جمہوریت میں سیاسی جماعتیں اقتدار کی سیڑھی کہلاتی ہیں مگر پارٹی نظریات اور منشور کے نام پر انتخابات کی سیڑھی کے ذریعے اقتدار کی بلندی پر پہنچنے والی ان جماعتوں میں چند خاندانوں نے اوپر پہنچ کر سیڑھی کھینچ لی ہے‘ یوں تو مسلم لیگ نون ‘مسلم لیگ قاف‘ عوامی نیشنل پارٹی پر خاندانی جاگیر ہونے کا الزام ہے مگر پیپلزپارٹی میں پارلیمنٹیرین گروپ کا بطور جماعت قیام بھی ایک نئی اور دلچسپ سیاسی اختراع بن چکی ہے مرحومہ بینظیر بھٹو کی خود ساختہ جلاوطنی کے دوران اور ان کی ممکنہ انتخابی نااہلی کے پیش نظر بنائی گئی پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کی سربراہی بظاہر بے ضرر مخدوم امین فہیم کو سونپی گئی مگر بی بی کی شہادت اور مشرف کی اقتدار سے روانگی کے باوجود ایک دھڑ اور دو سر والے اس بچے کا یہ سرکس جاری ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان جیسا ادارہ بھی اس سرکس کا ایک ملازم لگتا ہے جس نے جانتے بوجھتے ہوئے بھی کاغذوں میں مخدوم امین فہیم اور عملی طور پر آصف علی زرداری کو پارٹی کا سربراہ تسلیم کیا ہوا ہے چاہے الیکشن کمیشن جیسے اعلٰی ادارے کھلم کھلاکے سربراہ کی تعیناتی ہو یا دوسرے جماعتی انتخابی معاملات پارلیمنٹ اور الیکشن کمیشن مخدوم صاحب کی بجائے زرداری صاحب کے نمائندوں سے رابطوں کو ترجیح دیتے ہیں خاص کر الیکشن کمیشن اس پٹواری کی مانند ہے جس نے جائیداد کے ریکارڈ میں جانتے بوجھتے ہوئے بے نامی اندراج کر رکھے ہوں‘ حیرت کی بات ہے کہ ایک طرف جماعتی وابستگی تبدیل کرنا قانوناً رکنیت سے نااہلی کا باعث قرار دیا جا سکتا ہے تو دوسری طرف الیکشن کمیشن کی اعانت سے پیپلزپارٹی کے دو دھڑوں نے عوام کو بے وقوف بنانے کا کام جاری رکھا ہوا ہے ‘ ایک نجی ٹی وی چینل میں گفتگو کے دوران سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ وہ پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین میں ہیں جب پوچھا گیا کہ وہ بطور سیاسی کارکن مخدوم امین فہیم سے ہدایات لیتے ہیں یا آصف زرداری صاحب سے تو انہوں نے جواب دینے سے گریز کیا‘ پیپلزپارٹی کے اراکین کی الجھن اس وقت بھی واضح ہو گئی جب تھر کے علاقے میں قحط اور بھوک و افلاس سے بچوں کی ہلاکت پر مقامی اعلٰی انتظامی افسر (جو مخدوم امین فہیم کے لخت جگر تھے) کا تبادلہ کر دیا گیا‘ پہلے کہا گیا کہ انہیں ان کی نااہلی کے باعث ہٹایا گیا اور پھر اچانک ہی وزیراعلٰی کو ’’غلطی‘‘ کا احساس ہوا اور اپنے بیان پر معافی مانگنے مخدوم امین فہیم کے گھر جا پہنچے۔ مخدوم صاحب کو بھی اسی وقت یاد آیا کہ وہ بھی پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے سربراہ ہوتے ہیں اور پھر انہوں نے بھی بیان داغ دیا کہ جس پارٹی نے ان کے رشتہ دار کا تبادلہ کروایا ہے وہ اسی پارٹی کے سربراہ ہیں۔
سبحان اﷲ! اور کیا کہنے اس یادداشت کے جو پہلے وزیراعلٰی قائم علی شاہ اور پھر مخدوم امین فہیم کو چکما دے گئی۔ میڈیا والے بھی بڑے ظالم ہیں پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین اور مخدوم امین فہیم کی انتظامی ناکامیوں کا الزام بھی جناب بیچارے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو پر ڈال دیتے ہیں‘ سلام ہے جناب آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کی خندہ پیشانی پر کہ مخدوم امین فہیم کی ناکامیوں کا سہرا بھی اپنے سر باندھ لیتے ہیں‘ یہ بہت بڑی ’’قربانی‘‘ہے اور یقینا بھٹو خاندان میں ان قربانیوں کا سلسلہ کوئی نیا نہیں۔
اب رہ گئی عوام کی الجھن کی بات تو انہیں پتہ ہونا چاہیئے کے انتخابات میں ان کے سامنے بھٹو کے نام لیوا امیدوار پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے ٹکٹ پر الیکشن لڑتے ہیں ویسے بھی کچھ جیالوں کو بلاول بھٹو اور ان کے والد محترم کی طرف سے بڑے بھٹو کا جائز وارث بننے پر اعتراض تھا تو پھر سنبھالو اصلی بھٹو کے وارث کو کیا مخدوم امین فہیم بھٹو کے اصلی وارث نہیں بن سکتے؟ سبحان اﷲ! کیا عظمت ہے بھٹو کے وارث پارٹی سربراہ کی جسے اقتدار نہیں محض ایک وزارت بھی مل جائے تو بہتر ہے اور اگر اس کے علاوہ کچھ انتظامی عہدے اور نوکریاں گھر والوں کے لئے مختص ہو جائیں تو بھٹو کا خون رنگ لے ہی آئے گا۔ آج تک جعلی کمپنیوں کے ذریعے بینکوں سے قرضے اور کاروبار کے فراڈ کا تو بہت سنا تھا مگر اب بڑے بڑے سیاسی برانڈ بھی اپنا مال و منشور بیچنے کے لئے جعلی سیاسی جماعتیں بنا لیتے ہیں۔ آخر ووٹر کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں؟ بظاہر پارلیمنٹیرین ایک انتخابی عمل کی پارٹی ہے جو الیکشن میں اپنا ڈبا رکھ دیتی ہے مگر الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے بعد یہ ’’ڈبا پارٹی‘‘ نہ تو عوام سے رابطے میں ہوتی ہے اور نہ ہی تکنیکی اعتبار سے اس پارٹی کا اقتدار میں ہوتے ہوئے احتساب یا اس کی کارکردگی کا جائزہ لیا جا سکتا ہے ‘ ذرا سوچیئے!سندھ میں تھر ہلاکتوں کی ذمہ دار تو مقتدر پارلیمینٹیرین گروپ ہے مگر کون نہیں جانتا کہ سندھ حکومت میں اصل فیصلے آصف زرداری اور بلاول بھٹو کے ہوتے ہیں تو پھر عوام اپنے ووٹ کا حساب کس سے مانگیں؟ کس جماعت کو اپنا منشور یاد دلائیں؟ کسی نے صحیح کہا تھا کہ ’’ہاتھی کے دانت کھانے کے اور‘ دکھانے کے اور‘‘ پیپلزپارٹی والوں نے بھی دکھانے کے لئے مخدوم امین فہیم کو رکھا ہے اور کھانے والے لوگ کچھ اور ہیں ‘ یہ اور بات ہے کہ درشنی دانتوں نے بھی کچھ دبوچنے کی ناکام کوششیں ضرور کی تھی ‘ الیکشن کمیشن کی اعانت سے ہونے والا یہ فراڈ اب بند ہونا چاہیے‘ملک میں موجود منتخب جماعتی عہدیداروں کی فہرست طلب کرکے ان کے مالیاتی کھاتوں کی جانچ پڑتال کی جائے۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کوئی عہدیدار دونوں جماعتوں کا ایک ساتھ رکن نہ ہو اور نہ ہی ان کے اثاثے مشترکہ ہوں‘ پیپلزپارٹی یا دوسری جماعت کوئی دوکان نہیں کہ ایک جیسا مال ہی دو مختلف دوکانوں میں بیچا جائے‘ لوگوں کا حق ہے کہ وہ جس پارٹی‘ اس کے سربراہ اور اس کے منشور کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں وہ اسی پارٹی اور اس کے سربراہ کی جواب طلبی کر سکیں۔ نجانے یہ دونوں جماعتیں کس طرح پارٹی کے اجلاسوں میں مشترکہ فیصلہ کرتی ہیں‘ پیپلزپارٹی پارلیمانی گروپ بظاہر ایک ’’کینگرو پارٹی‘‘ ہے ایک ’’یرغمال‘‘ گروپ ہے جس کی ایک تاریخی وجہ ماضی کے مخصوص حالات تھے اب وہ حالات نہیں ‘ عوام کے ساتھ کیا جانے والا یہ ڈرامہ اب بند ہونا چاہیئے‘ آخر سیاسی جماعتیں عوام کی ہوتی ہیں کسی کی خاندانی جاگیر نہیں ‘ مگر پھر بقول شخصے!’’جھنڈا جھنڈا ہوتا ہے وزارت کا ہو یا سیاسی جماعت کا …اور اگر دو جماعتوں کا بالکل ایک جیسا جھنڈا ہو جائے تو کیا ہی بات ہے…‘‘
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024