برطانیہ میں اسی طرح پارلیمنٹ کو اقتدار اعلیٰ حاصل ہے۔ پاکستان میں قومی اسمبلی ، سینٹ دونوں ہی کی کوئی اہمیت نہیں۔ نہ کسی اہم معاملہ میں انہیں اعتماد میںلیا جاتا ہے نہ صلاح مشورہ۔
ملک اور قوم چونے گارے سے تعمیر کوئی جغرافیائی سر حد نہیں ہوتی۔ لوگ فیصلے کر لیتے ہیں کہ وہ ایک نظام کے تحت طے شدہ قواعد و ضوابط اپنا کراکٹھے رہیں گے۔ یہ قواعد و ضوابط اس ملک کا آئین فراہم کرتا ہے جو کہ بنیادی قانون ہوتا ہے۔ ملک کے سب حصوں کے ساتھ انصاف کی ضمانت دی جاتی ہے۔ حقوق کا تحفظ ، کام کرنے کے مواقع ، جان و مال کی حفاظت ، ملک کے طول و عرض میں آسانی سے آنے جانے کی سہولت ، کاروبار کے اور ملازمتوں کے مواقع ، ان تمام محرکات سے ایک ایسا ماحول پیدا ہو جاتا ہے جو ملک کو ایک بہت بڑے گھر کی طرح بنا دیتاہے‘ جہاں مکینوں کو تحفظ ہو، آسودگی ہو اور ہر طرح کا آرام ہو ۔ اپنی قسمت خود بنانے کا اختیار ہو۔ اگر یہ سب میسر آ جائے تو ساتھ رہنے والے رفتہ رفتہ ایک قوم بن جاتے ہیں، جن کا دکھ درد خوشی غمی سب سانجھا ہو تا ہے۔ سوچ ایک جیسی ہوتی ہے ، تو قعات ایک جیسی، خواہشات ملی جلی۔ لیکن یگانگت اسی وقت پیدا ہو تی ہے جب لوگ با اختیار ہوں، اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہوں، خود کو محفوظ سمجھتے ہوں۔ یہ سب کچھ نہیں ہو گا تو لوگوں کو اس گھر سے یا اس وطن سے محبت نہیںہو گی۔ چونے گارے سے بنائی ہوئی عمارت سے بھی محبت اسی وقت کی جاسکتی ہے جب وہ تحفظ کی ضمانت دے۔
ہمارے یہاں ہر چند سال بعد نظام تلپٹ ہو تا رہا ہے ۔قانون کی حکمرانی کی بجائے حکمرانوں کا قانون زیادہ تر سکہ رائج الوقت رہا ہے۔ صوبوں کو مرکز سے شکایت کہ دستور میں فراہم کردہ خود مختاری میسر نہیں۔ ہر مسئلہ پر مرکز کی بالا دستی رہی ہے۔ انتخابات جس ڈھب سے کرائے جاتے ہیں عوام کو اپنی مرضی کی حکومت بنانے کا موقعہ فراہم نہیں کرتے نا ہی حکومت تبدیل کرنے کی آزادی میسر ہے۔ قصہ مختصر کہ ہم اگر آج کے پاکستان کا قائد کے پاکستان سے موازنہ کریں تو کوئی قدر مشترک نظر نہیں آتی۔ نہ اسلام، نہ جمہوریت، نہ قانون کی حکمرانی ، نہ شخصی آزادی۔ اس محرومی کا ذمہ دار کون ہے، عوام، حکمران یا آئے دن تبدیل ہو جانے والا نظام؟قدرت نے ہمارے ملک کو سب کچھ عطا کر رکھا ہے ، چار موسم ، ذر خیز زمین، محنتی عوام ۔ ذرعی اعتبار سے ہم ہر قسم کی سبزی‘ پھل ‘پھول پیدا کرنے کی استطاعت۔ ہم دنیا کی واحد اسلامی نیو کلیر پاور ہیں (یہ بھارت اور امریکہ دونوں کے دل میں بہت کھٹکتی ہے) ہمارے یہاں اگر کوئی مسئلہ ہے تو وہ قیادت کے بحران کا ہے۔ خود کو قائد کہلوا کے کوئی قائد بن نہیں جاتا۔ حادثاتی طور پر اقتدار تک پہنچ جانے سے بھی ضروری نہیں کہ قائد انہ صلاحیتیں ایسے لوگوں میں در آئیں۔ اسکے لئے محنت شاقہ کی ضرورت ہے۔ اقبال نے رہنمائی کے اوصاف بیان کرتے ہوئے کہا تھا…؎
نگاہ بلند، سخن دلنواز، جان پُر
یہی ہے رختِ سفر میر کارواں کے لئے
آج کوئی ہے جو اقبال کے اس معیار کو چھوتا تک ہو؟ لیکن اقبال ہی نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ…؎
نہیں ہے نو اُمید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی
ہمت اور حوصلہ کی ضرورت ہے‘ انشاء اللہ ایک دن ہم اقوام عالم میں اپنا جائز مقام ضرور حاصل کر لینگے۔
ملک اور قوم چونے گارے سے تعمیر کوئی جغرافیائی سر حد نہیں ہوتی۔ لوگ فیصلے کر لیتے ہیں کہ وہ ایک نظام کے تحت طے شدہ قواعد و ضوابط اپنا کراکٹھے رہیں گے۔ یہ قواعد و ضوابط اس ملک کا آئین فراہم کرتا ہے جو کہ بنیادی قانون ہوتا ہے۔ ملک کے سب حصوں کے ساتھ انصاف کی ضمانت دی جاتی ہے۔ حقوق کا تحفظ ، کام کرنے کے مواقع ، جان و مال کی حفاظت ، ملک کے طول و عرض میں آسانی سے آنے جانے کی سہولت ، کاروبار کے اور ملازمتوں کے مواقع ، ان تمام محرکات سے ایک ایسا ماحول پیدا ہو جاتا ہے جو ملک کو ایک بہت بڑے گھر کی طرح بنا دیتاہے‘ جہاں مکینوں کو تحفظ ہو، آسودگی ہو اور ہر طرح کا آرام ہو ۔ اپنی قسمت خود بنانے کا اختیار ہو۔ اگر یہ سب میسر آ جائے تو ساتھ رہنے والے رفتہ رفتہ ایک قوم بن جاتے ہیں، جن کا دکھ درد خوشی غمی سب سانجھا ہو تا ہے۔ سوچ ایک جیسی ہوتی ہے ، تو قعات ایک جیسی، خواہشات ملی جلی۔ لیکن یگانگت اسی وقت پیدا ہو تی ہے جب لوگ با اختیار ہوں، اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہوں، خود کو محفوظ سمجھتے ہوں۔ یہ سب کچھ نہیں ہو گا تو لوگوں کو اس گھر سے یا اس وطن سے محبت نہیںہو گی۔ چونے گارے سے بنائی ہوئی عمارت سے بھی محبت اسی وقت کی جاسکتی ہے جب وہ تحفظ کی ضمانت دے۔
ہمارے یہاں ہر چند سال بعد نظام تلپٹ ہو تا رہا ہے ۔قانون کی حکمرانی کی بجائے حکمرانوں کا قانون زیادہ تر سکہ رائج الوقت رہا ہے۔ صوبوں کو مرکز سے شکایت کہ دستور میں فراہم کردہ خود مختاری میسر نہیں۔ ہر مسئلہ پر مرکز کی بالا دستی رہی ہے۔ انتخابات جس ڈھب سے کرائے جاتے ہیں عوام کو اپنی مرضی کی حکومت بنانے کا موقعہ فراہم نہیں کرتے نا ہی حکومت تبدیل کرنے کی آزادی میسر ہے۔ قصہ مختصر کہ ہم اگر آج کے پاکستان کا قائد کے پاکستان سے موازنہ کریں تو کوئی قدر مشترک نظر نہیں آتی۔ نہ اسلام، نہ جمہوریت، نہ قانون کی حکمرانی ، نہ شخصی آزادی۔ اس محرومی کا ذمہ دار کون ہے، عوام، حکمران یا آئے دن تبدیل ہو جانے والا نظام؟قدرت نے ہمارے ملک کو سب کچھ عطا کر رکھا ہے ، چار موسم ، ذر خیز زمین، محنتی عوام ۔ ذرعی اعتبار سے ہم ہر قسم کی سبزی‘ پھل ‘پھول پیدا کرنے کی استطاعت۔ ہم دنیا کی واحد اسلامی نیو کلیر پاور ہیں (یہ بھارت اور امریکہ دونوں کے دل میں بہت کھٹکتی ہے) ہمارے یہاں اگر کوئی مسئلہ ہے تو وہ قیادت کے بحران کا ہے۔ خود کو قائد کہلوا کے کوئی قائد بن نہیں جاتا۔ حادثاتی طور پر اقتدار تک پہنچ جانے سے بھی ضروری نہیں کہ قائد انہ صلاحیتیں ایسے لوگوں میں در آئیں۔ اسکے لئے محنت شاقہ کی ضرورت ہے۔ اقبال نے رہنمائی کے اوصاف بیان کرتے ہوئے کہا تھا…؎
نگاہ بلند، سخن دلنواز، جان پُر
یہی ہے رختِ سفر میر کارواں کے لئے
آج کوئی ہے جو اقبال کے اس معیار کو چھوتا تک ہو؟ لیکن اقبال ہی نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ…؎
نہیں ہے نو اُمید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی
ہمت اور حوصلہ کی ضرورت ہے‘ انشاء اللہ ایک دن ہم اقوام عالم میں اپنا جائز مقام ضرور حاصل کر لینگے۔