آل انڈیا مسلم لیگ نے 23 مارچ 1940ءبمقام منٹو پارک‘ حالیہ مینار پاکستان میں برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک آزاد اسلامی ریاست کا مطالبہ کیا۔ جس کو 7 سال کے مختصر وقت میں حقیقت کا روپ دے دیا۔ مسلم لیگ کی کامیابی نے برصغیر پاک و ہند کو تقسیم کیا‘ عالم اسلام کی سب سے بڑی اسلامی ریاست وجود میں لائی۔ نیز غلام امت کو نظریاتی اسلامی شناخت عطا کی جو احیائے اسلام کیلئے مہمیز ثابت ہوئی۔ قائداعظم کی حکمت عملی اور مسلم لیگ کی نظریاتی تنظیمی صلاحیت نے پاکستان بنایا جو آج اپنی جوہری‘ جہادی اور نظریاتی روح کے باعث پوری دنیا بالخصوص عالمی اتحادی ممالک کی آنکھ میں کھٹکتا ہے۔
قیام پاکستان کے وقت بھی مسلم لیگ نظریاتی دشمنوں میں گھری ہوئی‘ یعنی منتشر‘ متفرق اور باہم متصادم تھی۔ جیسا کہ آج کی مسلم لیگ پاکستان کی سب سے بڑی جمہوری قوت ہونے کے باوجود باہم متصادم ہونے کے باعث بے ثمر ہے۔ فی الحقیقت قائداعظمؒ کی سیاسی و تنظیمی صلاحیت نے مسلم لیگ کو ثمربار کیا جس کی آج ضرورت ہے۔
قائداعظمؒ کی حکمت عملی کے تین پہلو تھے۔ پہلا پہلو مسلم لیگ کی تنظیم نو تھی۔ دوسرا پہلو منزل کی نشاندہی سعی اور حصول تھا جبکہ تیسرا پہلو منزل کو مضبوط ‘ محفوظ اور مستحکم کرنے کیلئے طریق کار وضع کرنا تھا۔ الحمدللہ قائداعظمؒ نے یہ تینوں پہلو احسن طریقے سے سرانجام دئیے۔
میثاق لکھنﺅ کے بعد مسلم لیگ انتشار کا شکار تھی۔ حتٰی کہ جناح ؒاور شفیع لیگ میں بٹ گئی۔ قائداعظمؒ لندن میں رہائش پذیر ہو گئے۔ حتٰی کہ 1937ءکے انتخابات آ گئے اور مسلم لیگ زیرو رہی۔ کانگرس وزارتوں کے بعد علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ نے مسلم لیگ کو نظریاتی یکجہتی کے بنیاد پر استوار کیا۔ یہی نظریاتی یکجہتی قرارداد پاکستان کی صورت میں ظہور پذیر ہوئی۔ قرارداد پاکستان نشان راہ ہے اور قیام پاکستان وہ مقام ہے جو خطے کے مسلمانوں کے بقا‘ سلامتی اور استحکام کا ضامن ہے۔ قائداعظمؒ کی قیادت میں مسلم لیگ کی تنظیمی صلاحیت 1945-46ءکے انتخابات کے نتائج ہیں جب ہندی مسلمان مسلم لیگ کے علم تلے صلیبی انگریز سرکار‘ کانگرسی برہمن ہندو کانگرس کے اشیرباد نیشنلسٹ علمائ‘ سرحدی گاندھی‘ جی ایم سید اور یونینسٹ پارٹی کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن گئی اور پاکستان وجود میں آیا۔ مسلم لیگ کے سارے دھڑے قائداعظمؒ اور اقبالؒ کے نظریاتی وارث بنتے ہیں اور آپس میں متصادم ہیں۔ مسلم لیگ کی موجودہ دھڑے بندیوں سے نہ صرف خطے کے مسلمانوں کا نقصان ہے بلکہ تمام مظلوم‘ ہندو اقلیتی اقوام بھی نقصان اٹھا رہے ہیں۔ مسلم لیگوں کا اتحاد مظلوم اقوام کی پکار ہے۔ قائداعظمؒ اور اقبالؒ کی وارث مسلم لیگیں وہی ہیں جو ان کے نظریاتی سیاسی اور تنظیمی ورثے کو لے کر چلیں۔
قیام پاکستان کے وقت بھی مسلم لیگ نظریاتی دشمنوں میں گھری ہوئی‘ یعنی منتشر‘ متفرق اور باہم متصادم تھی۔ جیسا کہ آج کی مسلم لیگ پاکستان کی سب سے بڑی جمہوری قوت ہونے کے باوجود باہم متصادم ہونے کے باعث بے ثمر ہے۔ فی الحقیقت قائداعظمؒ کی سیاسی و تنظیمی صلاحیت نے مسلم لیگ کو ثمربار کیا جس کی آج ضرورت ہے۔
قائداعظمؒ کی حکمت عملی کے تین پہلو تھے۔ پہلا پہلو مسلم لیگ کی تنظیم نو تھی۔ دوسرا پہلو منزل کی نشاندہی سعی اور حصول تھا جبکہ تیسرا پہلو منزل کو مضبوط ‘ محفوظ اور مستحکم کرنے کیلئے طریق کار وضع کرنا تھا۔ الحمدللہ قائداعظمؒ نے یہ تینوں پہلو احسن طریقے سے سرانجام دئیے۔
میثاق لکھنﺅ کے بعد مسلم لیگ انتشار کا شکار تھی۔ حتٰی کہ جناح ؒاور شفیع لیگ میں بٹ گئی۔ قائداعظمؒ لندن میں رہائش پذیر ہو گئے۔ حتٰی کہ 1937ءکے انتخابات آ گئے اور مسلم لیگ زیرو رہی۔ کانگرس وزارتوں کے بعد علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ نے مسلم لیگ کو نظریاتی یکجہتی کے بنیاد پر استوار کیا۔ یہی نظریاتی یکجہتی قرارداد پاکستان کی صورت میں ظہور پذیر ہوئی۔ قرارداد پاکستان نشان راہ ہے اور قیام پاکستان وہ مقام ہے جو خطے کے مسلمانوں کے بقا‘ سلامتی اور استحکام کا ضامن ہے۔ قائداعظمؒ کی قیادت میں مسلم لیگ کی تنظیمی صلاحیت 1945-46ءکے انتخابات کے نتائج ہیں جب ہندی مسلمان مسلم لیگ کے علم تلے صلیبی انگریز سرکار‘ کانگرسی برہمن ہندو کانگرس کے اشیرباد نیشنلسٹ علمائ‘ سرحدی گاندھی‘ جی ایم سید اور یونینسٹ پارٹی کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن گئی اور پاکستان وجود میں آیا۔ مسلم لیگ کے سارے دھڑے قائداعظمؒ اور اقبالؒ کے نظریاتی وارث بنتے ہیں اور آپس میں متصادم ہیں۔ مسلم لیگ کی موجودہ دھڑے بندیوں سے نہ صرف خطے کے مسلمانوں کا نقصان ہے بلکہ تمام مظلوم‘ ہندو اقلیتی اقوام بھی نقصان اٹھا رہے ہیں۔ مسلم لیگوں کا اتحاد مظلوم اقوام کی پکار ہے۔ قائداعظمؒ اور اقبالؒ کی وارث مسلم لیگیں وہی ہیں جو ان کے نظریاتی سیاسی اور تنظیمی ورثے کو لے کر چلیں۔