ہم انہیں ملے تو نہیں لیکن ان کی تصویر میں تھوڑی ٹیڑھی گردن دیکھ کر یہ اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگتی کہ یہ کوئی سیدھے سبھاﺅ کے بندے ہر گز نہیں۔ قانون کی ڈگری لینے کے بعد ضلع کچہری میں تھوڑی خجل خواری سے سرکاری نوکری کی اہمیت ان پر واضح ہو گئی۔ صوبائی سروس کے مقابلہ کے امتحان کے ذریعے سپرنٹنڈنٹ جیل بن بیٹھے خوب سے خوب تر کی تلاش کے سفر میں فارن سروس آف پاکستان میں پڑاﺅ ڈالا۔ پھر یہ دیوانہ اس افسری کو بھی نوکری جان کر اس سے پلو چھڑانے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ سب کیوں کیا اور کیسے ہوا؟ اس سوال کا مختصر سا جواب یوں ہے‘ بس من موجی تھے جو دل نے کہا وہ مان لیا دنیا میں ہمارا دل ہی تو ہے والی شریعت کے پیروکار اب ان کی داستان حیات کا اگلا ورق پلٹتے ہیں۔ مڑ پھر کے کھوتی بوہڑ بیٹھاں‘ والا پنجابی محاورہ قدرے خلاف ادب سہی لیکن خلاف واقعہ ہر گز نہیں اب موصوف دوبارہ ضلع کچہری پہنچ گئے۔ یہ ضلع کچہری اسلام آباد ہے۔ بورے والہ کے اس نوجوان نے اس مرتبہ پیشہ وکالت کا یہیں سے آغاز کیا۔ ان دنوں ملک بھر میں تبدیلی کا موسم تھا۔ اس نوجوان نے بھی اپنی آنکھوں میں تبدیلی کاخواب سجا لیا۔ اب یہ عمران خان کے قافلے میں شامل ہو گئے۔ تبدیلی کا یہ خواب اس عہد کی پوری جواں نسل نے دیکھا۔ ادھر ہمارے ایک شاعر لاہور بھی ہیں‘ جو اپنے تئیں جوان بنے ٹھنے پھرتے ہیں۔ انہیں بھی تبدیلی کے اس موسم میں یہ خواب دیکھنے سے بھلا کون روک سکتا تھا....
اب آنکھ لگے یا نہ لگے اپنی بلا سے
اک خواب ضروری تھا سو وہ دیکھ لیا
اسلام آباد کچہری میں اس نوجوان عدنان حیدر رندھاوا کے دفتر سے بنی گالہ کی اونچی پہاڑی پر عمران خان کی رہائش گاہ کا فاصلہ کچھ زیادہ نہیں۔ پھر یہ فاصلہ عدنان حیدر رندھا کی لیاقت‘ ذہانت اور محنت سے کچھ اور سمٹ کر رہ گیا انہی دنوں مجھے ایک ٹیلی فونک میسج ملا‘ مجھے پاکستان تحریک انصاف کا ایڈیشنل سیکرٹری اطلاعات مقرر کر دیا گیا ہے۔ گاہے گاہے ان کی سرگرمیوں کی تصاویر اخبارات میں نظر پڑتی رہیں۔ خوشیاں ان کے چہرے بشرے سے پھوٹی پڑتی تھیں۔ ان کے اسد عمر کے الیکشن تک پارٹی سے معاملات ٹھیک رہے۔ کراچی سے آئے ہوئے اسد عمر کے لئے اسلام آباد کے حلقہ سے ٹکٹ کا مطالبہ ہمیں ان کے منہ سے اچھا لگا۔ انہوں نے اپنے لئے ٹکٹ نہیں مانگا۔ ورنہ تحریک انصاف تو امیدواروں کی جماعت ہے۔ سرسید احمد خاں سے پوچھا گیا اگر آپ اس وقت زندہ ہوتے تو خلافت کے مسئلے پر حضرت علیؑ کی حمایت کرتے یا حضرت عثمان غنیؓ کے ساتھ کھڑے ہوتے؟ ان کا جواب تھا‘ کہ جی میں کچھ اپنے لئے ہی کوشش کرتا‘ آج پاکستان کی سبھی سیاسی جماعتیں سرسید احمد خان کے ”مسلک“ کے لوگوں سے بھری پڑی ہیں۔ کوئی ڈیسک ورکر نہیں بننا چاہتا سبھی اسمبلی جانا چاہتے ہیں پھر ہمارے ملک کی سیاسی جماعتوں میں ”عشق و محبت“ کی فضا طاری ہے۔ ادھر اپنے سیاسی رہنماﺅں سے غیر مشروط وفاداری کا اظہار ہی جمہوریت کی معراج ہے۔ ہم انہیں پوجتے ہیں۔ چڑھاوے چڑھاتے ہیں۔ پچھلے الیکشنوں میں عمران خان کے چنیوٹ دورہ کے موقع پر ایک مقامی امیر کبیر امیدوار نے ان کے حضور سونے کا بلا پیش کیا۔ پیر پگاڑا شریف کے حر اور ایک سیاسی کارکن میں فرق ہونا چاہئے۔ لیکن ہم نے یہ فرق کہاں رہنے دیا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو سے ایک جیالے نے اپنی قربانیوں کا ذکر کیا۔ محترمہ کا جواب کیا ”شاندار“ تھا۔ آپ کو پارٹی کا مشکور ہونا چاہئے کہ آپ کو پارٹی کے لئے قربانیاں پیش کرنے کا موقعہ دیا گیا۔ ہمارے معاشرے میں سیاسی جماعتوں کے عہدے انتخابی ٹکٹ اور وزارتیں ‘ طاقت اور عزت کا سمبل ہیں۔ ہم ان کے حصول کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار بیٹھے رہتے ہیں۔ محترمہ بشریٰ رحمان نے ایک واقعہ لکھا ہے۔ میاں محمد شریف ایک روز نماز فجر کی ادائیگی کے بعد مسجد سے اپنے گھر پہنچے تو حیران رہ گئے۔ ایک جوان خوش پوش خاتون ان کے گھر میں جھاڑو دے رہی تھی۔ پوچھنے پر بتانے لگی کہ وہ صوبائی اسمبلی کی ممبر ہے اور مستقل طور پر یہی ڈیوٹی ادا کرنا چاہتی ہے۔ بادشاہ اور راخوش آمد اس کی تابعداری اور وفاداری سے خوش ہو کر اسے وزیر بنا لیا گیا‘ سیاسی کارکنوں کی غیر مشروط وفاداری سے لبریز ایسی فضاﺅں میں عدنان حیدر رندھاوا کی طرف سے کچھ اور طرح کی اطلاعات آنا شروع ہو گئیں۔ پہلے انہیں جہانگیر ترین کو تحریک انصاف کا سیکرٹری جنرل بنانے پر اعتراض ہوا۔ پھر یہ صاحب محمد اعظم سواتی کو خیبر پختونخواہ تحریک انصاف کا صدر بنانے پر معترض ہوئے۔ یہ عمران خان کے کور کمیٹی کی مدد سے جماعت چلانے کو بھی غیر جمہوری انداز سمجھے بیٹھے تھے۔ پھر تو حد ہو گئی۔ ایک دن فیس بک پر ان کا یہ تبصرہ موجود تھا ”کاش میں نے وہ سب کچھ دیکھا‘ سنایا اخذ نہ کیا ہوتا جو عمران خان سے محبت کرنے والے لاکھوں لوگ یقین نہیں کرتے۔ امید مر چکی ہے۔ اب کون ہے جو مسلم لیگ ن ‘ پیپلزپارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی کے سٹیٹس کا مقابلہ کر سکے۔“ پہلے ان کے جماعتی عہدے سے استعفے کی خبر ملی۔ آخر ایک روز انہوں نے تحریک انصاف بھی چھوڑ دی۔ اب انہوں نے عام آدمی پارٹی ‘ بنانے کا اعلان کر دیا ہے۔ واہگہ پار ہندوستان میں آدمی پارٹی نے خاصی دھوم مچا رکھی ہے۔ اس جماعت کے سربراہ نے ولی کی چیف منسٹری حاصل کر کے چھوڑ دی۔ اب ان کی پورے ہندوستان کی ”چیف منسٹری“ پر نظریں ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بھارت کی سرزمین پر جو کچھ ہوتا ہے اس سے تھوڑی بہت تحریک پا کر ہمارے ہاں بھی ایسی اوٹ پٹانگ حرکتیں شروع کر دی جاتی ہیں۔ ہمیں عدنان حیدر رندھاوا سے پوری ہمدردی ہے۔ کاش وہ تحریک انصاف نہ چھوڑتے ۔ لیکن بھارت کے اروند کجریوال کی نقالی کرنے والے ہمارے عدنان رندھاوا کے لئے مولانا حسرت موہانی کے نقش قدم جو موجود تھے۔حسرت موہانی نے مسلم لیگی جاگیرداری ماحول میں فقر و فاقہ کی اعلیٰ روایات زندہ رکھیں۔ عدنان رندھاوا تحریک انصاف کے ”ننھے منے“ حسرت موہانی بن سکتے تھے کہ ان میں دیانت‘ دلیری ‘ دلیری سب کچھ موجود تھا۔ وائے افسوس ! اب ہم ان کی ”جہاں سیاسی موت“ پر سوائے اظہار غم کے اور کیا کرسکتے ہیں کہ یہ جلد باز فصل ہونے سے پہلے ہی اس کی کائی کے چکر میں پڑ گئے ہیں۔
پس تحریر:۔ اپنا ہفتہ وار کالم مکمل کر چکا تھا کہ یہ خبر کان پڑی ہے۔ میاں شہبازشریف نے چولستان میں بے زمین کاشتکاروں کو زمین دینے کا اعلان کیا ہے۔ اب خدا جانے یہ حبیب جالب کا کلام مترنم پڑھنے کا اعجاز ہے یا پھر شاید میاں شہبازشریف اپنے اسی درد دل کے باعث حبیب جالب کی نظمیں لہک لہک کر سناتے رہتے ہی۔ یہ خبر اچھی ہے۔ ایک ننھی منی کرن سے ہی ویرانے کی شام جی اٹھتی ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38