دیکھنا یہ ہے کہ وہ کون کون سے شعبے ہائے زندگی ہیں‘ جن کو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر نظرانداز کیا گیا ہے۔ سب سے پہلے قانون سازی کے حوالہ سے ایک بات ہم گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ جہاں آرٹیکل 2 کی تشریح میں یہ الفاظ درج ہیں ’’کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا‘‘ کی جگہ اگر یہ الفاظ ہوں کہ ’’ہر ایک قانون قرآن و سنت کی روشنی میں بنایا جائے گا‘‘ تو کس قدر کام آسان اور سہل ہو جائے گا۔ مقننہ کے لئے کہ پہلی دفعہ قانون سازی کرتے وقت قرآن و سنت کے تمام پہلوؤں کو پیش نظر رکھ کر‘ قانون سازی کریں تاکہ اس قانون کو بار بار قرآن و سنت کے معیار پر پرکھنا اور جانچنا نہ پڑے۔گو یہ بات درست ہے کہ ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ اور ’’شریعت کورٹ‘‘ کی تشکیل کی گئی ہے کہ وہ قوانین جو قرآن و سنت سے متصادم ہوں ان کو قرآن و سنت کی روشنی میں درست کرنے کے لئے پارلیمنٹ کو سفارش کریں اور پھر پارلیمنٹ قانون سازی کرے۔اب تک پاکستان کو بنے ستتر برس بیت چکے ہیں اور ’’آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان 1973ء کو وجود میں آئے چوالیس برس ہو چکے ہیں لیکن تاحال ’’سود‘‘ کا مسئلہ جوں کا توں اٹکا ہوا ہے۔ بنکنگ نظام بھی اسی طرح چل رہا ہے۔ بربا (ربیٰ) یعنی ’’سود‘‘ تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کھلی جنگ کے مترادف ہے۔ نقل کفر‘ کفر نہ باشد۔ ہم کب تک اس سود کی لعنت اور دلدل سے باہر نکلیں گے اور اسلامی بنکاری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں گے۔ ذرا سوچئے! کیا یہ قائداعظمؒ کے فرمودات کے مطابق ہے؟اب ذرا غور کیجئے کہ ہم نے قائداعظمؒ کے فرمودات سے کیا سیکھا ہے؟
ابھی تک ہم آرٹیکل 25-A حق ایجوکیشن ادا نہیں کر سکے یعنی ریاست مہیا کرے گی فری تعلیم بچوں کو‘ جن کی عمر پانچ سال سے سولہ کے درمیان ہو‘ جو قانون واضح کرے۔ یاد رہے! جب ہم حق ایجوکیشن کی بات کرتے ہیں تو ہمارے سامنے سکولوں میں صرف عصری تعلیم ہی نہیں بلکہ دینی تعلیم جو اسلامی مدارس میں دی جاتی ہے‘ وہ بھی شامل ہے۔
قائداعظمؒ کے فرمودات سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایک اچھا کامیاب اور ہنرمند شہری بنانے کے لئے‘ دونوں طرح کی تعلیم (یعنی دینی و عصری) کا تمام بچوں کو جن کی عمر پانچ برس سے سولہ برس کے درمیان ہے‘ دیا جانا لازم ہے تاکہ قرآن و سنت کی تعلیم جو ’’ایمان‘‘ کا جزو لاینفک ہے وہ سب سے پہلے اور اس کے بعد ’’عصری تعلیم‘‘ جس کا تعلق دینوی زندگی گزارنے سے متعلق ہے‘ جاننا‘ ازبس لازم ہے۔ دونوں طرح کی تعلیم کے بارے جب ہم تیسری اور چوتھی صدی ہجری کی طرف نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے ان صدیوں میں مصر‘ فارس اور مراکو میں ایسی شاندار جامعات تھیں جن کی مثال اس وقت پوری دنیا میں نہیں ملتی۔ وہاں پر یہ تعلیم (دینی و عصری) ایک چھت کے نیچے دی جاتی تھی۔ طلبہ کا لباس بھی ایک اور نماز کے اوقات کی بھی پابندی کی جاتی تھی۔ گویا وہ ایسے مسلمان رہنما‘ کیمیا دان‘ طبیب‘ ریاضی دان وغیرہ تیار کر رہے تھے جو پوری دنیا کے انسانوں کی ہر شعبہ زندگی میں‘ رہنمائی کرنے والے تھے۔ ابن سینا‘ جابر بن حیان اور دیگر بہت سے عظیم سائنس دان اس دور میں تیار ہوئے۔ہماری صرف اتنی سی گزارش ہے کہ آج بھی اس دور کی اچھی اور قابل عمل طریقۂ کار کو اپنانا ہو گا۔ اسی نہج پر نصاب تعلیم (دینی و عصری علوم پر مشتمل) تیار کرنا ہو گا اور ایک ہی چھت کے نیچے تمام عصری اداروں اور اسلامی مدارس کی تعلیم کو لانا ہو گا۔ گویا یکساں نصاب تعلیم لاگو کرنا ہو گا۔ (ختم شد)
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024