ہندو اور انگریز دونوں بھارت کی تقسیم کیخلاف تھے : ڈاکٹر مجید نظامی
لاہور (وقت نیوز) ایڈیٹر انچیف نوائے وقت گروپ اور مجاہد تحریک پاکستان ڈاکٹر مجید نظامی نے کہا ہے وہ 12 سال کے تھے جبکہ تحریک پاکستان شروع ہوچکی تھی۔ ہم ہر جمعہ کے بعد جلوس نکالتے اور ’’لیکر رہیں گے پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان‘‘ کے نعرے لگا کر اپنا فرض ادا کیا کرتے تھے۔ میٹرک تک تعلیم سانگلہ ہل میں حاصل کی تاہم میٹرک کا امتحان دینے کیلئے لاہور میں حمید نظامی کے پاس آگیا۔ حمید نظامی بیڈن روڈ پر رہائش پذیر تھے۔ وہ پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے بانی صدر تھے۔ ایم ایس ایف کا دفتر بھی بیڈن روڈ پر تھا۔ وقت نیوز کے پروگرام ’’میں نے پاکستان بنتے دیکھا‘‘ میں 23 مارچ کے موقع پر خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا اللہ کا شکر ہے میں نے تحریک پاکستان کی صفِ اوّل میں کام کیا۔ ڈاکٹر مجید نظامی نے کہا 1946ء کا الیکشن پاکستان کی بنیاد ہے ہم خدانخواستہ وہ الیکشن ہار جاتے تو پاکستان بننا ناممکن ہوتا یعنی بہت مشکل ہوتا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ ٹی بی کے مریض تھے، اسکے ساتھ سگار بھی پیتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے 1940ء کو لاہور میں جو قرارداد پاکستان منظور ہوئی، وہ پاکستان کی بنیاد بنی۔ ایک قسم کا مسلمانان ہند نے اعلان کردیا ہم پاکستان بنا کر رہیں گے۔ ہندو بھارت ماتا کی تقسیم کے خلاف تھا، صرف یہی نہیں بلکہ انگریز بھی خلاف تھا۔ انگریز چاہتا تھا جو بھارت ہم چھوڑ کر جائیں وہ ایک ملک ہو دو نہ ہوں۔ یہ بھی مشہور ہے پنڈت نہرو کا معاشقہ لیڈی مائونٹ بیٹن کے ساتھ چل رہا تھا۔ اس وجہ سے بھی انگریز ہندوئوں کا حامی تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے ہم نے پاکستان حاصل کرنے کیلئے بہت زیادہ قربانیاں دیں۔ لاہور میں تحریک پاکستان کے لئے پہلا شہید مالک تھا، وہ میرا کلاس فیلو تھا ہم موجودہ ایم اے او کالج کے سامنے کھڑے نعرے لگا رہے تھے کہ کالج کے اندر سے اینٹیں آنا شروع ہوگئیں۔ وہ اینٹیں ہم نے جواباً مارنا شروع کردیں لیکن ایک اینٹ مالک کو لگی اور وہ میری گود میں شہید ہوگئے۔ ڈاکٹر مجید نظامی نے کہا خدانخواستہ پاکستان نہ بنتا تو ہماری حالت بہت بری ہوتی کیونکہ انارکلی بازار میں ایک آدھ دکان مسلمانوں کی تھی، انارکلی ہندوئوں سے سے بھری ہوئی تھی، مال روڈ پر صرف ایک دکان موجودہ فیروز سنز صرف مسلمانوں کی تھی۔ ایک سوال پر کہا لاہور جو آج بھی پاکستان کا دل ہے وہ اس زمانے میں بھی ہندوستان کا دل تھا، لاہور کے تعلیمی ادارے تحریک پاکستان کو مضبوط کر رہے تھے، اسی وجہ سے لاہور کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ لاہور کے تمام دروازے ہندوئوں کے تھے۔ یکی گیٹ صرف مسلمانوں کا تھا۔ جہاں اس وقت نظریہ پاکستان کا دفتر بنایا ہے یہ ہندوئوں کی کوٹھی تھی، اس کے صحن میں بلڈنگ بنائی ہے، کوٹھی میں بزم اقبال کا دفتر ہے، میں سمجھتا ہوں مسلمانوں نے پاکستان بنا کر آنے والی نسلوں پر احسان کیا ہے، ملک میں تھوڑی بہت جو خوشحالی نظر آ رہی ہے وہ اسی وجہ سے ہے، غربت کے ساتھ ساتھ خوشحالی بھی ہے۔ گاڑیوں کی بھرمار سے راستہ نہیں ملتا، 14 اگست 1947ء کو پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد مہاجروں کی آمد شروع ہو گئی جبکہ ادھر سے ہندو جانا شروع ہو گئے۔ مسلمانوں نے آتے ہی اچھی دکانوں اور گھروں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ یہ پاکستان کی ایک اور سائیڈ ہے جسے لالچ اور طمع کی سائیڈ کہتے ہیں۔ میرا خیال ہے پاکستان نہ بنتا اور ہم ہندوئوں کے غلام ہوتے تو میں کہیں اخبار بیچ رہا ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے پاکستان بنا اور ہم نے ایک آزاد قوم کے طور پر رہنا شروع کیا۔ آزادی سے بڑھ کر دنیا میں کوئی نعمت نہیں، قیام پاکستان کے بعد اعلیٰ تعلیم کیلئے بیرون ملک گئے اور واپسی پر دوقومی نظریئے کے پرچار کا بیڑہ اس لئے اٹھایا زمانہ طالب علمی سے ہی تحریک پاکستان میں حصہ لیا اور جلوس نکالے۔ اس کو اپنانے کیلئے زیادہ توجہ کی ضرورت نہیں تھی، خود بخود ہو گیا۔ ایک سوال پر کہا مجھے بہت زیادہ افسوس ہے پاکستان کو قائداعظم محمد علی جناحؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کا پاکستان نہ بنا سکے۔ علامہ اقبالؒ نے نظریہ اور ویژن دیا اور خط لکھ لکھ کر قائداعظمؒ کو لندن چھوڑ کر پاکستان آنے پر مجبور کیا تاکہ مسلمانوں کی قیادت کریں۔ قائداعظمؒ نے علامہ اقبالؒ کی بات مان لی اور واپس آ کر مسلمانوں کی رہنمائی شروع کر دی۔ 1938ء میں علامہ اقبالؒ اللہ کو پیارے ہو گئے لیکن 23 مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان ان کے ویژن کے مطابق منظور ہوئی اور حضرت قائداعظمؒ کی قیادت میں اس قوم نے سات سال کے عرصہ میں پاکستان بنا دیا لیکن ہم پاکستان کو اسلامی جمہوری فلاحی ریاست نہ بنا سکے کیونکہ پاکستان میں پوری طرح نہ اسلام ہے اور نہ جمہوریت ہے اور نہ ہی عوام کی فلاح و بہبود ہے۔ غریب کو روٹی نہیں مل رہی، اسے روٹی ملے لیکن یہ چیزیں نہیں ہو رہیں جو ہمارے حکمرانوں کا مقصود ہے۔ جب ملک میں بار بار فوجی آمر آئے تو مشرقی پاکستان والوں نے سوچا ہمارا کوئی جنرل نہیں، خواجہ شاہد کا بیٹا جنرل ہے جو ریٹائر ہونے والا ہے، پھر ہماری باری کس طرح آئے گی تو انہوں نے 1971ء میں ایک ملک بنا لیا جس کا نام بنگلہ دیش ہے۔ دعا کریں ایک دن پاکستان ایک ہو، بنگلہ دیش پاکستان کا حصہ ہو گا۔ ایک سوال پر کہا بھارت کے لالہ جی بہت آگے کا سوچتے ہیں، ہمارے مجاہدین 1947ء میں سرینگر تک پہنچ گئے تھے لیکن انہیں وہاں سے واپس آنا پڑا کیونکہ انہیں کمک نہ پہنچ سکی۔ ہندوستان نے اپنی فوج وہاں اتار دی اور سرینگر پر قبضہ کر لیا۔ ہمارے پاس وہ کشمیر رہا جو پانی کا منبع نہیں تھا۔ دریائوں کا منبع بھارتی کشمیر ہے، وہ جب چاہے ہمیں پانی سے محروم کر کے پیاسا مار سکتا ہے اور جب چاہے وہ ہمیں سیلاب زدہ کر کے تکلیف پہنچا سکتا ہے۔ دو تین روز پہلے خبر آئی تھی بھارت نے چناب میں اتنا پانی چھوڑا ہے کہ سیلاب آ گیا ہے۔ بھارت ہرگز ہرگز نہیں چاہتا پاکستان کو کشمیر ملے۔ بھارت کی پشت پر اسرائیل ہے اور اسرائیل کی وجہ سے امریکہ بھی ہے۔ میں کئی بار کہتا ہوں یہ شیطانی اتحاد ثلاثہ ہے جو پاکستان کی جڑوں میں بیٹھا ہوا ہے ہم جب تک اس سے نجات حاصل نہیں کریں گے بڑا مشکل ہے کہ آگے بڑھ سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر ایک قسم کا عذاب نازل کر رکھا ہے کہ ہم نے پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کی بجائے کوئی اور ہی قلعہ بنا دیا ہے جس کی سزا ہمیں مل رہی ہے کسی نہ کسی دن انشاء اللہ ٹھیک ہو گا۔ بھارت کے ساتھ حکومت کی دوستی کی پینگوں کے حوالے سے سوال پر کہا ہماری لیڈرشپ بھارت کے ساتھ تجارت کر کے پیسہ کمانا چاہتی ہے حالانکہ بھارت کے ساتھ تجارت کر کے یہ پیسہ نہیں بنا سکتے۔ ہمارے پاس کون سی چیز ہے جو بھارت کو ایکسپورٹ کریں گے لیکن اس پیسے سے مستقل غلامی یا طرز زندگی کو بدلا جائے۔ 23 مارچ کے موقع پر پیغام دیتے کہا قوم مایوس نہ ہو اور الیکشن میں ایسی پارٹی کو ووٹ دیں جو بھارت کی دوستی کے حامی نہ ہوں اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں۔ میرا خیال ہے مسلم لیگوں کو ایک ہونا چاہئے وہ یونائیٹڈ مسلم لیگ ہو جو قائداعظمؒ کی مسلم لیگ ہو اور ان کی پالیسیوں پر عمل کرتی ہو وہی ایسا کام کر سکتی ہے موجودہ مسلم لیگیں نہیں، میں نے مسلم لیگ کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی تھی۔ پیر پگارا نے کہا میں بیمار ہوں اپنا نمائندہ بھیج کر کہا مسلم لیگ اکٹھا ہو تو فنکشنل اس کا حصہ ہو گی۔ شجاعت حسین نے بھی کہا مسلم لیگ ایک ہو جس کا نام یونائیٹڈ مسلم لیگ ہو البتہ نوازشریف نے بات کلیئر نہیں کی حالانکہ وہ ایک مسلم لیگ کی بات کرتے تو ایک مسلم لیگ بن سکتی ہے وہی اس کے قائد ہوتے لیکن ان کا نکتہ نگاہ کچھ اور تھا جو بھارت سے تجارت ہے۔
ڈاکٹر مجید نظامی