرسنٹیج‘ طے ہوتی تھی اس کی جگہ آج ’کک بیکس‘ نے لے لئی ہے ۔ چاروں صوبائی حکومتوںپر ترقیاتی منصوبوں میں کرپشن کے الزامات بھی لگتے رہتے ہیں گو ان الزامات کو سب کی طرف سے نہ صرف رد کیا جاتا رہا ہے بلکہ ان الزامات کو مخالفانہ پراپیگنڈا بھی قرار دیا جاتا رہا ہے۔ مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیںکہ سول حکومتوں نے امرانہ روش اپنائی جس پر انہیں اقتدار سے معزول کیا جاتا رہا، دوسری طرف ملٹری ڈکٹیٹر جلد ہی سیاست دانوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے رہے یوں آدھا تیتر آدھا بٹیر والی حکومتیں وہ کچھ ’ڈلیور‘ نہ کر پائیں جن کی ان سے اُمید لگائی گئی۔ تب قوم نے مایوس ہو کر اُمید لگانا ہی چھوڑ دی۔ اس تاریخی پس منظر سے یہ بات بہت حد تک سمجھ آ جاتی ہے کہ ’میاں نواز شریف نے جو 70سالہ پالیسیوں سے بغاوت کا اعلان کیا تو اس کا ’دراصل‘ مطلب کیا تھا؟
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38