وفاقی وزیر اطلاعات کی بھارت کو پسندیدہ ترین قرار دینے کی منطق اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کی تشویش …قوم حکمرانوں کو کشمیر کاز سے بدعہدی کی ہرگز اجازت نہیں دے گی
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ پاکستان کو ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات درست رکھنا ہوں گے، بھارت کو پسندیدہ ترین قرار دینا کوئی غلط بات نہیں۔ گذشتہ روز لاہور پریس کلب کے پروگرام میٹ دی پریس میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فوج بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کی مخالف نہیں، تمام ادارے حکومتی فیصلوں کے پابند ہیں۔ ان کے بقول پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کے معاملات بھارت میں نئی حکومت کے قیام کے بعد فائنل ہوں گے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ بھارت کے ساتھ تجارت سے پاکستان کو زیادہ فائدہ ہو گا۔ پاکستان کو ایک ارب افراد کی مارکیٹ جبکہ بھارت کو 18 کروڑ افراد کی مارکیٹ ملے گی، اب جو بھارتی چیز دوبئی کے راستے دو سو روپے کی ملتی ہے وہ واہگہ کے راستے دو روپے میں ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف ملک کو جنگوں سے باہر نکال کر اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتے ہیں، ملک کو جنگ سے دور کیا اور امن کے قریب لایا جا رہا ہے۔ ان کے بقول مسلم لیگ (ن) کو گذشتہ دورِ اقتدار میں ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات کی سزا بھگتنا پڑ رہی ہے۔
پاکستانی قوم نے 23 مارچ کو یومِ پاکستان مناتے ہوئے ملک کی یکجہتی، سلامتی اور استحکام کیلئے جو توقعات مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے وابستہ کیں وفاقی وزیر اطلاعات کے گذشتہ روز کے بیان سے یہی محسوس ہو رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو قوم کی توقعات کے برعکس ملک کی بقا و سلامتی کے تقاضوں کی پاسداری تو کجا، احساس تک نہیں ہے ورنہ کسی حکومتی رکن کی جانب سے بالخصوص یومِ پاکستان کے موقع پر اس دشمن ملک کیلئے وارفتگی پر مبنی جذبات کا ہرگز اظہار نہ کیا جاتا جو شروع دن سے ہماری آزادی، خود مختاری اور سلامتی کے درپے ہے اور یہ مقصد حاصل کرنے کیلئے وہ پاکستان کو دولخت کرنے کے بعد بھی گھنائونی سازشوں میں مصروف ہے۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستی اور خیر سگالی کے جذبے پر مبنی خوشگوار تعلقات استوار ہونا بلاشبہ علاقائی امن و سلامتی اور عوام کی خوشحالی کی ضمانت بنتا ہے اس لئے ہمسایہ ممالک کے ساتھ سازگار تعلقات ہماری اپنی ضرورت ہے مگر اس کیلئے تالی ایک ہاتھ سے تو نہیں بجتی۔ اگر کوئی پڑوسی ملک آپ کی سلامتی پر اوچھا وار کر کے ملک کے ایک بازو کو جبراً ہم سے کاٹ چکا ہو اور باقیماندہ ملک کی سلامتی کے بھی نہ صرف درپے ہو بلکہ جارحانہ اقدامات اٹھا رہا ہو تو اس کے ان عزائم کی موجودگی میں اس کے ساتھ یکطرفہ دوستی اور تجارت کی بات کرنا اور اس مقصد کیلئے قیام پاکستان کے مقاصد، پس منظر اور اس کی آزاد اور خود مختار ملک والی حقیقت کو بھی پس پشت ڈالنا ملک کی سالمیت کو عملاً اس مکار دشمن کی دستبرد میں لانے کے مترادف ہو گا۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں وفاقی وزیر اطلاعات ہی نہیں خود وزیراعظم میاں نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف بھی اس دشمن کی جانب سے بچھائے گئے کانٹوں پر بخوشی چل کر اس کو وارفتگی کے ساتھ سینے سے لگانے اور اپنے راستے میں اس کیلئے پلکیں بچھانے کی خواہش کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور عملی اقدامات کیلئے بھی تیار نظر آتے ہیں۔ مقام حیرت ہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات یہ اعتراف کرنے کے باوجود کہ مسلم لیگ (ن) کی سابقہ حکومت کو پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کی سزا بھگتنا پڑی ہے، مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت بھی اسی سوراخ سے پھر ڈسے جانے کی تیاری کر رہی ہے۔ پڑوسی ممالک میں صرف بھارت اور افغانستان کے ساتھ ہی ہمارے دوستانہ مراسم نہیں جس کا باقاعدہ پس منظر موجود ہے۔ بھارت نے تو قیام پاکستان کے وقت سے ہی ہمیں ایک آزاد اور خود مختار ملک کے طور پر قبول نہ کیا اور اس کی شہ رگ کشمیر کا اس کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا کیونکہ اس کی نیت شروع دن سے ہی کشمیر کے راستے آنے والے پانی کو روک کر پاکستان کو قحط سالی سے دوچار کرنے کی تھی، آج تھر اور چولستان کی قحط سالی انہی بھارتی سازشوں کا شاخسانہ ہے جبکہ افغانستان نے بھی برادر پڑوسی مسلم ملک ہونے کے باوجود پاکستان کے ساتھ خدا واسطے کا بَیر رکھ لیا اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کیلئے ووٹنگ میں اسے واحد مخالف ووٹ افغانستان کا ملا، اس دن سے اب تک افغانستان کے حکمرانوں نے پاکستان کو خیر سگالی کا پیغام نہیں پہنچایا بلکہ اس کی سالمیت کے خلاف بھارتی سازشوں کا حصہ بنا رہا ہے۔ گذشتہ روز وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک نے بھی اسی تناظر میں میڈیا کے ارکان سے گفتگو کرتے ہوئے نشاندہی کی ہے کہ بلوچستان کے مسئلہ میں بنیادی طور پر بھارتی و افغان ایجنسیاں ملوث ہیں، اسی تناظر میں افغان صدر کرزئی آج امریکہ کو آنکھیں دکھاتے ہوئے بھی پاکستان کیلئے خیر خواہ نظر نہیں آتے اور بھارت کے ساتھ باقاعدہ دفاعی تعاون کے معاہدے کر چکے ہیں۔ پاکستان کی سلامتی کے خلاف بھارت اور افغانستان کی ان سازشوں کو پیپلز پارٹی کے سابقہ دورِ حکومت میں بھی بے نقاب کیا جاتا رہا ہے اور سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کراچی، کوئٹہ اور خیبر پی کے میں دہشت گردی کیلئے استعمال ہونے والے اسلحہ اور گولہ بارود کے بھارت اور افغان ساختہ ہونے کے ثبوت بھی فراہم کرتے رہے۔ اسی طرح سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے بھی شرم الشیخ کانفرنس کے موقع پر بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ سے ملاقات میں انہیں بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کی جانب سے بلوچستان میں کی گئی دہشت گردی کے ثبوت فراہم کئے جبکہ یہ بھارتی دہشت گرد افغانستان کے راستے ہی پاکستان میں داخل ہوتے رہے ہیں، کیا ایسے دشمن سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ہمارے حکمرانوں کی دوستی کی یکطرفہ خواہش کا جواب بھی اسی جذبے کے تحت دیں گے۔ اس کے برعکس بھارت تو ہماری سلامتی پر وار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور گذشتہ دو سال سے بھارت کی حکمران اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے پاکستان کیخلاف جس جارحانہ انداز میں جنگی ماحول بنایا گیا ہے وہ پاکستان کی سالمیت کے خلاف بھارت کے آنیوالے حکمرانوں کے عزائم کا بھی اندازہ لگانے کیلئے کافی ہے۔ بھارت کی موجودہ حکمران جماعت کانگرس کے پاکستان کی سالمیت کے خلاف عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں جبکہ اپوزیشن بی جے پی نے اپنی انتخابی مہم کا محور ہی پاکستان مخالفت کو بنایا ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات کے بقول بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کا معاملہ نئی حکومت کے قیام کے بعد فائنل ہو گا جبکہ بھارت میں حکومت چاہے کسی کی بھی ہو اس کی پاکستان دشمنی کی پالیسی فائنل ہے جس میں بی جے پی کے اقتدار کی صورت میں مزید سختی تو پیدا ہو سکتی ہے کسی لچک یا نرمی کی ہرگز توقع نہیں کی جا سکتی جبکہ کشمیر پر بھارتی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی بھی ہمہ وقت کی ہے اور ہر بھارتی لیڈر اس ہٹ دھرمی کا اسیر ہے۔ اس تناظر میں ہماری جانب سے بھارت کو پسندیدہ ترین ملک کا ’’سٹیٹس‘‘ دینا اسے پاکستان کی سالمیت کے خلاف اپنے ایجنڈے کی تکمیل کا موقع فراہم کرنے کے مترادف ہو گا۔ اگر وہ کشمیر پر اپنا تسلط برقرار رکھ کر ہمیں بھوکا پیاسا مارنے کی پالیسی پر گامزن رہتا ہے تو ہماری صنعت و تجارت اور معیشت و معاشرت اس کے ہاتھوں ویسے ہی تباہ ہو جائے گی اس لئے ہم اس کے یا کسی بھی ملک کے ساتھ تجارت کے قابل ہی نہیں رہیں گے۔ اس صورتحال میں پرویز رشید کا بیان کردہ یہ مفروضہ خود کو دھوکہ دینے کے سوا اور کچھ نہیں کہ بھارت کے ساتھ تجارت سے ہمیں زیادہ فائدہ ہو گا، انہیں اس حقیقت کا علم نہیں تو کسی تاجر تنظیم سے اعداد و شمار حاصل کر لیں کہ بھارت کے ساتھ ہماری اب تک کی تجارت سے ہمیں فائدہ ہوا ہے یا نقصان ہوا ہے۔ اس وقت بھارت کی دو ارب ڈالر کی تجارت کے مقابلہ میں اس کے ساتھ ہماری تجارت کا حجم 15، 20 کروڑ ڈالر سے نہیں بڑھا اور یہ تجارت بھی ساری کی ساری خسارے کی تجارت ہوئی ہے۔ ابھی دو ماہ پہلے ہی کی بات ہے کہ پاکستان نے بھارتی تاجروں کو ویزے میں نرمی اور راہداری کی سہولتیں فراہم کیں جس کا صلہ بھارت نے ہماری جانب سے تجارتی سامان لے جانے والے 50 کنٹینروں کو مظفر آباد سرحد پر روک کر اور ڈرائیوروں کو حراست میں لے کر دیا۔ ہمارے حکمران ان ڈرائیوروں کو تو آج تک آزاد نہیں کرا سکے مگر بھارت کو پسندیدہ ترین قرار دینے کی انہیں بہت جلدی ہے۔ شاید انہوں نے اس خواہش کے ساتھ کشمیر کاز کو لپیٹنے کی بھی منصوبہ بندی کر رکھی ہے جس کو بھانپ کر بزرگ کشمیری لیڈر سید علی گیلانی ہمارے حکمرانوں کو باور کرا رہے ہیں کہ بھارت کو پسندیدہ ملک کا درجہ دینا کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہو گا۔ اگر اس نمک پاشی کا اہتمام پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کے دورِ اقتدار میں کیا جا رہا ہے تو ملک و قوم کیلئے اس سے بڑی اذیت اور کیا ہو سکتی ہے۔ اس صورتحال میں حکمران مسلم لیگ کی قیادتوں کو سنجیدگی سے سوچنا چاہئے کہ اگر ان کی سابق حکومت کو بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی سزا ملی تھی تو اس غلطی کو دُہرا کر کیا وہ اپنے لئے ماضی سے مختلف نتیجے کی توقع رکھتی ہے؟