مجھے دو بار ٗ بھارت کے دو صوبوں پنجاب اور ہریانہ کے مشترکہ داراُلخلافہ ’’چنڈی گڑھ‘‘ جانے کا اتفاق ہُوا پہلی بار دسمبر 2004 ء میں پٹیالہ میں منعقد ہونے والی ٗ عالمی پنجابی کانفرنس میں شرکت کے لئے وزیرِ اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے ہمراہ ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں کے وفد کے رُکن کی حیثیت سے اور دوسری بار۔ جون2006 ء میں، جب مَیں اپنے جدّی پُشتی پیِرو مُرشد، سُلطان اُلہند حضرت خواجہ مُعِین اُلدّین چشتی ؒ کی بارگاہ میں حاضری کے لئے اجمیر شریف گیا اور امریکہ میں مقیم اپنے بیٹے انتظار علی چوہان کی فرمائش پر مَیں نے اُس کے کلاس فیلو اور سِکھ دوست امن داسنؔ سے ملاقات کے لئے چنڈی گڑھ کا وِیزا بھی لگوا لِیا تھا پہلی بار ہمارے وفد کے نگران پنجابی اور اردو، انگریزی کے نامور ادیب، شاعر، نقّاد اور مُصنّف اور اُن دنوں ٗ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج آرٹ اینڈ کلچر کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر شہزاد قیصرؔ تھے لیکن دراصل چنڈی گڑھ میں ہم سب لوگ بھارت کی خُفِیہ ایجنسیوں کی نگرانی میں تھے۔ دوسری بار مجھے آزادنہ طور پر گھُوم پھر کر سارا چنڈی گڑھ دیکھنے کا موقع مِلا۔ اُن دِنوں سیّد انور محمود وفاقی سیکریٹری اطلاعات و نشریات سے تھے۔ اُن کی سفارش پر مجھے اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کے وِیزا آفیسر نے چنڈی گڑھ کے کسی بھی تھانے میں حاضری سی مُستثنیٰ قرار دے دِیا تھا۔
دسمبر 2004 ء اور پھر جون 2006 ء میں مجھے پتہ چلا اور بتایا گیا تھا کہ اسلام آباد اور چندی گڑھ کا ایک ہی طرح نقشہ یونان کے ایک آرکیٹکچر نے بنایا تھا۔ دونوں بار میری گردن فخر سے تن گئی جب مَیں نے دیکھا کہ اسلام آباد کے مقابلے میں چنڈی گڑھ بہت ہی گندا شہر ہے۔ چنڈی گڑھ میں آٹو رکشا سائیکل رکشا، فٹِیچر بسیں اور گدھا گاڑیاں بھی چلتی تھِیں۔ ہر طرف گندگی کے ڈھیر نظر آئے۔ شاید بھارتی پنجاب اور ہریانہ کی حکومتوں نے چنڈی گڑھ کی صفائی کی ذمہ داری ایک دوسرے پر چھوڑ دی تھی۔ یا اپنی دیوی ’’ چنڈی‘‘ (خُونخوار کالی دیوی) پر مجھے نہیں معلوم کہ جون 2006 ء کے بعد چنڈی گڑھ کی بدصورتی میں کِتنا اضافہ ہُوا؟ یا وہ خوبصورت شہر بن گیا لیکن اسلام آباد کو کِس کی نظر لگ گئی؟ کہ اب مجھے یہ خوبصورت شہر’’ خُونخوار چنڈی دیوی‘‘ کی بد دُعا کے زیرِ اثر لگتا ہے۔ کیا ہم اسلام آباد اور چنڈی گڑھ میں یکجہتی اور ثقافتی رِشتوں میں مماثلت کی تلاش میں ہیں؟۔
مَیں نے 25 سال پہلے اپنے ایک کالم میں لکِھا تھا کہ ’’ اسلام آباد ایک ایسا شہر ہے جو بسایا نہیں بلکہ سجایا گیا ہے۔ فارمولا پنجابی فلم کی طرح اِن ڈور اور آئوٹ ڈور سَیٹس لگا کر‘‘۔ لیکن اکثر لوگوں کا عقِیدہ ہے کہ ’’ اسلام آباد کی دھرتی میں مدفون دو درویشوں حضرت شاہ عبدالطیف کاظمی مشہدی اَلمعرُوف امام بری ؒ اور گولڑہ شریف کے پِیر مہر علی شاہ ؒ کی دُعا و برکت سیٗ اسلام آباد کی دھرتی کے بھاگ جاگ اُٹھّے ہیں‘‘۔یہ بات تو درست ہے کہ اسلام آباد کی دھرتی ہے بڑی مہمان نواز۔اُس نے’’ برادرانِ اسلام‘‘ افغان مہاجِرین کی مہمان نوازی میں بھی کُھلے دِل کا مظاہرہ کِیا جِس طرف دیکھو! (اور نہ بھی دیکھو! تو بھی) افغان مہاجِرین کی بستِیاں ہی بستِیاں۔ انگریزی زبان کے شاید کسی عاشق نے کہا تھا "Live in my Heart and pay no rent" یہ مقولہ پَشتو پَختو دَری یا فارسی زبان میں ترجمہ ہو کر افغان مہاجرین کے کانوں تک کیسے پہنچ گیا؟ وفاقی وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان یا اُن کی طرف سے قرار دئیے گئے ’’ محب ِ وطن طالبان‘‘ سے پوچھ کر بتائوں گا۔
99 فیصد افغان مہاجِرین کے پاس شناختی کاغذات نہیں ہیں۔ بس مذہبی/ سیاسی جماعتوں کے قائدین کی طرف سے جاری کِیا گیا یہ زبانی سرٹیفکیٹ ہی کافی ہے کہ ’’ اِن کا ہر ایک فردکلمہ گو مسلمان ہے اورِ ’’مِلت اسلامیہ کا فرد‘‘ پھر یہ اصحاب علاّمہ اِقبال کا یہ مِصرع بھی پڑھتے ہیں کہ
’’ہر فرد ہے مِلّت کے مُقدّر کا سِتارہ‘‘
کئی جیدّ عُلماء کا موقف ہے کہ’’ اسلام آبادکی افغان بستیوں کے مکِینوں کو بے دخل کرنے سے پہلے اُن سے یا اُن کے دِینی سرپرستوں سے مذاکرات کئے جائیں‘‘۔ اسلام آباد کو علمی، ادبی اور ثقافتی شہر بنانے والی دو شخصیات ڈاکٹر غضنفر مہدی اور جناب ظفر بختاوری کی خدمات سے کوئی فائدہ ہی نہیں اُٹھا رہا۔ میری تو کوئی مانتا ہی نہیں اہلِ اسلام آباد مجھے ’’ لاہوری‘‘ اور زندہ دلانِ لاہور ’’ اسلام آبادی‘‘ سمجھتے ہیں مَیں نے 29 نومبر2002 ء کو ’’ ڈومِیسائل‘‘ کے عنوان سے ایک کالم لکِھا تھا کہ جو کوئی ’’ جِس شہر میں دفن ہو دراصل اُس کا ’’ ڈومِیسائل‘‘ اُسی شہر کا ہوتا ہے ۔ اور
’’ مجھ کو نہیں خبر ، میری مٹّی کہاں کی ہے؟‘‘
اسلام آباد کی سماجی شخصیت اور کئی رفاہی تنظیموں کے روُحِ رواں چودھری محمد ریاض اخترؔ گذشتہ دِنوں مجھے اسلام آباد کی
’’ Drive Long‘‘ پر لے گئے۔ اُنہوں نے مجھے ہر طرف گندگی کے ڈھیر دِکھِائے جو کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی ( سی۔ڈی۔اے) کے چیئرمین جناب معرُوف افضل اور متعلقہ عملہ کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ شائد گندگی کے اِن ڈھیروں نے سلیمانی ٹوپیاں پہن رکھی ہوں۔ اُستاد رشکؔ نے نہ جانے کِس معروفؔ کے بارے میں کہا تھا؎
’’ دشت پَیمائی ترے مجہُول کی
شہر میں مشہور ہے ‘ معرُوفؔ ہے‘‘
چودھری محمد ریاض اختر ؔ نے مجھے دِکھایا اور مَیں نے دیکھا کہ اسلام آباد کے صرف اُنہی سیکٹروں میں صفائی کا معقول انتظام ہے جہاں حُکمران طبقہ ٗ بیورو کریٹس اور سفارت کار رہتے ہیں۔ معروفؔصاحب تو خیر چند مہینوں سے افضلؔ ٹھہرائے گئے ہیں۔ لیکن اُن سے پہلے اور اب بھی اسلام آباد کے باسِیوں کو سی ڈی اے سے’’چُلّو بھر پانی تو مُفت‘‘ سپلائی کِیا جاتا ہے لیکن اُس سے زیادہ قیمتاً مِلتا ہے۔ جب مجھے کوئی نجومی بتاتا ہے کہ ’’ تمہارے دائیں ہاتھ میں آئندہ دو ہفتے تک پانی کی لکیر ہی نہیں ‘‘ تو مَیں ٗ لاہور چلا جاتا ہوں۔ مَیں نے ٹیلی وِژن پر 1960 ء سے اپنے دوست شاعر‘ ادیب دانشور‘ مُصنّف اور معیاری علمی و ادبی جریدہ ’’ اَلاقربائ‘‘ کے ایڈیٹر سیّد منصور عاقل کے گھر پر پولیس کا جمِّ غفِیر دیکھا۔ اُن کے گھر ڈاکہ ڈالنے والے ’’ملزم‘‘ گرفتار کر لئے گئے ہیں۔ یہ ڈاکو کِس کِس کے ’’ اَقربائ‘‘ ہیں؟ فی الحال نہیں بتایا گیا لیکن جِن ڈاکوئوں نے 30 دسمبر 2013 ء کو انفارمیشن گروپ کے سینئرآفیسر پروفیسر محمد سلیم بیگ کے گھر (واقع آئی ایٹ) میں گن پوائنٹ پر بیگ صاحب اور اُن کی اہلیہ سے زندگی بھر کی جمع پُونجی اور زیورات چھِین لئے تھے اُن کے بارے میں ایس ایس پی اسلام آباد ڈاکٹر رضوانؔ نے پروفیسر محمد سلیم بیگ سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہُوئے بتایا کہ ’’ ڈاکوئوں کا تعلق اسلام آباد سے نہیں بلکہ وسطی پنجاب کے مختلف اضلاع سے ہے‘‘ اللہ اللہ خیرصَلا۔ّ ’’ رِضوَانؔ‘‘ جنّت کے داروغہؔ کا نام ہے۔ اُس کا گریڈ آئی جی پولیس کے برابر ہے ؟ یا ایس ایس پی کا؟ ۔ کسی عالمِ دِین سے پُوچھ کر بتائوں گا۔ اب بھلا ڈاکٹر رِضوان اسلام آباد میں ڈاکہ زنی کرنے والے ’’مہمان ڈاکوئوں‘‘ کو کیسے گرفتار کریں؟۔
قصّہ جونیجو کی وزارتِ عظمیٰ کا
Mar 26, 2024