کہتے ہیں کہ اب چند ساعتوں کا فاصلہ ہی باقی رہ گیا ہے۔ پارلیمنٹ کی عملداری قائم ہو جائے گی۔ساری جماعتوں کے سارے سیانے سر جوڑ کر بیٹھے ہیں۔ آئین میں شامل جرنیلی آمریت والی کون سی شق نکالی جائے، کون سی رہنے دی جائے۔ میثاق جمہوریت کے اثر ونفوذ کا مشترکہ درد بھی ہم آہنگیوں اور قربتوں کی راہ نکال رہا ہے۔ پھر سے ہاں میں ہاں ملانے کا ماحول بن رہا ہے۔ آئینی پیکیج کیلئے ہم نوا رطب اللسانی۔اللہ اللہ۔
جوڈیشل کمیشن کا آئیڈیا بھی جم رہا ہے۔ سرحد کے نام کی تبدیلی کیلئے ”ہندتا“ کی زلفوں کے اسیر سرحدی گاندھی کے چیلوں کی آئینی سرکشی پر بھی سرتسلیم خم ہو رہا ہے۔ بھئی کس لئے؟ جی ہاں صرف پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے.... اس بالادستی سے پہلے پہلے لٹیا ہی ڈبو دی جائے گی، بالادستی دکھانے اور منوانے کیلئے کچھ بچے گا ہی نہیں تو اس بالادستی کا اچار کیا قبرستان کے مجاوروں کو کھلا کر ان کا نشہ ہرن کیا جائے گا؟
غضب خدا کا، منتخب پارلیمنٹ کے ہوتے ہوئے سب کچھ تہس نہس ہو رہا ہے اور اس پارلیمنٹ کو بالادست بنانے کے بس منصوبے ہی چل رہے ہیں۔ دو سال تک چکمے ہی ملتے رہے ہیں۔ ایک دن آئینی پیکیج پارلیمنٹ میں لانے کی ڈیڈ لائن دی جاتی اور دوسرے دن زلفِ گرہ گیر الجھی ہی نظر آتی۔ وزیراعظم ایک تاریخ دیتے تو صدر ذی وقار حسب روایت وعدہ فردا پہ ٹال دیتے۔ کرتے کراتے 23 مارچ پر سوئی اٹک گئی۔ وزیراعظم تو 23 مارچ سے پہلے پہلے آئینی پیکیج لانے اور منظور کرانے کے سہانے سپنے دکھائے چلے جارہے تھے۔ انہوں نے 23 مارچ کو صدر کی جانب سے قوم کو خوشخبری سنانے کی خوشخبری بھی دے دی مگر صدر ذی وقار کے سپاٹ چہرے پر خوشی و حیرت کا کہیں شائبہ تک نظر نہ آیا اور پھر....
ایسے جاتی ہے زندگی کی امید
جیسے پہلو سے یار اٹھتا ہے
23مارچ بھی دبے پاﺅں گزر گیا۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کے تصور پر اداسی بال کھولے ہی سوئی رہی البتہ اتفاقِ باہمی کے ڈنکے خوب بج رہے ہیں۔ ماضی قریب میں پارلیمنٹ اور عدلیہ کی آزادی کے اپنے اپنے تصور کے تحت باہم دست و گریباں ہونے والے جیالوں، متوالوں کے اب ایک دوسرے کو پچکارتے، باہیں پھیلاتے گلے ملنے والی شعبدہ بازیوں کے مناظر ظالم تاریخ کے اوراق میں محفوظ کئے جارہے ہیں۔
یہ سارے اہتمام باہمی اس پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے کئے جا رہے ہیں جس کے ہوتے ہوئے اس وطنِ عزیز کی آزاد دھرتی پر ڈرون حملوں کا اودھم مچا دیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ کاغذی قرار داد منظور کرتی ہے۔ وزیراعظم تشویش کا اظہار کرتے ہیں، وزیردفاع بے بسی کی تصویر بنے بیٹھ جاتے ہیں مگر ڈرون کے ڈراوے ہی نہیں، ہماری دھرتی کا سینہ چھلنی کرنے اور ہمارے معصوم شہریوں کے بھرے پُرے گھروں کو اجاڑنے کی بدمعاشی بھی مسلسل چل رہی ہے۔ بجٹ پارلیمنٹ منظور کرتی ہے اور اس پر عملدرآمد آئی ایم ایف کراتی ہے۔ خزانے کے وزیر و مشیر کے تقرر کیلئے لمبے ہاتھوں کے ذریعے پارلیمنٹ کے کان کھینچے جاتے ہیں۔ چاہے کوئی دشمن ملک کی کسی کمپنی کا ادنیٰ ملازم ہو، آئی ایم ایف کو وارا کھاتا ہے اور اس کے سر پر ہُما بٹھا دیا جاتا ہے۔ اس پر ہی کیوں اکتفاءکیا جائے۔ اسے پارلیمنٹ کا معزز رکن بنانے کیلئے مستعفی ہونے والے وزیر خزانہ سے سینٹ کی رکنیت سے بھی استعفیٰ دلوا دیا جاتا ہے۔ ہم پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کرتے ہیں اور کٹھ پتلی بنے ناچے چلے جارہے ہیں۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کے نام پر اپنی خودمختاری کی تمنارکھنے والے وزیراعظم کو عوامی مسائل کا بس احساس ہے۔ مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ جیسے گھمبیر مسائل کس کے پیدا کردہ ہیں۔ پارلیمنٹ میں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے بھی گھبراتے، شرماتے ہیں کہ کہیں ان کے بازوﺅں کی مضبوطی کا بننے والا موقع ضائع نہ چلا جائے۔
بھئی، ٹیکسوں پر ٹیکس کون لگوا رہا ہے۔ عالمی منڈی میں ٹکے ٹوکری ہونے کے باوجود پٹرول، ڈیزل، تیل، گیس کے نرخ آئے روز بڑھانے پر کون مجبور کر رہا ہے۔ عوام کو اذیت دے کر ذبح کرنے کیلئے کند چھری کون آپ کے ہاتھوں میں پکڑا رہا ہے۔ بجلی فراہم بھی نہ کرو اور اس کے بلوں میں بھی ہر ماہ اضافہ کئے جاﺅ کی پالیسی آپ سے کون بنوا رہا ہے۔ یہ سب جانتے ہواور پھر بھی پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کرتے ہو۔ اور یہ کیا ہے جناب! امریکہ کی نئی افغان پالیسی ڈکٹیٹ کرانے اور اس کی بنیاد پر آپ کی ملکی اور قومی آزادی کو پارہ پارہ کرنے کی منصوبہ بندی پر عمل کرانے کیلئے مذاکرات بھی پارلیمنٹ سے بالا بالا شر وع کرا دیئے گئے ہیں۔ ذرا قوم کو بتایئے تو سہی، امریکہ کے ساتھ سٹرٹیجک مذاکرات کیلئے جانے والے کیا پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے کر اور اس سے مذاکرات کا ایجنڈا تیار کراکے گئے ہیں۔جمہوریت کی عملداری کے تمغے سینوں پر سجے ہیں اور سٹرٹیجک مذاکرات کرنے عسکری قیادتیں جارہی ہیں۔پھر ٹھیک ہی تو ہے کہ انہیں اپنے مفاداتی چکروں میں ہماری جمہوری حکمرانی سُوٹ نہیں کرتی۔ ایسی ننگی اور گھناﺅنی سازشوں کو دیکھ کر بھی آپ اسی کی انگلیوں پر ناچے چلے جارہے ہیں اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے شوق میں باہیں پھیلائے ایک دوسرے کے گلے مل رہے ہیں۔ پھر آپ اس بالادستی کو لاگو کہاں کریں گے؟ وہ سب کچھ اجاڑ دے گا، بے دست و پا بنا دے گا اور آپ پارلیمنٹ کی بالادستی کا تعویز گلے میں لٹکائے لاشوں کے اوپر سے گزرتے اپنے منطقی انجام کی جانب بڑھتے چلے جائیں گے۔ خدارا خود کو سنبھالئے۔ ارض پاک کی حفاظت و سلامتی کی فکر کیجئے۔ دشمن باﺅلا ہو چکا ہے۔ کاٹ کھانے کو دوڑا چلا آرہا ہے۔ آپ بچاﺅ نہیں کریں گے تو کیا پارلیمنٹ کو چاٹنے سے آپ کی بچت ہوجائے گی؟ اور بھائی! اس کی مہلت بھی آپ کو کون دے گا۔
جوڈیشل کمیشن کا آئیڈیا بھی جم رہا ہے۔ سرحد کے نام کی تبدیلی کیلئے ”ہندتا“ کی زلفوں کے اسیر سرحدی گاندھی کے چیلوں کی آئینی سرکشی پر بھی سرتسلیم خم ہو رہا ہے۔ بھئی کس لئے؟ جی ہاں صرف پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے.... اس بالادستی سے پہلے پہلے لٹیا ہی ڈبو دی جائے گی، بالادستی دکھانے اور منوانے کیلئے کچھ بچے گا ہی نہیں تو اس بالادستی کا اچار کیا قبرستان کے مجاوروں کو کھلا کر ان کا نشہ ہرن کیا جائے گا؟
غضب خدا کا، منتخب پارلیمنٹ کے ہوتے ہوئے سب کچھ تہس نہس ہو رہا ہے اور اس پارلیمنٹ کو بالادست بنانے کے بس منصوبے ہی چل رہے ہیں۔ دو سال تک چکمے ہی ملتے رہے ہیں۔ ایک دن آئینی پیکیج پارلیمنٹ میں لانے کی ڈیڈ لائن دی جاتی اور دوسرے دن زلفِ گرہ گیر الجھی ہی نظر آتی۔ وزیراعظم ایک تاریخ دیتے تو صدر ذی وقار حسب روایت وعدہ فردا پہ ٹال دیتے۔ کرتے کراتے 23 مارچ پر سوئی اٹک گئی۔ وزیراعظم تو 23 مارچ سے پہلے پہلے آئینی پیکیج لانے اور منظور کرانے کے سہانے سپنے دکھائے چلے جارہے تھے۔ انہوں نے 23 مارچ کو صدر کی جانب سے قوم کو خوشخبری سنانے کی خوشخبری بھی دے دی مگر صدر ذی وقار کے سپاٹ چہرے پر خوشی و حیرت کا کہیں شائبہ تک نظر نہ آیا اور پھر....
ایسے جاتی ہے زندگی کی امید
جیسے پہلو سے یار اٹھتا ہے
23مارچ بھی دبے پاﺅں گزر گیا۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کے تصور پر اداسی بال کھولے ہی سوئی رہی البتہ اتفاقِ باہمی کے ڈنکے خوب بج رہے ہیں۔ ماضی قریب میں پارلیمنٹ اور عدلیہ کی آزادی کے اپنے اپنے تصور کے تحت باہم دست و گریباں ہونے والے جیالوں، متوالوں کے اب ایک دوسرے کو پچکارتے، باہیں پھیلاتے گلے ملنے والی شعبدہ بازیوں کے مناظر ظالم تاریخ کے اوراق میں محفوظ کئے جارہے ہیں۔
یہ سارے اہتمام باہمی اس پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے کئے جا رہے ہیں جس کے ہوتے ہوئے اس وطنِ عزیز کی آزاد دھرتی پر ڈرون حملوں کا اودھم مچا دیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ کاغذی قرار داد منظور کرتی ہے۔ وزیراعظم تشویش کا اظہار کرتے ہیں، وزیردفاع بے بسی کی تصویر بنے بیٹھ جاتے ہیں مگر ڈرون کے ڈراوے ہی نہیں، ہماری دھرتی کا سینہ چھلنی کرنے اور ہمارے معصوم شہریوں کے بھرے پُرے گھروں کو اجاڑنے کی بدمعاشی بھی مسلسل چل رہی ہے۔ بجٹ پارلیمنٹ منظور کرتی ہے اور اس پر عملدرآمد آئی ایم ایف کراتی ہے۔ خزانے کے وزیر و مشیر کے تقرر کیلئے لمبے ہاتھوں کے ذریعے پارلیمنٹ کے کان کھینچے جاتے ہیں۔ چاہے کوئی دشمن ملک کی کسی کمپنی کا ادنیٰ ملازم ہو، آئی ایم ایف کو وارا کھاتا ہے اور اس کے سر پر ہُما بٹھا دیا جاتا ہے۔ اس پر ہی کیوں اکتفاءکیا جائے۔ اسے پارلیمنٹ کا معزز رکن بنانے کیلئے مستعفی ہونے والے وزیر خزانہ سے سینٹ کی رکنیت سے بھی استعفیٰ دلوا دیا جاتا ہے۔ ہم پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کرتے ہیں اور کٹھ پتلی بنے ناچے چلے جارہے ہیں۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کے نام پر اپنی خودمختاری کی تمنارکھنے والے وزیراعظم کو عوامی مسائل کا بس احساس ہے۔ مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ جیسے گھمبیر مسائل کس کے پیدا کردہ ہیں۔ پارلیمنٹ میں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے بھی گھبراتے، شرماتے ہیں کہ کہیں ان کے بازوﺅں کی مضبوطی کا بننے والا موقع ضائع نہ چلا جائے۔
بھئی، ٹیکسوں پر ٹیکس کون لگوا رہا ہے۔ عالمی منڈی میں ٹکے ٹوکری ہونے کے باوجود پٹرول، ڈیزل، تیل، گیس کے نرخ آئے روز بڑھانے پر کون مجبور کر رہا ہے۔ عوام کو اذیت دے کر ذبح کرنے کیلئے کند چھری کون آپ کے ہاتھوں میں پکڑا رہا ہے۔ بجلی فراہم بھی نہ کرو اور اس کے بلوں میں بھی ہر ماہ اضافہ کئے جاﺅ کی پالیسی آپ سے کون بنوا رہا ہے۔ یہ سب جانتے ہواور پھر بھی پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کرتے ہو۔ اور یہ کیا ہے جناب! امریکہ کی نئی افغان پالیسی ڈکٹیٹ کرانے اور اس کی بنیاد پر آپ کی ملکی اور قومی آزادی کو پارہ پارہ کرنے کی منصوبہ بندی پر عمل کرانے کیلئے مذاکرات بھی پارلیمنٹ سے بالا بالا شر وع کرا دیئے گئے ہیں۔ ذرا قوم کو بتایئے تو سہی، امریکہ کے ساتھ سٹرٹیجک مذاکرات کیلئے جانے والے کیا پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے کر اور اس سے مذاکرات کا ایجنڈا تیار کراکے گئے ہیں۔جمہوریت کی عملداری کے تمغے سینوں پر سجے ہیں اور سٹرٹیجک مذاکرات کرنے عسکری قیادتیں جارہی ہیں۔پھر ٹھیک ہی تو ہے کہ انہیں اپنے مفاداتی چکروں میں ہماری جمہوری حکمرانی سُوٹ نہیں کرتی۔ ایسی ننگی اور گھناﺅنی سازشوں کو دیکھ کر بھی آپ اسی کی انگلیوں پر ناچے چلے جارہے ہیں اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے شوق میں باہیں پھیلائے ایک دوسرے کے گلے مل رہے ہیں۔ پھر آپ اس بالادستی کو لاگو کہاں کریں گے؟ وہ سب کچھ اجاڑ دے گا، بے دست و پا بنا دے گا اور آپ پارلیمنٹ کی بالادستی کا تعویز گلے میں لٹکائے لاشوں کے اوپر سے گزرتے اپنے منطقی انجام کی جانب بڑھتے چلے جائیں گے۔ خدارا خود کو سنبھالئے۔ ارض پاک کی حفاظت و سلامتی کی فکر کیجئے۔ دشمن باﺅلا ہو چکا ہے۔ کاٹ کھانے کو دوڑا چلا آرہا ہے۔ آپ بچاﺅ نہیں کریں گے تو کیا پارلیمنٹ کو چاٹنے سے آپ کی بچت ہوجائے گی؟ اور بھائی! اس کی مہلت بھی آپ کو کون دے گا۔