پاکستان‘ بھارت اور چین کیا انسانی ترقی میں بھی سرفہرست آنے کا سوچیں گے: بی بی سی
لندن (بی بی سی) معاشیات کے نوبیل انعام یافتہ بھارتی پروفیسر امرتیا سین اور سرکردہ پاکستانی ماہرِ اقتصادیات ڈاکٹر محبوب الحق نے 1990ء میں یہ نظریہ پیش کیا کہ کسی ملک کی ترقی ماپنے کا فارمولا کل قومی پیداوار و آمدنی دیکھنے کے بجائے یہ ہونا چاہیے کہ ایک عام شہری قومی دولت و ترقی میں کتنا حصہ دار ہے۔ اس ملک کی کتنی آبادی تعلیم یافتہ، صحتمند، طویل العمر ہے اور اس آبادی کا عمومی معیارِ زندگی کیا ہے۔ اس نظریے کے تحت ہر سال انسانی ترقی کی ایک عالمی فہرست جاری کی جاتی ہے تاکہ حقیقی ترقی کا اندازہ ہو سکے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ برس اس فہرست میں اقوامِ متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 187 ممالک کو انسانی ترقی کے اعتبار سے جو پوائنٹس دیے گئے ان میں سب سے زیادہ سکور ناروے کا ہے۔ اس نے ایک ہزار میں سے 955 پوائنٹس حاصل کئے ہیں جبکہ سب سے کم سکور افریقی ملک نائجر اور کانگو کا ہے جنہوں نے صرف 304 پوائنٹس حاصل کئے مگر انسانی ترقی کے اعتبار سے سب سے اول ملک ناروے دفاعی اخراجات کی فہرست میں 27 ویں نمبر پر ہے جبکہ انسانی ترقی کی عالمی فہرست میں 136 ویں نمبر پر آنے والے بھارت نے پچھلے پانچ برس میں اپنے دفاعی اخراجات میں 111 فیصد کا اضافہ کیا اور اس دوران عالمی اسلحہ منڈی کا 14 فیصد اسلحہ خریدا۔ چین حالانکہ انسانی ترقی کی عالمی فہرست میں 101 ویں نمبر پر ہے مگر اسلحہ کا دوسرا بڑا عالمی خریدار ہے اور اس نے اسلحہ منڈی کا 5 فیصد اسلحہ خریدا جبکہ پاکستان جو انسانی ترقی کی عالمی فہرست میں 146 ویں نمبر پر ہونے کے ناطے چین اور بھارت سے بھی پیچھے ہے۔ اسکے دفاعی اخراجات میں پچھلے پانچ برس کے دوران 119 فیصد اضافہ ہوا اور اس نے عالمی منڈی سے چین کے برابر یعنی 5 فیصد اسلحہ خریدا۔ بھارت، چین اور پاکستان جیسے ممالک جو انسانی ترقی کی فہرست میں میلوں دور ہیں۔ وہ کس خطرے سے خود کو بچانے کیلئے اسلحہ کے تین چوٹی کے عالمی گاہکوں میں شامل ہیں؟ تو کیا اسلحہ کا سب سے بڑا عالمی گاہک بھارت، دوسرے بڑے گاہک اور اپنے سب سے بڑے تجارتی پارٹنر چین کو 66 ارب ڈالر سالانہ کی دوطرفہ تجارت کے باوجود عسکری طور پر فتح کرنا چاہتا ہے؟ کیا چین ایشیا کی دوسری بڑی عسکری طاقت بھارت پر قبضہ کرنا چاہتا ہے؟ کیا اسلحہ کا تیسرا بڑا گاہک پاکستان دوسرے بڑے گاہک چین کی مدد سے پہلے بڑے گاہک بھارت کو اسلحہ کی شاپنگ میں ہرانا چاہ رہا ہے؟ تینوں ممالک کے پاس جو ایٹمی گودام ہیں وہ ان کا احساسِ عدمِ تحفظ ختم کرنے کیلئے کیوں کافی نہیں؟ اچھا تو قبلہ بھارت مان لیا کہ آپ اسلحہ کے خریداروں میں اول نمبر ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھی ہیں اور بھائی چین آپ صرف اسلحہ کے دوسرے بڑے عالمی خریدار نہیں بلکہ دوسری بڑی عالمی معیشت بھی ہیں اور محترم پاکستان آپ صرف اسلحہ کے تیسرے بڑے خریدار نہیں بلکہ پہلی مسلمان ایٹمی طاقت بھی ہیں۔ اب یہ فرمائیے کہ آپ لوگ پوری عمر انہی کامیابیوں پر سینہ پھلا کر گزاریں گے یا پھر مجموعی اور حقیقی انسانی ترقی کی عالمی فہرست میں بھی پہلے دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے کا بھی سوچیں گے؟