’’نوائے وقت‘‘ کے بارے میں کہنے لگے بھئی! نظریے، فکر اور مقصد کا نام ’’نوائے وقت‘‘ ہے۔ ساتھ ہی کہا ’’کھڑپینچ اخبار ہے بھئی!‘‘ اس لفظ میں نوائے وقت کی آمرانہ حکومتوں سے پنجہ آزمائی بند نظر آتی ہے۔ چند روز قبل ایک شخص سے ملاقات ہوئی تو ’’نوائے وقت‘‘ کا تذکرہ چل نکلا تو ان صاحب نے کہا۔ ’’قربان جائیے نوائے وقت کی قناعت پسندی اور اصول پسندی پر۔ نہ کسی معاصر اخبار سے دوڑ اور نہ کسی چینل کے ساتھ ریٹنگ کے سلسلے میں نظریۂ پاکستان اور اسلامی روایات و اقدار سے دوری۔ اسٹال پر پہنچ کر گھر لے جانے کیلئے جس اخبار کی طرف ہاتھ بڑھتا ہے وہ ’’نوائے وقت‘‘ ہی ہے۔ اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں ’’نوائے وقت‘‘ کے دفتر میں آتے جاتے ایک عرصہ بیت چلا ہے۔ ’’نوائے وقت‘‘ کے اہم ترین شعبوں میں ’’نوائے وقت‘‘ کا ایڈیٹوریل روم ہے۔ ایڈیٹوریل روم کی اصل سرپرستی تو آبروئے صحافت اور معمارِ نوائے وقت مجید نظامی مرحوم و مغفور ہی فرماتے۔ ان کا اس دنیا فانی سے رخصت ہونا ابھی ذہن میں صدمے کی صورت میں محفوظ ہے۔ اس ایڈیٹوریل روم کے حوالے سے جن شفیق اور مہربان ہستیوں کے بچھڑنے کا افسوس اور ملال تاحال تازہ ہے۔ ان میں طلعت قریشی اور حسنین جاوید (لاہور سے لاہور تک فیم) کی تصویریں ہمارے دل کے فریم میں سجی ہوئی ہیں۔ یہ دونوں ہستیاں خاکسار اور کمترین کے کالم کو وقعت دیتی تھیں اور حوصلہ افزائی بھی فرماتی تھیں۔ چند روز قبل محترم فضل اعوان صاحب کے کالم میں ایک اور بزرگ مہربان اور شفیق ہستی کے داغِ مفارقت کا تذکرہ پڑھا تو عجیب دکھ محسوس ہوا۔ یہ ہستی جناب پرویز حمید صاحب کی تھی۔
پرویز حمید صاحب صحافتی رموز سے بھی آگاہ تھے۔ ادبی دنیا سے بھی واقف تھے۔ اہلِ علم تھے۔ غلط بات پر شفقت سے ڈانٹ بھی پلا دیتے تھے۔ ایک خوبی ان میں کمال درجے کو پہنچی ہوئی تھی کہ ملنے جلنے والوں کو بہت احترام دیتے تھے۔ دوستوں کے ساتھ طنزومزاح بھی خوب کر لیتے تھے۔ طنز کا پھول مجھ پر پھینکتے تو لطف آ جاتا۔ ایک کالج کے پرنسپل صاحب کے ساتھ ہم چند پروفیسروں کا معرکہ ہو گیا تو پرویز حمید صاحب نے اپنے انداز میں ہمارا دفاع کیا۔ اللہ تعالیٰ پرویز حمید صاحب کے درجات بلند فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ (آمین) ابھی یہ زخم تازہ تھا کہ ایک اور سناؤنی آگئی اور وہ ہمارے بزرگ ڈاکٹر انور سدید صاحب کے بارے میں تھی۔ ڈاکٹر انور سدید صاحب کی علالت کی خبریں تو دو ایک سال سے گردش میں تھیں۔ ایک دن میں ڈاکٹر انور سدید صاحب کی خیریت معلوم کرنے گیا تو احتیاطاً ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔ فرمانے لگے۔ ’’تنویر حسین! مسجد میں میری صحت کیلئے دعا کراؤ۔‘‘
ڈاکٹر انور سدید صاحب اپنی تنہائیوں سے پیار کرتے تھے اور لوگوں سے میل ملاقات‘ پی آر کیلئے تگ و دو‘ ٹی وی پروگراموں میں انٹرویو دینے اور میڈیا میں صرف نظر آنے کیلئے گفت گو کرنا انکے مسلک میں شامل نہ تھا۔ پروڈیوسروں کو انکی طرف سے انکار ہی سننے کو ملتا۔ ڈاکٹر انور سدید صاحب کو ان کی دو کتابوں نے بہت شہرت دی۔ ’’اُردو ادب کی مختصر تاریخ‘‘ اور ’’اردو ادب کی تحریکیں‘‘ ’’اُردو ادب کی تحریکیں‘‘ ایک ایسی کتاب ہے‘ جو اپنے مواد‘ جامعیت اور اُسلوب کے اعتبار سے پورے ہندوستان اور پاکستان میں دوسری نظیر نہیں رکھتی۔ یہ کتاب ڈاکٹر انور سدید صاحب کی شاہ کار کتاب ہے۔ یہ ان کا پی ایچ ڈی کا تھیسس ہے۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری کیلئے بھی ایسا مقالہ افتخار کا باعث ہوتا ہے۔ اسی طرح ’’اُردو ادب کی تاریخ‘‘ نے بھی مقبولیت اور شہرت کے جھنڈے گاڑے ہیں۔ اُردو ادب کا ہر طالبِ علم اس کتاب کا مطالعہ کرتا ہے اور اس کا تذکرہ کرتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا کتاب کے ساتھ رشتہ بہت مضبوط تھا۔ جب ڈاکٹر انور سدید صاحب نوائے وقت کے ایڈیٹوریل میں شامل تھے تو مجید نظامی صاحب ان کی صلاحیتوں کی بہت قدر کرتے تھے مجیدنظامی صاحب ہی کے حکم سے انور سدید صاحب کو تاحیات ’’نوائے وقت‘‘ کیلئے لکھنے کیلئے آمادہ کیا تھا۔ ڈاکٹر انور سدید صاحب کا حافظہ اتنا زبردست تھا کہ مختلف ادوار کے ادیبوں شاعروں کے حوالے سے ایک آدھ گھنٹے میں نہایت پُرمغز مضمون تحریر کر لیتے تھے۔ ہم انکی اس مہارت پر دنگ رہ کر تعریفی کلمات کہتے تو وہ فوراً جواب دیتے۔ ’’چھوڑو یار! ہمیں اپنے بارے میں معلوم ہے ’’تم ہمیں کورامین کا انجکشن لگاتے ہو۔‘‘
دفتر ’’نوائے وقت‘‘ سے ڈاکٹر انور سدید صاحب میری موٹر سائیکل پر ڈاکٹر وزیر آغا صاحب کے ہاں جاتے تو میری عید ہو جاتی۔ ڈاکٹر وزیر آغا صاحب کے ساتھ بہت لمبی نشست ہوتی۔ کتابوں اور ادبی منظر نامے کی باتیں ہوتیں مصروف ادیب و شاعر اور ایڈیٹر۔ شاہد شیدائی صاحب بھی تشریف لاتے۔ چائے کے کئی دور چلتے۔ ہم نے ان بزرگوں کے قرب سے بہت کچھ سیکھا۔ مجھے اکثر کہا کرتے تھے۔ تمہیں پی ایچ ڈی کرنی چاہیے۔ ڈاکٹر صاحب اہم اور بڑے نقاد تھے۔
مشفق خواجہ صاحب نے انکے بارے میں لکھا تھا کہ وہ کسی کمزور اور ماٹھے ادیب شاعر پر اتنا اچھا مضمون لکھتے ہیں کہ وہ ادیب شاعر بھی بڑا نظر آنے لگتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کسی لکھنے والے کو نظرانداز نہیں کرتے تھے۔ کوئی ایک نظم لکھے یا ایک غزل، ایک انشائیہ لکھے یا ایک افسانہ۔ ڈاکٹر صاحب اسے مبارکباد کا خط لکھتے۔ پھر کسی نہ کسی حوالے سے اس کا ذکر اذکار اپنے مضامین یا تبصروں میں کرتے۔ اپنے ملنے جلنے والوں سے اس نئے لکھنے والے کا تذکرہ کرتے۔ اگر کہیں سے کوئی کتاب شائع ہوتی تو ڈاکٹر صاحب اس کتاب کی خوش بُو اپنے مضامین اور کالموں کے ذریعے پورے ادبی چمن میں پھیلا دیتے۔ تحسین کرتے تو ذرے کو آفتاب بنا دیتے۔ تنقید پر آتے تو پھر بڑے بڑوں کو خاطر میں نہ لاتے اور ایمان داری سے اپنا فیصلہ سناتے۔ ڈاکٹر صاحب نقاد تو اعلیٰ پائے کے تھے ہی تھے۔ وہ افسانہ نگار، انشائیہ نگار، خط نگار، تعارف نگار، تبصرہ نگار اور شاعر بھی تھے۔ وہ بہت سی جہتوں کے مالک تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ انہیں کروٹ کروٹ جنت عطا فرمائے۔ ان کے درجات بلند کرے۔ انکے لواحقین اور دوست احباب کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی ہمت عطا کرے اور انہیں صبر جمیل سے نوازے۔ (آمین)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38